زہر قاتل مشورہ

ایک دفعہ حضرت موسی علیہ السلام نے فرعون سے کہا اے فرعون! تو اسلام قبول کرلے اس کے عوض تیری آخرت تو بہتر ہوہی جائے گی مگر دنیا میں بھی تجھے چارنعمتوں سے نوازا جائے گا۔ تو علی الاعلان اس بات کا اقرار کر لے کہ الله تعالی کے سوا اور کوئی خدا نہیں وہ بلندی پر،افلاک اور ستاروں کا پستی میں، جن وانس شیاطین اور جانوروں کا پیدا کرنے والا ہے۔ پہاڑوں دریاؤں، جنگلوں اور بیابانوں کا بھی خالق و مالک ہے۔ اس کی سلطنت غیر محدود ہے اور وہ بے نظیر و بے مثال ہے۔ وہ ہرشخص و ہر مکان کا نگہبان ہے۔ عالم میں ہر جاندار کو رزق دینے والا ہے۔ انسانوں اور زمینوں کا محافظ ہے نباتات میں پھول پیدا کرنے والا اور بندوں کے دلوں کی باتوں کو جانے والا سرکشوں پر حاکم اور ان کی سرکوبی کرنے والا ہے۔ 

فرعون نے کہا وہ چار چیزیں کونسی ہیں، آپ علیہ السلام مجھے بتلائیں، شایدان عمده نعمتوں کے سبب میرے کفر کا شکنجہ ڈھیلا ہو جائے، اور میرے اسلام لانے سے سینکڑوں کے کفر کا قفل ٹوٹ جائے اور وہ مشرف بہ اسلام ہو جائیں۔ اے موسی علیہ السلام  ! جلدان نعمتوں کے متعلق بیان کر ممکن ہے کہ میری ہدایت کا دروازہ کھل جائے۔“ 

حضرت موسی علیہ السلام نے حکم الہی سے فرمایا اگر اسلام قبول کر لے تو پہلی  نعمت تجھے یہ ملے گی کہ تو ہمیشہ تندرست رہے گا اور کبھی بھی بیمار نہیں ہوگا۔ اپنے خانہ تن میں تعلق خداوندی کا ایسا خزانہ دیکھے گا جس کو حاصل کرنے کے لئے تو اپنی تمام خواہشات نفسانی کو مرضیات الہی کے تابع کرنے کے لئے مجاہدات میں جان تک دینے کو تیار ہو جائے گا۔ اس سے جو دولت تمہیں ملے گی وہ رشک ہفت اقلیم ہوگی ۔ خواہشات کے ابر کو پھاڑنے کے بعد ………. مہتاب حقیقی کا… نورتاباں مست کر دیتا ہے۔ 

اے فرعون! جس طرح ایک کیڑے کو ہرا پتہ اپنے اندر مشغول کر کے انگور سے محروم کر تا ہے اسی طرح یہ دنیائے حقیر تجھے اپنے اندر مشغول کر کے مولائے حقیقی سے محروم کئے ہوئے ہے اور تو کیڑے کی طرح لذائذ جسمانی میں مصروف ہے۔ 

تیسری نعمت تجھے یہ عطا ہوگی کہ ابھی تو ایک ملک کا بادشاہ ہے۔ اسلام لانے کے بعد تجھے دو ملک عطا ہو گئے۔ یہ ملک تجھے اللہ تعالی سے بغاوت کرنے کی حالت میں ملا ہے۔ اطاعت کی حالت میں کیا کچھ عطا ہوگا۔ جس کے فضل نے تجھے تیرےظلم کی حالت میں اس قدر دیا ہے تو اسکی عنایت ، وفا کی حالت میں کس درجہ تک ہوگی۔ 

اور چوتھی نعمت یہ ملے گی کہ تو ہمیشہ جوان رہے گا اور تیرے بال بھی کالے رہیں گے

یہ باتیں سن کر فرعون کا دل بہت متاثر ہوا۔ اس نے حضرت موسی علیہ السلام سے کہا 

اچھا میں اپنی اہلیہ سے مشورہ کرلوں ۔اس کے بعد وہ گھر گیا اور حضرت آسیہ   علیہاالسلام  سے اس معاملے میں گفتگوکی۔ 

حضرت آسیہ علیہا السلام     کا جواب مولانا روم نے بڑے پیارے انداز میں بیان فرمایا۔ 

باز گفت او این سخن با آسیہ    گفت جاں افشاں بریں اے دل سیہ

فرعون نے اپنی بیوی آسیہ   سے جب یہ ماجرا بیان کیا تو انہوں نے کہا 

ارے اس وعده پر جان قربان کر دے۔) 

وقت کشت آمد زهے پر سود کشت             این بگفت و گریه کرد و گرم گشت

کھیتی تیار ہے اور نہایت مفید ہے۔ اب تک جو وقت گزرا ہے سب بے فائدہ گزرا ہے۔) 

یہ کہہ کر وہ زارو قطار رونے لگیں۔ پھر انہوں نے کہا تجھے مبارک ہو۔ آفتاب تیرا تاج ہو گیا۔ حضرت موسی علیہ السلام نے تیری برائیوں کی پردہ پوشی کی اور تجھے دولت باطنی دینا چاہتے ہیں۔ گنجے کا عیب تو معمولی ٹوپی چھپاسکتی ہے مگر تیرے عیوب کوتو حق تعالی کی رحمت چھپانا چاہتی ہے۔ میری تو رائے یہ ہے کہ تجھے کسی سے مشورہ کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ تجھے تو اسی مجلس میں فوراً اس دعوت کو خوشی خوشی قبول کر لینا چاہیئے تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جو دعوت تجھے دی ہے۔ کوئی ایسی ویسی بات تو نہ تھی۔ جس میں تو مشورہ ڈھونڈتا پھر رہا ہے۔یہ تو ایسی بات تھی کہ سورج جیسی رفیع المرتبت مخلوق کے کان میں پڑتی تو سر کے بل اس کو قبول کرنے کے لئے آسمان سے زمین پر آ جا تا۔ اے فرعون ! یہ عنایت تجھ پر خدا کی ایسی ہے، جیسے ابلیس پر رحمت ہونے لگے، یہ حق تعالی کا معمولی کرم نہیں کہ تجھ جیسے سر کش اور ظالم کو یاد فرمارہے ہیں ۔ ارے مجھے تویہ تعجب ہے کہ اس کے کرم کو دیکھ کر خوشی سے تیرا پتہ کیوں نہیں پھٹ گیا اور وہ برقرار کیسے رہااگر تیرا پتہ خوشی سے پھٹ جاتا تو دونوں جہان سے تجھے حصہ مل جاتا۔ دنیا میں نیک نامی اور آخرت میں نجات ہوتی۔ اللہ والوں کے آنسو جوزمین پر گرتے ہیں فرشتے ان کو اپنے منہ اور پروں پر ملتے ہیں اور اللہ تعالی شہیدوں کے خون کے برابرا نہیں وزن کرتے ہیں۔‘حضرت آسیہ علیہا السلام   نے فرعون سے کہا: پس و پیش نہ کر ایک قطرے کو فورا بہادے اور اپنے نفس کو جھکا دے تکبر کے باعث اعراض نہ کر تا کہ دریائے قرب حق سےتو مشرف ہو جاوے۔ دولت عظمی اس قطرے کوملتی ہے جسے خود سمندر طلب کرے۔ یہ تجھ پرنہایت ہی شفقت ہے کہ تجھے اس اصرار کے ساتھ بلایا جارہا ہے، دریائے رحمت خود تجھے بلا رہا ہے، تو کیوں دیر کرتا ہے، جلد اپنے آپ کو انکے ہاتھ فروخت کر دے۔ اگر تو بے دست و پا ہے، اپنی ذاتی سعی سے اس دریا تک نہیں پہنچ سکتا تو اپنے آپ کو حکم موسی علیہ  السلام کا بالکل مطیع کر دے۔ جن انعامات کا تجھ سے وعدہ کیا جارہا ہے۔ توان پر بدگمانی مت کر، انہیں فریب و دھوکہ مت سمجھ، بلکہ ان انعامات کو جلد حاصل کر، تا کہ تو کہیں غلط بینی سے دھوکہ کھا کر برباد نہ ہو جائے اپنی گردن خدا کے سامنے جھکا دے۔ اس کی بشارت سے خوش ہو جا۔ کب تک سرکشی کرتا رہے گا اور گردن تکبر سے اونچی رکھے گا۔ توقف مت کر جلدمحبوب حقیقی سے مل جا۔ وہ خالق ومالک تجھے تیرے گناہوں پر شرمندہ نہیں کر رہا تو تو اس کا شکر ادا کر، خدا تجھے اپنے فضل سے اپنے تک رسائی کا راستہ دے رہا ہے تو دوڑ کر جا۔ دیکھ تو سہی اے فرعون! اس قدر تیرے کفر عظیم کے باوجود اس کا اکرام تجھے کیونکر قبول کر رہا ہے، کیا یہ’’انعام اور عطائے شاہی‘‘ قابل قدرنہیں؟ ایسا عجیب بازار کس کے ہاتھ لگتا ہے، کہ ایک گل کے عوض گلزار ملتا ہو اور ایک دانے کے عوض سو درخت ملتے ہوں اس سوز و گداز کے ساتھ حضرت آسیہ علیہا السلام   نے رغبت دلائی کہ جلد از جلدوه رجوع الی اللہ کرے ۔ 

فرعون نے وہی الفاظ پھر سے دہرائے ’’اچھا ہم اپنے وزیر ہامان سے بھی مشورہ 

کر لیں۔‘‘حضرت آسیہ   علیہا السلام  نے کہا اس سے بیان نہ کرو وہ اس کا اہل نہیں ۔ بھلا اندھی بڑھابازشاہی کی قدر کیا جانے ۔

نا اہل کے وزیربھی نا اہل ہوتے ہیں۔ ہر شخص اپنے ہم جنس سے ہی مشورہ لینا پسند کرتا ہے۔ الغرض فرعون نےہا مان سے ساری باتیں کہہ دیں اور اس سے مشورہ مانگا کہ اب مجھے کیا کرنا چاہئے۔ ہامان یہ باتیں سن کر لال پیلا ہو گیا غم و غصے میں آ کر اس نے اپنا گر بیاں چاک کر ڈالا شور مچانا اور رونا دھونا شروع کر دیا، اپنی دستار کو زمین پر پٹخ دیا اور کہا 

ہائے! حضور کی شان میں موسی نے ایسی گستاخی کی (نعوذ باللہ) آپ کی شان تو یہ ہے کہ تمام کائنات آپ کی مسخر ہے مشرق سے مغرب تک سب آپ کے پاس خراج لاتے ہیں، اور سلاطین آپ کے آستانہ کی خاک بخوشی چومتے ہیں ۔ انہوں نے آپ کی سخت توہین کی ہے۔ آپ تو خود پوری دنیا کے لئے مسجود اور معبود بنے ہیں۔ آپ ان کی بات مان کر ایک ادنی غلام بننا چاہتے ہیں۔ اگر حضور آپ کو اسلام کی دعوت قبول ہی کرنا ہے تو مجھے پہلے ہی مار ڈالیے، تا کہ کم از کم میں آپ کی یہ تو ہین اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ سکوں ۔ آپ میری گردن فورا مار دیں میں اس منظر کو دیکھنے کی تاب نہیں رکھتا کہ آسمان زمین بن جائے اور خدابنده بن جائے۔ ہمارے غلام ہمارے آقا بن جائیں‘‘ 

مولانا روم یہاں اس ہامان بے ایمان کو مخاطب ہوکر سخت ناراضگی کا اظہارکرتے ہیں ۔

 اے ہامان مردودا کتنی ایسی حکومتیں جوشرق تا مغرب پھیلی ہوئیں تھیں ۔ مگر خدا کے قہر سے آج انکا نام ونشان نہیں ہے جو’’ زہر قاتل مشوره‘‘ہامان نے دیا اس کے بارے میں مولانا اظہار کرتے ہیں۔ 

ایں تکبر زهر قاتل واں که هست 

از مئے پر زهر گشت آن كيج ومست 

تکبر جو ہامان میں تھازہر قاتل تھا، اور اسی زہرآلود شراب سے ہامان بدمست 

ہوکر احمق ہوگیا تھا ، اور اس ملعون کے مشورے سے فرعون نے قبولیت سے انکار کر کے خودکو دائمی رسوائی اور عذاب کے حوالے کر دیا۔) 

جب فرعون ہامان کے بہکاوے میں آ گیا اور حضرت موسی علیہ السلام  کے دست مبارک پردعوت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تو حضرت موسی علیہ السلام  نے فرمایا: 

ہم نے تو بہت سخاوت اور عنایت کی تھی مگر صد افسوسں یہ گوہر نایاب تیرے مقدر میں نہ تھے‘‘ 

ثمرات جاہل، احمق اور بد کردار سے اچھے مشورے کی توقع ہرگز نہ رکھو

اگر عورت بھی صاحب کردار ہے تو اس سے مشورہ کر لو، وہ تمہیں اچھا مشورہ دے  گی

بیوقوف کی صحبت سے تنہائی بہتر ہے لیکن تنہائی سے بہتر ہے کہ اچھے لوگوں کی تلاش جاری رکھو!…. . یقینا تم أن تک پہنچ جاؤ گے۔ 


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں