آزمائشیں مقام و مرتبہ کے مطابق

حضرت شیخ المشائخ، قطب ربانی، غوث صمدانی ، محبوب سبحانی، سیدنا عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہ نے تصوف و طریقت پر مشتمل کتاب” آداب السلوک والتواصل الی منازل الملوک“ میں فرمایا :

بندہ مو من بقدر ایمان و یقین آزمایا جاتا ہے۔ جس قدر اس کا ایمان راسخ اور یقین کامل ہو گا اسی قدر اس پر مصیبت اور آزمائش آئے گی۔ 

رسول کی آزمائش نبی کی آزمائش سے زیادہ ہوتی ہے کیونکہ رسول ایمان اور یقین کے جس مرتبہ پر فائز ہو تا ہے اس پرنبی فائز نہیں ہوتا۔ اسی طرح نبی کی مصیبت ابدال کے مقابلے میں سخت ہوتی ہے اورا بدال کی مصیبت اولیاء کی مصیبت کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔ ہر ایک کو ایمان و یقین کے مطابق ابتلاء و آزمائش کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اس پر نبی کریمﷺ کی یہ حدیث دلیل ہے۔ نَحْن معاشر الْأَنْبِيَاء أَشد النَّاس بلَاء ثمَّ الأمثل فالأمثل ہم گروہ انبیاء سب لوگوں سے زیادہ مصیبت کا سامنا کرتے ہیں۔ پھر اسی طرح درجہ بدرجہ آزمائش کم ہوتی جاتی ہے“ 

اللہ تعالی اپنےبندوں کو آزماتا رہتا ہے تا کہ وہ ہر وقت بار گاہ ایزدی میں حاضر باش رہیں اور ایک لمحے کیلئے اس سے غافل نہ ہوں۔ ابتلاء و آزمائش زحمت نہیں بلکہ رحمت ہے۔ اس سے مطلوب اپنے دوستوں کو اپنا اور صرف اپنا بنانا ہے۔ یہ لوگ الله تعالی کے محبوب ہوتے ہیں۔ انہیں اللہ کریم سے محبت ہے،اور رب کریم اپنے ان محبوبوں کے دور ہونے کو پسند نہیں کرتا۔ ابتلاء و آزمائش ان کے پاؤں کی گویازنجیر ہے جو انہیں غیر کی طرف جانے سے روکتی ہے اور کسی اور کی محبت اور خیال سے محفوظ رکھتی ہے۔ 

نزول بلا جب ان کے حق میں دوام اختیار کرتی ہے تو ان کی خواہشات نفسانی زائل ہو جاتی ہیں اور ان کے نفس کی سرکشی ٹوٹ جاتی ہے۔ اس طرح ان کے سامنے حق اور باطل واضح ہو جاتے ہیں۔ سب شہوات نفسانی، ارادے اورالذات و راحات کی طرف میلان ختم ہو جاتا ہے۔ دنیا میں نفس جس جس کی طرف مائل ہوتا ہے مصیبت کی وجہ سے یہ میلان بالکل ناپید ہو جاتا ہے اور وعده حق سکون و طمانیت حاصل ہو جاتی ہے۔ انسان میں اللہ تعالی کے فیصلے کے سامنے سر تسلیم خم کرنے اور اس کی اطاعت پر قناعت کرنے اور مصیبت پر صبر کرنے کی اہلیت پیدا ہو جاتی ہے۔ پس وہ مخلوق سے دل وابستگی سے محفوظ ہو جاتا ہے اور اس کے عزم و یقین میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس کا اثر اس کے پورے جسم پر ظاہر ہوتا ہے۔ کیونکہ بلا و مصیبت قلب ویقین کو پختہ کرتی ہے۔ ایمان و صبر کوثبات بخشتی ہے۔ نفس و ہوا کی سرکشی ختم کرتی ہے۔ کیونکہ دل کو جب تکلیف پہنچتی ہے اور انسان اس پر صبر کر تا ہے اور فضل خداوندی کے آگے سر جھکا دیتا ہے تو اللہ تعالی اس سے راضی ہو جاتا ہے۔ اور اسے شکر کی توفیق عطا کر تا ہے۔ اللہ تعالی کی مدد سے اس کی نعمتوں اور اس کے ایمان میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ رب قدوس کا ارشاد ہے۔ 

 لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ اگر تم سابقہ نعمتوں پر شکر کرو گے تو میں تمہارے لیے ان میں اور اضافہ کروں گا ۔

جب نفس میں تحریک ہوتی ہے اور وہ دل سے شہوت ولذت کا تقاضا کر تا ہے۔ اگر دل اللہ تعالی کے اذن اور امر کے بغیر اس کی بات مان جاتا ہے اور اس کی خواہش پوری کر دیتا ہے۔ اور اس طرح اللہ تعالی سے غافل ہو کر اور نفس کی بات مان کر شرک و معصیت کا ارتکاب کرتا ہے تو اللہ تعالی اس کو ذلیل ورسوا کر دیتا ہے مصائب و آلام اور دکھوں اور بیماریوں میں اس کو مبتلا کر دیتا ہے۔ دنیا کے ہاتھوں ذلیل ہو تا ہے اور اس طرح نفس اور دل دونوں اس تکلیف سے حصہ پاتے ہیں۔ اگر دل نفس کی خواہشات کو پورا نہ کرے جب تک کہ انبیاومر سلین کو بذریعہ وحی صریح اور اولیاء بذریعہ الہام اذن نہ مل جائے وہ نفس کے تقاضا کو پورا نہ کریں اور اللہ تعالی کی منع و عطاکا خیال ر کھیں تو اللہ تعالی ان پر اپنی رحمتوں اور بر کتوں کی بارش فرماتا ہے۔ انہیں عافیت، رحمت اور علم و معرفت سے نوازتا ہے۔ قرب و غنی کی دولت سے فیض یاب کرنے کے ساتھ ساتھ آفات سے سلامتی اور دشمنوں کے مقابلے میں مدد و نصرت عطا کرتا ہے۔ اس نصیحت کو یاد رکھئیے اور دل میں جگہ دیجئے ۔ نفس و خواہش کی پیروی کر کے مصیبت میں نہ پڑئیے۔ بلکہ اپنے پروردگار کے اذن اور امر باطنی کا انتظار کیجئے۔ اس طرح دنیاو عقبی میں آفات سے محفوظ دمامون رہیئے گا۔ انشاء الله تعالی۔

آداب السلوک شیخ عبد القادر الجیلانی صفحہ 90 ،مکتبہ دارالسنابل دمشق شام


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں