آن دم که دل بعشق دهی خوش دمے بود در کار خیر حاجت هیچ استخاره نیست
وہ وقت کتنا مبارک ہوتا ہے کہ جس وقت دل کوحق تعالی کی محبت کا درد عطا ہوتا
حق تعالی کی محبت میں حضرت ذوالنون مصری پر عجیب حالت طاری ہوگئی۔ ایسی شورش و دیوانگی طاری ہوگئی تھی کہ آپ کی آہوں سے لوگوں کے کلیجے منہ کو
آجاتے تھے۔
نعرۂ مسانه خوش می آیدم تا ابد جاناں چنیں می بایدم
محبت میں بجز نالہ وفریاد کے کچھ اچھا نہیں لگتا گریہ وزاری اور تضرع سے حق تعالی کا راستہ بہت جلد طے ہوتا ہے۔ اس قدر قرب ہوتا ہے کہ سالہا سال کے مجاہدے سے وہ بات نصیب نہیں ہوئی حاکم وقت نے آپ کو قید میں ڈالنے کا حکم دے دیا۔ زندان جب آپ کو قید خانے کی طرف لے کر چلے تو آپ کے شاگرد اور مرید روتے ہوئے پیچھے پیچھے ہو لیے وہ کہتے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایسے کامل ولی پر جنون کا غلبہ ہواس میں کوئی ضرور راز پوشیدہ ہے۔
جب آپ کو قید خانہ میں ڈال کر دروازہ بند کر دیا گیا تو دوست احباب نے غور فکر شروع کیا کہ آخر کیا ماجرا ہے کہ اتنا بڑا شیخ قید خانے میں محصور کر دیا گیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اپنے مہتاب باطن کو ابر جنون سے چھپانا چاہتے ہیں، اور عوام کے شر سے بچنے کے لئے یہ صورت اختیار کی ہے۔ اسی عقل وخرد سے پناہ جو ذوالنون مصری موبائل کے عشق و عرفان کی دولت کو جنون سمجھے۔
آخر کار ان سب نے زندان کی سلاخوں کے قریب آکر عرض کیا کہ حضور! ہم سب آپ کے چاہنے والے ہیں۔ آپ کے معتقد اور جانثار ہیں۔ آپ کی مزاج پرسی کے لئے حاضر ہوئے ہیں، اور حیران ہیں کہ کس نے آپ پر جنون کا الزام لگا دیا۔ آپ تو دریاۓ عقل ہیں۔ یہ اہل ظاہر آپ کے مقام قرب اور رفعت باطن سے ناواقف ہیں، اور آپ کو جنون و دیوانہ بکھتے ہیں۔ حالانکہ آپ تو عاشق ہیں ۔ ہم لوگ آپ کے محب اور دوست ہیں ………….دونوں عالم میں آپ کو عزیز رکھتے ہیں۔ براہ کرم ہم پر اس راز کا انکشاف فرمادے ۔ آپ اس قید خانے میں اپنی جان کو کیوں مصائب وآلام میں مبتلا کر رہے ہیں۔ آپ کی ایسی حالت سے ہمارا دل کڑھتا ہے۔ راز کو اپنے دوستوں سے نہیں چھپایا کرتے ‘‘
حضرت ذوالنون مصری نے ان کی گفتگو میں بوئے اخلاص محسوس نہ کی آپ نے دل میں کہا آو ان کی وفاداری اور محبت کو آزمائیں۔“ امتحان اخلاص کے لئے ان کی طرف پتھر اٹھا کر دوڑے جیسے پاگل وحشت میں لوگوں کو مارنے کے لئے دوڑتا ہے۔ یہ معاملہ دیکھتے ہی سب لوگ ڈر کے مارے بھاگ کھڑے ہوئے۔ نے جب ان کو یوں بھاگتے ہوئے دیکھا تو ان کے اعتقاد ومحبت پر قہقہ لگایا اور فرمایا کہ اس درویش کے دوستوں کو دیکھو۔ ان کی وفا اور الفت کے دعوے سنو! ۔ ارے
نادانو!تم محبت ودوستی کو کیا جانو
کے کراں گیرد زرنج دوست دوست رنج مغز و دوستی او را چو پوست
سچا دوست دوست کے رنج و تکلیف سے کب کنار کشی کرتا ہے دوست کی دوستی تو پوست ہے اور دوست کی طرف سے رنج و تکلیف اصلی مغز ہے۔
دوست همچو زر بلا چوں آتش است زر خالص در دل آتش خوش است
دوست مثل سونے کے ہے اور بلا ومصیبت مثل آگ کے ہے۔ خالص سونا آگ
کی تکلیف میں اور چمکتا ہے، اور خوش ہوتا ہے، اور عاشقی خام کا یہ حال ہوتا ہے۔
تو بيك زخم گریزانی زعشق تو بجز نامی نمی دانی زعشق
اسے مخاطب ! جب ایک ہی زخم سےتوعشق سے مستعفی ہو گیا اور راہ فرار اختیار کر لی تو معلوم ہوا کہ تجھے ابھی عشق کی ہوا بھی نہیں گئی تو نے صرف عشق کا نام سن رکھا ہے۔ پس محبت کا راستہ آسان نہیں۔
جو حادثے یہ جہاں میرے نام کرتا ہے میرا شعور انہیں نذر جام کرتا ہے
فقیہ شہر نے تہمت لگائی صوفی پر یہ شخص درد کی دولت کو عام کرتا ہے
ثمرات جومصیبت میں کام نہ آئے وہ دوست نہیں۔