عالم صغیر

عالم صغیر

چار عناصر

انسان کو عالم صغیر بھی کہتے ہیں کیونکہ اس میں تمام مراتب شامل ہیں اور وہ اس طرح کہ چار اخلاط یعنی صفرا، سودا، بلغم، خون، چار عنصر کے ہیں،

بارہ برج

بارہ سوراخ یعنی دونوں کان، دونوں آنکھیں، ناک کے نتھنے ، دونوں پستان، فرج، دبر ، ناف، منہ یہ آسمان کے بارہ برج کے نمونہ ہیں۔

عالم افلاک

مزید برآن مغز، ہڈی، اعصاب، گوشت، کھال، بال، ناخن، یہ آسمان کے ستاروں جیسے اور دماغ، جگر تلی، پھیپھڑا دونوں گر دے، دونوں خصیے، دونوں ہاتھ ، دونوں پیر ، اور پیٹ سیاروں کے مثل دل آفتاب کی طرح ، انسان کی حرکت ستاروں اور افلاک کے چکر جیسی ، چلنا ٹھہرنا اور واپسی ستاروں اور افلاک جیسی۔ اس کی عزت و بلندی سورج کے شرف و عظمت جیسی۔ اس کا عکس مثل ہبوط ( اوندھا) کے اور سرعت و تیزی چاند جیسی، عطارد جیسی کتابت، زہرہ جیسا مطرب ، مشتری جیسا قاضی۔ انسان کا جسم زمین جیسا ، ہڈیاں پہاڑ جیسی، پیٹ سمندر جیسا، رگیں نہروں جیسی اس کا مغز کان جیسا، آگے بڑھنا مشرق کی طرح پیچھے لوٹنا مغرب کی طرح، دائیں اور بائیں شمال و جنوب کے مثل۔

عالم کیف

سانسیں ہواؤں جیسی، آواز بجلی کی کڑک کی طرح ، ہنسی بجلیوں جیسی ، رونا بارش جیسا، غم تاریکی جیسا، خوشی روشنی جیسی، سونا موت کے مثل ، جا گنا زندگی کی طرح،

زندگی کے موسم

بچپن ربیع کے مثل، جوانی گرمی کی طرح، ادھیڑ عمری خریف جیسی، بڑھاپا جاڑے جیسا اور نشو نما پیڑ پودوں و نباتات کے مثل ہیں۔

عالم حیوانی

اس طرح تمام حیوانات کے خواص ہیں جیسے قہر اور غلبہ درندوں کا، خوشامد کتے اور بلی کی، مکڑی کا حیلہ ، شیر کی بہادری و جواں مردی، خرگوش کی بزدلی و نامر دی ، کبوتر و فاختہ کا انس و محبت ، مرغی کی سخاوت ، لومڑی کا مکر ، بھیڑ کی سلامت روی ، اور ہاتھی کی عزت و سرفرازی و غیرہ ہیں۔

عالم ملکوت

اسی طرح جسم انسانی میں وہم حضرت عزرائیل کا مقام ، ہمت حضرت میکائیل کا مقام، عقل حضرت جبرئیل کا مقام، قلب حضرت اسرافیل کا مقام اور فکر باقی تمام فرشتوں کا مقام ہے۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں:

اتزعم انک جرم صغیر     و فيك انطوى عالم کبیر

کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ تم ایک حقیر ذرہ ہو حالانکہ تمہاری ذات میں ایک بڑا عالم پوشیدہ ہے۔

حکمائے یونان دو قسم کے ہیں۔ ایک اشراقیین جن کو اشراق یعنی قلبی نورانیّت کا دعویٰ ہے، اور وہ بعض حقائق صرف تنویرِ قلب سے معلوم کرتے تھے۔ مثلا حکیم افلاطون وغیره۔ دوسرے مشائیین جو مطالب نظریہ کو دلائلِ فلسفہ سے دریافت کرتے تھے، جنکا سر کردہ ارسطو مانا گیا ہے، اور حکمائے اسلام میں شیخ بو علی سینا کو رئیس المشائیین کہتے ہیں۔ پس انسان کو عالمِ صغیر کہنے والے حکمائے اشراقیین ہیں نہ کہ حکمائے مشائیین، کیونکہ وہ تو انسان کے عالم ہونے کے ہی منکر ہیں۔ چنانچہ بو علی سینا انکو من گھڑت بتاتا، اور کہتا ہے کہ بے دلیل بات قابلِ قبول نہیں۔ مولانا بحر العلوم فرماتے ہیں کہ حکمائے اشراقیین کی نظر انسان کے ظاہر پر پڑی، اور اسی پر انکا علم موقوف رہا۔ انہوں نے اپنے اشراق کے زور سے انسان میں ہر نوع کے خواص مشاہدہ کئے۔ اس لئے حکم کیا کہ وہ عالمِ صغیر ہے۔ (یعنی تمام کائناتِ عالم کے نمونوں کا ایک چھوٹا سا مجموعہ ہے، اور عارف لوگوں کا مسلک اور ہے، جنکو عنوان میں حکمائے الٰہی لکھا ہے، اور جن سے اکابر صوفیہ مراد ہیں۔ جب انکا علم انسان کی حقیقت تک پہنچا، تو انہوں نے اسکو عالمِ کبیر قرار دیا۔ نیز انہوں نے معلوم کیا کہ عالم پر افاضہ حقیقتِ انسانیہ سے ہے۔ پس اس لحاظ سے انکی تحقیق میں انسان عالمِ کبیر ٹھہرا۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں