حضرات خمسہ
حضرات خمسہ تصوف کی ایک اہم اصطلاح ہے جو حقیقت مطلقہ کے مختلف مراتب کو بیان کرتی ہے۔
حضرات لفظ حضرت کی جمع کلمہ تکریم کیلئےاور دربار اور بارگاہ کیلئے بولا جاتا ہے اسی معنی میں وحدت ،واحدیت اور ارواح و مثال وغیرہ کیلئے استعمال ہوتا ہے
حقیقت مطلقہ کے ظہورات نہایت (بے انتہاء)ہیں اس کے مختلف نام ہیں ان میں سے حضرات خمسہ (پانچ مراتب)، عوالم خمسہ ، حضرات کلیہ اور کلیات مراتب ظہورمشہور ہیں
حضرات خمسہ الہیہ جسے کہتے ہیں پانچ ہیں۔
حضرت اول: یہ ظہور علم اجمالی ہے جسے حضرت غیب مطلق بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا عالم اعیان ثابتہ ہے جو علم الٰہی میں موجود ہے۔
حضرت دوم: یہ ظہور علم تفصیلی ہے جسے حضرت علمیہ یا عالم جبروت بھی کہا جاتا ہے
حضرت سوم: یہ ظہور صور روحانیہ ہے جسے حضرت غیب برزخی یا عالم امر یا عالم ملکوت بھی کہا جاتا ہے۔
حضرت چہارم: یہ ظہور صور مثالیہ ہے جسے حضرت شہادت مطلقہ یا عالم خلق یا عالم ملک بھی کہا جاتا ہے۔
حضرت پنجم: یہ ظہور صور جسمانیہ ہے جسے حضرت جامع یا عالم انسان کامل بھی کہا جاتا ہے.
حضرات خمسہ و ستہ کا فرق
اگر ظہور انسانی کو جدا تصور کیا جائے توظہورات کلیہ چھ ہونگے۔ ان ظہورات کوتنزلات خمسہ یا تنزلات ستہ اور حضرات خمسہ یا حضرات ستہ بھی کہتے ہیں۔
حضرات خمسہ کی تفصیل
حضرات الہی جو کلی ہیں پانچ ہیں عالم کلی جو اپنے ماسوا کو شامل ہیں وہ بھی پانچ ہیں اورحضرات خمسہ کلیہ سےپہلا حضرت حضرت غیب مطلق ہے اور اس کا عالم اعیان ثابت ہے جو علم الہی میں موجود ہے یعنی حضرت احدیت اسماء ذاتیہ اور اس کا عالم “سر” وجودی کا عالم ہے جو حضرت احدیت کے ساتھ خاص رابطہ غیبیہ رکھتا ہے اور کوئی شخص اس رابطہ کی کیفیت کو نہیں جانتا ہے جو کہ علم غیب خداوندی میں مکنون و مستور ہے اور یہ سر وجودی، سر وجودی علمی آسمانی اور سر عینی وجودی سے اعم(زیادہ عام) ہے
اور دوسرا حضرت حضرت شہادت مطلقہ ہے کہ جس کا عالم ملک حضرت علمی و غیبی میں “عالم اعیان” ہے
اور تیسرا حضرت غیب مضاف ہے کہ جو حضرت غیب مطلق سے نزدیک ہے اور یہ حضرت جہت غیبیہ اسمانیہ ہے اور اس کا عالم جہت غیبیہ اعیانیہ ہے۔ اس کی دو قسمیں ہیں ایک وہ ہے جو غیب مطلق سے بہت قریب ہے اور اس کا عالم عالم ارواح جبروتی اور ملکوتی ہے یعنی عالم عقول اور عالم نفوس مجردہ اس کے مظپر ہیں
اور چوتھا حضرت غیب مضاف ہے جو شہادت مطلق سے بہت قریب ہے اور اس کا عالم عالم مثال ہے اور غیب مضاف کے دوقسم ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ارواح کی دوصورتیں ہوتی ہیں ایک صورت مثالی ہوتی ہے۔ جو شہادت مطلق کے عالم سے بہت مناسب ہے اور دوسری صورت مجرد عقلی ہوتی ہے جو غیب مطلق کے عالم سے بہت مناسب ہے اس کی جہت ظاہرہ اسمائیہ اور عالم جہت ظاہرہ اعیانیہ ہے۔
اور پانچواں حضرت ان چاروں کو جامع ہے اس کا عالم عالم انسانی ہے جو تمام عالم اور مافیہا کا جامع ہے اور عالم مُلک عالم ملکوت کا مظہر ہے اور وہ مثالی مطلق کا عالم ہے اور وہ عالم جبروت کا مظہر ہے اور اس سے عالم مجردات مراد ہے جو اعیان ثابتہ کے عالم کا مظہر ہے اور اعیان ثابتہ اسماء الہیہ کے مظہر ہیں اور ایک حضرت و احدیت ہے یہ حضرت احدیت کامظہرہے
(عوالم پنجگانہ حضرات خمسہ الہیہ کا ظل (سایہ
جان لو کہ پانچ عوالم کلیہ پانچ حضرات الہیہ کا سایہ ہیں تو خدا تعالیٰ نے اپنے اسم جامع کے ساتھ حضرات پر تجلی فرمائی اور آئینہ انسان میں ظہور کیابے شک خدا نے آدم کو اپنی صورت پر خلق فرمایا
نظری کرد که بیند به جهان صورت خویش خیمه در آب و گل مزرعه آدم
اس نے ایک نظر ڈالی کہ اس جہان میں اپنی صورت دیکھے تو آدم کے مرزعہ (کشت) کے آب وگل میں خیمہ ڈالا
اور وہی اسم اعظم ظل ارفع اور عالمین میں خلیفۃ اللہ ہے اور پھر دوبارہ خدا نے اپنے فیض اقدس اور ظل ارفع کے ساتھ تجلی فرمائی تو اس کے نتیجہ میں غیب مطلق اور حضرت عمانیہ سے اعیان ثابتہ کے لباس میں ظہور فرمایا، پھر فیض مقدس رحمت واسعہ اور نفس رحمانی کے ساتھ غیب مضاف کنز مخفی اور مرتبہ عمانیہ سے مظاہر ارواح جبروتي وملكوني يعني عالم عقول مجرده و نفوس کلیہ میں تجلی فرمائی پھر عالم مثال اور خیال مطلق یعنی عالم مثل معلقہ کے آئینوں میں اور پھر عالم شہادت مطلقہ یعنی عالم ملک و طبیعت میں تجلی فرمانی
انسان جو کہ تمام عوالم وما فیہا کا جامع ہے، حضرت جامعہ الہیہ کا ظل ہے اور عالم اعیان حضرت غیب مطلق کا ظل ہے اور عالم عقول ونفوس، حضرت غيب مضاف کا ظل ہے کہ جو غیب مطلق سے بہت قریب ہے اور عالم ملک حضرت شہادت مطلقہ کا ظل ہے۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے پروردگار نے کس طرح سایہ کو پھیلایا حضرت اسمانیہ و اعیان ثابتہ میں ظل اقدس کے ساتھ اور حضرت شہادت عالم ملک ملکوت اور عالم جبروت میں ظل مقدس کے ساتھ
*لغزش کی سات قسمیں*
حضرت خواجہ نظام الدین محبوب الہی قدس سرہ نے سلوک کی راہ کی لغزش کی سات قسمیں بیان فرمائیں۔
اعراض، حجاب، تفاصل، سلب مزید، سلب قدیم، تسلی اور عداوت۔
ان قسموں کی تمثیل اور تفصیل میں فرمایا کہ (جیسے) دو دوست ہوں، عاشق اور معشوق۔ ایک دوسرے کی محبت میں ڈوبے ہوئے۔ اس دوران اگر عاشق سے کوئی حرکت یا کام یا بات یا فعل ایسا ہوجائے جو اس کے دوست کی پسند کا نہ ہو تو وہ دوست اس سے *اعراض* کرتا ہے۔ یعنی منہ موڑ لیتا ہے۔ پس عاشق پر واجب ہے کہ اسی وقت استغفار میں مشغول ہوجائے اور معذرت چاہے اور یقیناً اس کا دوست اس سے راضی ہو جائے گا۔ تھوڑی سی بے توجہی جو ہوئی تھی جاتی رہے گی۔
اور اگر وہ محبت کرنے والا اس خطا پر اصرار کرے گا اور عذر پیش نہیں کرے گا، تو وہ اعراض *حجاب* تک پہنچ جائے گا۔ معشوق ایک حجاب (پردہ) درمیان میں لے آئے گا۔ جیسے ہی خواجہ نظام الدین حجاب کی تمثيل میں اس بات پر پہنچے، ہاتھ اونچا کیا اور آستین چہرہ مبارک کے سامنے کرلی اور فرمایا کہ مثلاً. اس طرح محب اور محبوب کے درمیان ہوجائے گا۔ پس محب (عاشق) پر واجب ہوگا کہ معذرت کی کوشش میں رہے اور توبہ کرے۔ اور اگر اس معاملے میں سستی کرے گا تو وہ حجاب *تفاصل* میں بدل جائے گا۔ کیا ہوگا؟ یہ کہ وہ دوست اس سے جدائی اختیار کرلے گا۔
پس شروع میں اعراض سے زیادہ نہیں تھا۔ چونکہ معافی نہیں چاہی حجاب ہو گیا اور جب اس نا پسندیدگی پر اڑا رہا تو تفاصل ہو گیا (دوری ہو گئی)۔ اگر اس کے بعد بھی وہ دوست معافی نہ مانگے تو *سلب مزید* واقع ہوگا۔ یعنی اس کے اوراد اور طاعت و عبادت کے ذوق میں جو بڑھت تھی وہ واپس لے لی جائے گی۔
پس اگر اس پر بھی عذر نہ کرے اور اس ہٹ دھرمی پر جما رہے تو *سلب قدیم* ہوگا کہ وہ طاعت اور وہ راحت جو “مزید” (بڑھوتری) سے پہلے میسر تھی وہ بھی چھین جائے گی۔ پس اگر یہاں بھی توبہ میں کسر رہ جائے تو اس کے بعد *تسلّی* ہوگی۔
تسلی کسے کہتے ہیں؟ یعنی اس کے دوست کا دل اس کی جدائی پر مطمئن ہو جاتا ہے۔ پس اگر پھر بھی توبہ میں سستی ہو تو *عداوت* پیدا ہوتی ہے۔ اور محبت جو تھی وہ عداوت(دشمنی) میں بدل جاتی ہے۔
نعوذ باللہ منھا
📖 فوائد الفواد