اسم احمد و محمد کے اسرار مکتوب نمبر 96دفتر سوم

 ان اسرار کے بیان میں جو آنحضرت ﷺکے دونوں مبارک اسموں یعنی محمد واحمد کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں۔ فقیر ہاشم  کشمی کی طرف صادرفرمایا ہے۔ 

ہمارے حضرت پیغمبر علیہ وعلی آلہ الصلوة والسلام دو اسموں سےمسمی ہیں اور وہ دونوں اسم مبارک قرآن مجید میں مذکور ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ ‌مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ اور حضرت روح اللہ کی بشارت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے اِسْمُهُ أَحْمَدُ ۔ ان دونوں مبارک اسموں میں سے ہر ایک کی ولایت الگ الگ ہے۔ ولایت محمدی اگر چہ ان کے مقام محبوبیت (محبوب ہونے کی کیفیت) سے پیدا ہے لیکن محبوبیت صرف ثابت نہیں کیونکہ محبیت کی آمیزش بھی رکھتی ہے اگر چہ وہ آمیزش بالاصالت (براہ راست) اس کے لئے ثابت نہیں لیکن مقام محبوبیت صرف کی مانع ہے اور ولایت احمدی محبوبیت صرف سے پیدا ہے جس میں محبت کی کوئی آمیزش نہیں یہ ولایت پہلی ولایت سے پیش قدم(بلند) ہے اور ایک درجہ مطلوب کے نزدیک تر ہے اور محب کو نہایت ہی مرغوب اور پسندیدہ ہے کیونکہ محبوب میں جس قد رمحبوبیت زیادہ ہو اسی قدر اس کی استغنا اور بے نیازی زیادہ ہوتی ہے اور محب کی نظروں میں اس قدر زیادہ محبوب اور رعنا دکھائی دیتا ہے اور اسی قدر زیادہ محب کو اپنی طرف کھینچتا اور اپنادیوانہ فریفتہ کرتا ہے۔ بیت 

نه تنہا آفتم زیبائی اوست بلائے من زنا پروائی اوست

ترجمہ بیت نہیں آفت میری زیبائی اس کی بلائے جان ہے ناپروائی اس کی 

بلا سے مراد افراط(زیادتی) عشق ہے جوعاشق کو مطلوب ہے۔ سبحان اللہ! احمد ایک عجیب بزرگ اسم ہے جو کہ مقدسہ احد اور حلقہ حرف میم سے مرکب ہے جو عالم بیچوں میں اللہ تعالیٰ کے پوشیده اسرار میں سے ہے۔ عالم چون میں گنجائش نہیں کہ اس پوشیده سر کوحلقہ میم کے سوائے تعبیر  کر سکیں ۔ اگر گنجائیش ہوتی تو حق تعالیٰ اس سے تعبیر فرماتا احد احد ہے جس کا کوئی شریک نہیں اور حلقہ میم طوق عبودیت ہے جس نے بندہ کو مولی سے متمیز کر دیا ہے۔ پس بندہ وہی حلقہ میم ہے اور احد اس کی تعظیم کے لئے آیا ہے جس نے آنحضرت ﷺکی خصوصیت واختصاص کو ظاہر کیا ہے۔ بیت 

چونام این است نام آور چه باشد مکرم تر بوداز ہرچه باشد 

ترجمہ بیت جب ایسا نام ہو پھر نام والا مکرم اور معزز سب سے ہو گا۔

 ہزار سال کے بعد کہ اس قدر مدت کو امور عظام (بڑے بڑے معاملات)کے تغیر میں بڑی تاثیر ہے اس ولایت کا معاملہ اس ولایت تک پہنچ گیا اور ولایت محمدی ولایت احمدی سے مل گئی اور معاملہ عبودیت (بندگی) کے دو طوق سے ایک طوق کے متعلق ہوا یعنی محمد احمد بن گیا۔ عَلَيْهِ وَعَلىٰ آلِهٖ الصَّلوٰةُ وَالسَّلَامُ۔ اس کا بیان یہ ہے کہ دوطوق عبودیت (بندگی) ان دو حلقہ میم سے مراد ہیں جو اسم مبارک محمد میں مندرج ہیں ہوسکتا ہے کہ وہ دوطوق آنحضرت ﷺکے ہر دوتعین سے مراد ہوں جن میں سے ایک تعین جسدی بشری ہے اور دوسراتعین روحی ملکی تعین جسدی میں اگر چہ موت کے لاحق ہونے کے باعث فتور آ گیا تھا اور تعین روحی قوی ہو گیا تھا لیکن اس تعین کا اثر باقی رہا تھا۔ اس کے لئے ہزار سال کی ضرورت تھی تا کہ وہ اثر سے بھی زائل ہو جاتا اور اس تعین کا کوئی اثر نہ رہا تو ان دوطوق عبودیت (بندگی) میں سے ایک طوق ٹوٹ گیا اور زوال وفنا اس پر طاری ہوا اور الف الوہیت جس کو بقا باللہ کی مانند کہہ سکتے ہیں اس کی جگہ آ بیٹھا اور محمد احمد ہوگیا اور ولایت محمدی نے ولایت احمدی کی طرف انتقال فرمایا۔ پس محمد ﷺدوتعین سے مراد ہے اور احمد صرف ایک ہی تعین ہے یہ اسم حضرت اطلاق کے بہت قریب ہے اور عالم سے دورتر ہے۔

سوال: وہ فنا و بقاءجو مشائخ نے مقرر کیا ہے اور ولایت کو اس پر وابستہ کیا ہے کس معنی سے ہے اوریہ فناء و بقاءجوتعین محمدی میں کہا گیا ہے کسی معنی سے ہے۔

 جواب: وہ فناو بقاء جس کے ساتھ ولایت وابستہ ہے شہود ی فناو بقا ہے کیوں کہ اگر فنا وزوال ہے تو باعتبار نظر کے ہے اور اگر بقا وثبات ہے تو وہ بھی با عتبار نظر کے ہے اس جگہ صفا بشری صرف پوشیدہ ہو جاتی ہیں۔ زائل اور فانی نہیں ہوتیں لیکن یہ یقین ایسا نہیں ہے یہاں صفات بشری کیلئے زوال و جودی متحقق ہے اور جسد سے نکل کر روح کی طرف منتقل ہونا ثابت ہے اور بقاء کی جانب میں بھی اگرچہ بندہ حق نہیں ہو جاتا اور بندگی سے نہیں نکلتا لیکن حق کے بہت نزدیک ہو جاتا ہے اور معیت زیادہ تر پیدا کر لیتا ہے اور اپنے آپ سے دور تر ہو کر احکام بشری اس سے بالکل مسلوب ہو جاتے ہیں۔ جاننا چاہیئے کہ اس  عروج محمدی نے جو صفات بشری کے منتفی ہونے پر وابستہ ہے۔ اگرچہ آنحضرت ﷺکے کاروبار کو بالاتر کر دیا اور نہایت ہی بلند درجہ تک پہنچادیا اور غیروغیریت کی کشاکش سے چھڑا دیا لیکن آنحضرت ﷺکی امتیوں پر معاملہ تنگ تر ہوگیا اور حضورﷺکی ہدایت کا نور جو بشریت کی مناسبت کے باعث تھا، گھٹ گیا اور وہ توجہ جو ان پسماندوں کے حال پر رکھتے تھے، کم ہوگئی اور کلی طور پر قبلہ حقیقی کی طرف متوجہ ہوگئی اس رعایا کا حال کیا ہوگا جن کے حال پر بادشاه نظر شفقت  نہ فرمائے اور بالکل اپنے محبوب کی طرف متوجہ رہے۔یہی باعث ہے کہ ہزار سال کے بعد کفر وبدعت کا اندھیرا غالب آ گیا ہے اور سنت و اسلام کا نورماند ہو گیا ہے۔ رَبَّنَا ‌أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ  يااللہ تو ہمارے نور کو کامل کر اور ہمیں بخش تو تمام باتوں پر قادر ہے۔)

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر سوم صفحہ286ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں