اصطلاحات تصوف

ابدال :۔  تبدیل ہو  نے والے ۔ ابدال اس لیے  کہتے ہیں کہ دنیا ان سے خالی نہیں رہتی ۔ اگر ایک چلا جاتا ہے تو دوسرا اس کی جگہ آجاتا ہے اور بعض عرفا ء نے ان کو ابدال کہنے کی یہ وجہ بیان کی ہے کہ کسی بدن کو اپنی جگہ چھوڑ کر خود کسی اور جگہ چلے جاتے ہیں۔ یا اپنا ایمان یہاں چھوڑ کر وہ کسی بدن کے ساتھ کسی اور جگہ چلے جاتے ہیں۔

ابن الوقت:۔ وہ صوفی جو حال کے تابع ہو یا حال پر اختیار نہ رکھتا ہو مغلوب الحال صاحب تلوین

ابو الوقت:۔صاحب حال و قال، صاحب تمکین  جو حال پر اختیار رکھتا ہو

اتصال:۔ عارف کامل کا اپنی ذات کو وجود مطلق سے متصل ملا حظہ کرنا ہے اس طرح کہ اپنی ذات اور وجود مطلق کی اضافت غیریت بالکل اٹھ جائے اس حالت میں عارف کامل وجود مطلق اور ذات حق سبحانہ تعالی کی بقا سے باقی رہتا ہے۔

احاطہ:۔اللہ تعالی کا ہر چیز پر محیط ہونا
احدیت :اس سے مراد مخلوق کو چھوڑ کر اللہ تعالی کی ذات یکتا کا مشاہدہ کرنا

احوال:۔سالک کی روحانی اور اخلاقی ترقی کے نتیجہ میں خوشگوار کیفیات کا طاری ہونا

ارتفاع:َاٹھنا بلند ہونا بشری صفات سے ملکوتی صفات کی طرف ترقی کرنا

استجلاء:۔ظاہر ہونے  انسانی طاقت سے برترہستی کا ظہور

استتار:۔پردہ میں ہونا مراد ذات باری تعالی جو ہمیشہ پردہ میں رہتی ہے

 استدراج :۔کے معنی احسان کی شکل میں مشقت اور تکلیف کا پوشیدہ ہونا ہے۔،شیطانی طاقت سے مافوق العادت کام کا ہونا۔

استغراق:۔عشق الہی میںڈوب جانا

استہلاک:بقا باللہ سے پہلے کی منزل۔ طلب فنافی اللہ

اسماء وصفات : وہ لفظ یا عبارت جس کا اشارہ حق سبحانہ کی جانب ہو  باعتبار صفت یا ذات کے۔

اسماء توحيد :۔ اللہ تعالی کے اصلی نام سات ہیں۔ ان سات سے پھر چھ اور نام نکلتے ہیں۔ ان تمام اصلی اور فرعی اسماء کے مجموعے کو اسماء توحیدی کہتے ہیں۔ اصلی نام یہ ہیں(لا الہ، الا الله ،هو،حی ، واحد، عزیز، ودود) فر عی چھ نام ۔ ( حق ،قھار، قیوم ، وھاب، مهیمن، باسط)

اسم جامع:۔اسم جامع اللہ ہے تمام اللہ تعالی کے نام اس میں شامل ہیں

اعتبار:۔ حقیق-ت کے مقابلہ میں  استعمال ہوتا ہےجو شی حقیقی نہیں وہ اعتباری ہے

افتادگی:۔حالات اور کیفیات کا چھپا نہ سکنا یا ضبط کی کمی
انسیت :دل کے مشاہدہ سے روح کا لطف اندوز ہونا۔

اہل صفہ :حضور ﷺکے وہ غریب صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم جو سب کچھ چھوڑ کر دعوت و ارشاد کے ہو کر رہ گئے تھے

بائن :۔معنی تنہا ، منفرد اور جدا ۔

باطن:َکسی شے کا اندرونی حصہ، (ظاہر کی ضد)اللہ تعالیٰ کا صفاتی نام وہ معارف و تجلیات جو سالک کے ادراک نیں نہ آسکیں

باز اشہب:۔ سیاه و سفید پروں والا باز ۔ سب پرندوں پر غالب ہوتا ہے۔بعض اولیاء اللہ کیلئے استعمال ہوتا ہے۔
بدایت :اسماء و صفات کا عالم ارواح میں تحقق۔

برزخ :۔ دو چیزوں کے درمیان حائل کو کہتے ہیں اور مرنے کے بعد سے قیامت تک کے زمانے کو بھی اسی لئے برزخ کہتے ہیں

بسط :واردات قلبی کے کھل  جانے کو   بسط کہتے ہیں۔
بصیرت :وہ قوت جو اولیاء کے دل سے پھوٹتی ہے اور نور قدس سے منور ہوتی ہے۔ اس سے انسان اشیاء کی حقیقت اور ان کے باطن کو دیکھتا ہے۔ اسے قوت قدسیہ بھی کہتے ہیں۔

بقا:۔ سالک کے لیےایک مقام ہے   جہاں پہنچکر وہ حق کو موجود اور عالم کو معدوم دیکھتا ہےاللہ تعالی کے ساتھ مخلوق کا مشاہدہ ہے
تاج:۔ تاج کمال، ہر ایک طریقت کا تاج کمال
تجرید:اس خیال سے کہ اللہ تعالی کا حق ادا کرنا واجب ہے انسان کا اپنے دل کو اغراض دین اور حال و مستقبل کی مصلحتوں سے پاک کر لینا تجرید ہے۔
تجلی:غیبی انوار جو دلوں پر منکشف ہوتے ہیں۔
تجلی ذات :اس سے مراد مکاشفہ ہے۔ اس کا مبداء ذات خداوندی ہے اور یہ صرف اسماء و صفات کے واسطے سے ہی حاصل ہو تا ہے۔
تجلی صفات :۔ بندے کا صفات خداوندی سے متصف ہونے کو قبول کر لیا بجلی صفات ہے۔

تحلیہ :۔ معرفت سے اپنے کو آراستہ کرنا۔

تخلیہ:۔ بشری اوصاف سے اپنے کو خالی کرنا۔
تلبیس:کسی شخص کا یہ گمان کرتا کہ میں نے استقامت، توحید اور اخلاص کا لباس پہن رکھا ہے لہذا میں اللہ کا ولی ہوں لیکن حقیقت میں وہ لباس شیطانی دھوکہ ہو۔ اسےتلبیس کہتے ہیں۔ کبھی کبھی ایسے مدعی ولایت کے ہاتھ پر خرق عادت کا ظہور ہو جاتا ہے وہ کرامت نہیں ہوتی بلکہ اسے مخادعہ (استدراج) کہتے ہیں۔

تقریب وحدت:۔ یہ خاص قرب ہے جس میں غیر اللہ کے تصور بالکل محو ہو جاتا ہے اور محض قرب ہی قرب رہ جاتا ہے۔

تلوین :۔  اہل تصوف کی اصطلاح میں فقر کے ایک مقام کا نام ہے۔  مشائخ طریقت کے نزدیک تلوین سے مراد سالک کے دل کا ان احوال میں پھرنا جو اس پر گزرتے ہیں۔

تمکین، جگہ پکڑنا، قرار پکڑنا قد و مرتبہ، سالکوں کے ایک مقام کا نام ہے اور اہل تصوف کی اصطلاح میں اس سے مراد قرب الہی میں دل کے اطمینان کے ساتھ کشف حقیقت کا دائمی ہونا۔
توحید :۔ : اللہ تعالی کی وحدانیت، یکتائی اور اس کے لاشریک ہونے کا حکم لگاناتوحید ہے۔ توحید کے کئی ارکان اور مراتب ہیں۔

جسم جسمانی : وہ جسم جو عالم ملک میں ہوتا ہے۔
جسم جلالی :اس سے مراد قبر، عظمت، کبریائی ، بزرگی ، بلندی اور اقدار کی صفت ہے۔

۔ جلال :۔ بزرگی اس سے مراد قہر و غضب الہی کا اظہار بذریعہ الم و مصیبت ہے

حلول:۔ایک شے کا دوسری میں اس طرح سرایت کر جانا کہ دونوں میں کوئی امتیاز باقی نہ رہے

جمال :۔ صورت و سیرت کی خوبصورتی اس سے مراد انعام و اکرام ہے

جمع:۔ موجودات کی تمام  صورتوں میں حق کا مشاہدہ کرنابغیر مخلوق کے اللہ تعالی کو دیکھنا ہے۔
جنود:۔ اولیاء اللہ کیونکہ وہ فتح و تسخیر اور ہدایت قلوب خلق میں بمنزلہ لشکرہیں
حال :۔جب عارف کسی منزل کو طے کر کے ذوق حاصل کرتا ہے تو وہ منزل اس کا حال ہے
حب :۔ذات کا تعین اول میں ظہور فرمانا اور لباس حقیقت محمدیہ پہن کر لفظ انا سے اپنی ذات کو تعبیر فرمانا۔ حدیث قدسی کنت کنزا مخفيا فاحببت ان اعرف میں اس طرف اشارہ ہے۔
حجابات ظلمانی :طالب اور مطلوب کے در میان حائل پر دے۔ در اصل یہ شہوات و لذات جیسی جسم کی ظلمتوں کا دوسرا نام ہے۔
حجابات نورانی :یہ بھی طالب و مطلوب کے در میان پردے ہیں یعنی ان کا تعلق محرکات باطنیہ سے ہے مثلا عقل، سِرّ روح خفی جیسے نور روح کے پردے۔
حجلہ انس :اس سے مراد عالم لاہوت ہے۔

حضور:۔ ظاہر اور ماسوی سے غائب ہونے کے بعد بارگا ہ الہی کا مشاہد ہ کرتا ہے۔
حق الیقین:یقین کی دو انتہاء جو واصلین کی غایت ہے اس سے مراد صدق یقینی ہے اور اس کی شہادت وہ سالک دیتے ہیں جو مقامات علیا پر فائز ہوتے ہیں۔ یہ فناء في اللہ کا مقام ہے۔
حقیقت محمدیہ :اس سے مراد حیات روی اور حیات حیوی کا مصدر ہے۔ یہ اہل ایمان کے دلوں کی زندگی ہے۔ حقیقت محمد یہ خلق کی پیدائش کا سبب اور ماسوای اللہ کی اصل ہے۔
خلعت:۔ خلعت عرفان معرفت کا لباس
خمر:۔ شراب باده : عشق و محبت الہی جو سالک کے دل پر اس طرح وارد ہو کہ اسے مست بنادے۔
درجات :شریعت (علم ظاہری) پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے انسان کو جو ثوابملتا ہے اسے درجات کہا جاتا ہے۔
دار فروانی :اس سے مراد وہ گھر ہے جو مقامات عالیہ پر فائز لوگوں کو ارزانی ہو تا ہے۔ اسی گھر میں اللہ تعالی عار فین کی حفاظت فرماتا ہے اور کائنات کی نگاہوں سے انہیں پوشیدہ رکھتا ہے۔ عارفین اسی گھر میں جلوہ فرما ہوں گے اور ان پر بلند و بالا گنبد ہوں گے کہ ان کے درجات کاصلہ ہو گا۔
راز :۔ اس حال سے جو قوت پیدا ہوتی ہے وہ اس کا راز ہے۔
رؤی :وہ علمی راز جواللہ تعالی اپنے کسی مخلص بندے کے دل میں ودیعت فرماتا ہے۔
رجال :۔سے مرا در فقاء، خدام، بھائی بند ہیں یا مریدان با صفا، جن کو بارگاہ قدس خاص مقام حاصل ہوتا ہے۔
روح اعظم : عقل اول، حقیقت محمدیہ، نفس واحده ، سب سے پہلے جسے اللہ تعالی نے پیدا فرمایا، خلیفہ اکبر ، جو ہر نورانی ہے جوہریت کے اعتبار سے نفس واحده نورانیت کے اعتبار سے عقل کہتے ہیں۔ اسی کے لیے عالم میں مظاہر کا وجود ہے۔ اسی سے عقل اول، قلم اعلی ، نور، نفس کلیہ اور لوح محفوظ جیسے اسماء کا وجود ہے۔
روح روانی :عالم ملکوت میں نورانی ارواح کا لباس اسے روح سیر انی بھی کہتے ہیں۔
روح سلطانی :اللہ تعالی کا وہ نور جو اس نے دونوں عالم ، عالم لاہوت اور عالم جبروت کے در میان ارواح کو عطا فرمایا
روح سیر انی :اس سے مراد روح روانی ہے جس کا تعارف پہلے گزر چکا ہے۔
روح قدسی :عالم لاہوت میں نور کا لباس .
ریاضت :دل کو طبیعت کے تقاضوں اور اس کی خواہشات سے پاک کرنا۔

زاہد خشک:۔ اسے کہتے ہیں کہ صورت تو زہد کی رکھتا ہو مگر اصول اور معنی میں ایسانہ ہو اور بے عشق و محبت ہو ۔

ساربان :۔ مرشد سے کنایہ ہے جو سالکوں کے عشق کے بو جھ کو اپنی پیٹھ پر لادے رہتا ہے ۔

ساقی القوم:۔ رسول اللہ ﷺساقی سے مراد یا ذات باری تعالی ہے یا ساقی کوثر حضور ﷺ یا مرشد کامل ہیں ۔

ستر:۔ کے معنی حفاظت کرنا اور ڈھانپنا ہیں اور ظاہر میں :۔ ان آفتوں اور بلاؤں سے حفاظت کرتا ہے جو بندے کی ہلاکت کا سبب ہوتی ہیں۔ اور باطن میں :۔ رسوائی اورغضب و ناراضی اور مرتبہ کے گرنے سے بچانا ہے۔
سر قدیم :۔سے مراد اسرار قرآن – اسرار موت و حیات یا علم غیب یا اسم اعظم ، سر قدیم ہر ایک امر کا جامع ہے۔
سر:۔ بھید الہی کو کہتے ہیں۔ لطیفہ ذات جو قلب میں رکھا گیا یہ محل مشاہد و ذات ہے۔

سریان:۔حق تعالی کا مومن کے قلب میں سمانا

سلوک:۔ کے معنی سفر کرنا ہے لیکن اصطلاح تصوف میں روح کے سفر کو سلوک کہتے ہیں۔ روح کا وہ سفر جو سالک کی ذات سے خدا کی ذات تک طے کرتی ہے۔
سکر:۔ اس طاقتور وارد کو کہتے ہیں جو قلب کو ظاہر کے دیکھنے سے غائب کر دیتا ہے۔ وقت مشاہد ہ جمال محبوب مست و بیخود ہو جانا اورعقل کا عشق سے مغلوب ہو جانا اور اس نوبت پر پہنچتا کہ اس کو عاشق و معشوق کی تمیز نہ رہے اس حالت میں حضرت منصور سے انا الحق اور حضرت بایزید بسطامی سے سبحانی ما اعظم الشانی صادر ہوا

 سماع:۔ دھیان سے سننے والا، (دوسروں کی باتوں کو)ترنم یا خوبصورت آواز یا غنا یا شعر کو لحن  کے ساتھ سننے کو اسی طرح راگ، قوالی  سننے کو سماع کہا جاتا ہے

سواد الوجہ فی الدار ین :كلية اللہ تعالی میں فناء ہو جانا۔ اس طرح کہ انسان کا مطلقا اپنا وجود نہ رہے۔ نہ ظاہراًنہ باطناً۔ نہ دنیاوی اعتبار سے اور نہ اخروی اعتبار سے۔یہی فقر حقیقی اور رجوع الی العدم ہے۔

سیر:۔جب کشف و کرامات کی راہ سے  سلوک طے کیا جاتا ہے تو سیر ہے۔ اس طور پر راستہ دیر میں طے ہوتا ہے۔

شحنہ:۔ سلطان کی طرف سے مقرر کردہ شہر کے متولی کو کہتے ہیں جن کے ذمہ شہر کا انتظام و انصرام ہوتا ہے۔

شطحیات:۔ جمع ہے شطح کی۔ یہ وہ کلمات ہیں ( بہکی بہکی باتیں) جو صوفیائے کرام کی زبان سے حالت مستی (غلبۂ حال) میں نکل جاتی ہیں جو بظاہر شریعت کے خلاف معلوم ہوتی ہیں مگر باطنا کسی راز کی جانب اشارہ ہوتا ہے۔
شيخ:۔ اصطلاح صوفیہ میں اس سالک کو کہتے ہیں جو شریعت کی متابعت سے حقیقت کے مرتبہ عالی تک پہنچ جائے اور درجہ فنا سے بقا پر فائز ہو۔

شیون:۔شان کی جمع ۔ لغوی معنی کیفیت و حالت کے ہیں ۔ یعنی جاہ و جلال کی حالت ۔

صحو :- اس طاقتور وارد(سکر) کے چلے جانے کو کہتے ہیں ، یہاں تک کہ قلب غائب ہونے کے بعداحساس کی طرف لوٹ جائے ۔

صفات اضافیہ یعنی پیدا کرنا، رزق دینا، مارنا زندہ کرنا رنج و الم دیناا، انعام کرنا وغیرہ

صفات حقیقیہ یعنی اراده و قدرت ،سمع و بصر کلام ،علم حیاۃ اور تکوین ۔
طريقت :سالکین کی راہ جو انہیں واصل بحق کرتی ہے۔ مثلا منازل سلوک کا طے کرنا اور مقامات میں ترقی کرنا۔

طفیلی :۔کے معنی ہے۔ ایسے لوگوں میں داخل ہونا جن میں سے شامل ہونے والا نہ ہو۔ اور ان لوگوں میں شامل ہونے کی اجازت بھی نہ لی ہو ۔عمومی طور پر وہ  جو کھانے کی تقریب میں کھانا کھانے کے لئے بغیر دعوت کے شامل ہو جاتا ہے۔

طے :۔کے معنی لپیٹنا ، اور ملانا۔ اس طرح کہ طویل ، کوتاہ اور بڑا چھوٹا ہو  جائے۔

اور صوفیائے کرام کے نزدیک ”  اس کی چار قسمیں ہیں۔ اول طے زمان وقت اور زمانہ کو لپیٹنا دوم طے مکان جگہ اورفاصلے کولپیٹنا سوم طے دنیا دنیا کی مسافت کو لپیٹنا  چہارم:۔ طے نفوس: نفسوں کو لپیٹنا

طیر:۔ جب بلا کشف و کرامت سے سلوک کاراستہ طے ہوتا ہے تو اسے طیر کہتے ہیں۔ اس میں راستہ جلد طے ہوتا ہے اور اسی کو صوفیا سلوک اتم کہتے ہیں۔

،ظاہر:۔کسی چیز کا وہ رُخ جو محسوس ہو یا نظر آتا ہو، کھلا ہوا رُخ ( باطن کی ضد)، باہر کا رخ اللہ تعالیٰ کے اسمائے صفاتی میں سے ایک اسم وہ معارف و تجلیات جو سالک کے ادراک میں آسکیں

ظل:۔سایہ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے کسی شے کا انعکاس یا پرتو جو تجلی یا ظہور کا پرتو ہے

طفل معانی :عالم لاہوت میں روح کی پہلی صورت جس صورت پر اللہ تعالی نے اسے پیدا کیا۔ اسے انسان حقیقی بھی کہتے ہیں۔
عالم اصلی :وہ عالم جس میں اللہ تعالی نے نور محمدی سے تمام ارواح کو پیدا فرمایا۔ ایسے عالم لاہوت بھی کہتے ہیں۔
عالم جبروت :عالم لاہوت سے ارواح جس دوسرے عالم کی طرف اتریں اس دوسرے عالم کو عالم جبروت کہتے ہیں۔ عالم جبروت دو عالموں، عالم لاہوت اور عالم ملکوت کے در میان واقع ہے۔ عالم جبروت کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس میں احکام خداوندی کے مطابق امور سر انجام پاتے ہیں۔
عالم حقیقت :یہ عالم لاہوت میں انبیاء و اولیاء کا مقام ہے ۔ اس کی تشر یح میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد محل وصال ہے جہاں انسان و اصل بحق ہو تا ہے۔ اس کے متعلق ایک تیسرا قول بھی ہے کہ عالم حقیقت سے مراد عالم احسان میں دخول ہے۔ اس کو عالم قربت کانام بھی دیا جاتا ہے۔
عالم قربت :اسے عالم حقیقت بھی کہتے ہیں۔ جس کی تشریح ابھی آپ پڑھ کر آئے ہیں۔
عالم لاہوت :روحوں کا پہلا وطن جہاں وہ تخلیق ہو گئیں۔ اسی عالم میں محو فناء ہے۔ کیونکہ فانی کو اس عالم میں قرب خداوندی حاصل ہو تا ہے۔ اس عالم تک ملا ئکہ نہیں پہنچ سکتے۔
عالم الملک :عالم شہادت یا عالم اجسام واعراض۔ اسی عالم میں روحیں جسموں میں داخل ہوتی ہیں۔ اس کا دوسرا نام عالم سفلی ہے۔
عالم الباطن :دل میں ظاہر ہونے والا علم نہ کہ ظواہر میں صوفیاء کرام علیہم الرحمۃ کی جماعت نے اس کی کئی قسمیں بیان کی ہیں۔ مثلا علم ، حال، خواطر ، يقين ، اخلاص ، اخلاق اس کی معرفت ، اقسام دنیا کی معرفت، توبہ کی ضرورت، توبہ کے حقائق، توکل، زهد ، انابت ، فناء، علم لدنی۔

عروج:۔ سالک کا حق تعالیٰ کی ذات و صفات عالیہ کے مشاہدہ  میں مستغرق ہو جانا  اور مخلوق سے منقطع ہونا

علم استدلالی وہ علم ہے جودلیل کے ذریعے سے حاصل ہوتاہے
علم حقیقت:اس سے مراد علم ظاہری اور باطنی کا مجموعہ ہے۔ اس علم کا حصول ہر مرد اور عورت پر فرض ہے۔ اسی کو علم شریعت کہتے ہیں۔
علم العرفان :یہ علم دل کا چراغ ہے۔ اس کی روشنی میں انسان خیر و شر کو دیکھ سکتا ہے۔ انسان جس قدر اللہ تعالی کی بادشاہی ، اس کی پیدا کردہ کائنات اور اس کی صفات میں غور و فکر کر تا ہے اسی قدر اس کا اشتیاق بڑھتا ہے اور وہ اللہ تعالی کے جمال کو منکشف دیکھنا چاہتا ہے۔ وہ اسماء و صفات خداوندی میں اور زیادہ غور و تدبر کر تا ہے۔ اسے علم تفکر بھی کہتے ہیں۔

۔علم کشفی :۔وہ علم ہے جو کشف کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے
علم يقين :یہ علم عطائی ہے اور صرف اولیاء کاملین و مقربین کو نصیب ہوتا ہے۔ اس کا طریق الہامات ، تجلیات فتوحات، مکشوفات اور مشاہدات ہیں۔ اسی کو علم لدنی کہتے ہیں۔
علو :۔عارف کا ترقی کرتے کرتے درجہ لاہوت تک پہنچنا

عید:۔ خوشی کا دن ۔مشاہدات کے زمانے کو کہتے ہیں کیوں کہ سالکوں کے لیے : صفات الہی کی تجلی کی دریافت کا ہوتا ہے ۔

عین:۔ ذات حق تعالٰی کے ساتھ اتحاد ہستی حق میں گم ہو جانا۔ سالک کا ذاتِ حق میں محو ہوتا اور لذتِ وصال پانا۔

مقام بقا باللہ میں پہنچنا۔

عین الروح:اسے بصیرت بھی کئے ہیں۔ بصیرت کی تعریف پہلے گزر چکی ہے۔
عین الیقین :یہ عطیہ ربانی ہے یہ علم الیقین کے ذر یعے حاصل ہو تا ہے۔

غزل:۔ وہ باتیں  جوعشق کے متعلق ہوں ،عارفوں اور مرشدوں کے کلام سے عبارت ہے

غیب:۔ سے مراد اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات اور دوسرے عالم میں جو سر کی آنکھوں سے نظر نہیں آتے ۔

غیبت :۔ مخلوق کے دیکھنے سے قلب کاعلیحد ہ ہو جانا ہے۔

غیرت  :۔ کا معنی رشک اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر غیرت یہ ہے کہ وہ انہیں قرب الہی سے دُور کرنے والی اور محرمات و مکروہات اشیاءغیر سے ان کا ارتکاب کرنے پر قہر و ابتلا نازل کر کے جزاء و عقاب دے کر ان کا ارتکاب کرنے سے انہیں روکے.

فاتحة الوجود :۔ مراد انسان کیونکہ انسان ہی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے جملہ موجودات کے قفل کھولے ہیں۔ انسان کو فاتحۃ الکتاب اور سبع مثانی بھی کہتے ہیں بوجہ ان سات صفات نفسہ کے یعنی حیات ،علم،اراده، قدرت ، سمع و بصر و کلام – انسان باعتبار ظاہر کے خلق اور باعتبار باطن کے حق ہے۔

فانی:اس شخص کو کہتے ہیں جو حظوظ نفس کے شہود سے فناء ہو گیا۔

فراست : ۔دلوں کی باتوں یا لوگوں کے حالات پر اللہ کے نورسے آگاہ ہونا۔

فرق:۔بغیر اللہ تعالیٰ کے مخلوق کو دیکھنا ہے مشاہدۂ عبودیت کو کہتے ہیں اور صفتِ حیات اور صفتِ ممات دونوں کو کہتے ہیں
فقر: یہ تصوف میں بہت بلند مقام ہے۔ اس مقام پر فائز لوگ دنیاو مافیھاسے بے نیاز ہو جاتے ہیں اور انہیں بجز اللہ تعالی کے کسی کی ضرورت نہیں رہتی۔
فناء:بشریت کی صفات ذمیمہ کو الله تعالی کی صفات سے بدل دینا۔اللہ تعالی کے مشاہدے کے ساتھ مخلوق سے غائب ہونا ہے

قبض:۔ واردات قلبی کے بند ہو جانے کو قبض کہتے ہیں۔

قدرت :وہ قوت جو ممکنات کو عدم سے وجود میں لاتی ہے۔ اسے صفت ربوبیت بھی کہتے ہیں۔

قدوس :۔معنی ہے ۔ پاک۔ بعض عارفین نے فرمایا ہے :۔ قدوس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالی ہر ایسے کمال سے پاک ہے۔جو اس کی ذات کے لائق نہیں ہے اور اس طرح نہیں کہا جا سکتا ہے۔ کہ وہ ہر نقائص سے پاک ہے۔ کیونکہ اس کی طرف نقائص کی نسبت درست ہی نہیں ہے۔
قدم :۔ حق سبحانہ تعالی کے علم میں جو ہرشی کے لئے ایک خاص قابلیت اور استعداد مقرر ہے ” قدم ” کہلاتی ہے۔
قربت :اسماء و صفات سے بندے کا علم و معرفت میں مستحکم ہو جانا اس طرح کہ کوئی چیز اسے مقصود سے دور نہ کر سکے۔ .
قطب:۔ سردار قوم جس پر قوم کا دارو مدار ہو۔ اقطاب سے مراد ایسے مریدان درگاہ بھی ہو سکتے ہیں۔ جو ایک حد تک تعلیم روحانی پا کر رک گئے ہوں۔ قلب غوث ہی کا نام ۔ سارا نظام عالم ظاہر و باطن اس کے تصرف میں ہوتا ہے۔

کائن بمعنی صحبت و محبت رکھنے والا،
کاسہ قلب :۔عارف باطن عارف اور حقیقت جامعہ کو بھی کہتے ہے۔
الکسوۃالعنصر یہ :۔ لباس عنصری اس سے مراد نور کا لباس ہے جو روحوں کو عالم الملک میں عطا ہوا ہے۔

کشف:۔غیبی امور سے حجابات کا اٹھنا

کفر مجازی:۔ناشکری ذات حق  اور گمراہی
کنز:ذات احدیت جو غیب کے پردوں میں بھی تھی۔

کیمیائے سعادت:۔تہذیب نفس رذائیل سے اجتناب و تزکیہ و فضائل کا اکتساب

گلستان:۔ باغ،گلزار، مشاہدات تجلیات حق سے کنایہ ہےاور مراد دنیا بھی ہے

لاهوت  :۔ گنج مخفی مقام فنا محویت تامہ حقیقت وحدت جو جمیع اشیاء میں ساری ہے۔ مرتبہ ذات ۔ عالم ذات الہی جس میں سالک کو فنا فی اللہ کا درجہ ملتا ہے

لطف:۔ عمل وکردار میں نرمی اور نزاکت کو کہتے ہیں۔ اور لطف خداوندی سے مراد توفیق عمل اور گناہوں سے عصمت ہے ۔ ملاطفت کا معنی نیکی کرنا اور تلطف کا معنی نرمی کرنا .

لوائح:۔مجاہدہ کے دوران سالک کی کیفیت،در اصل وہ انوار ذاتیہ ہیں جو نیکی کی چمک کے مانند ظاہر ہوتے ہی غائب ہو جاتے ہیں۔ ایک لمحہ سے زیادہ نہیں ٹھہرتے۔

لوامع:۔ لوامع میں ٹھہراؤ بہ نسبت لوائح کے زیادہ ہوتا ہے اور کبھی کبھی دو دو تین تین لمحے تک بھی قائم رہتے ہیں ۔ گویا لوائح سے بڑھی ہوئی تجلیات ہیں۔ لوامع چمکنے کے ساتھ ہی اپنی تابش سے بندہ کو خودی سے منقطع کر کے خدا کے ساتھ جمع کر دیتے ہیں اور ان کی روشنی پوری طرح پھیلنے بھی نہیں پاتی کہ زوال شروع ہو جاتا ہے لیکن اثر کسی قدر بعد تک قائم رہتا ہے۔

لوح:۔ تقدیر الہی میں جو کچھ مقدر ہو چکا ہے اس کا نوشتہ از لی ۔ اسے کتاب مبین بھی کہتے ہیں۔

مبدا و معاد:۔ مبدا سے مراد اول اورجائے آغاز اور معاد سے مراد آخراور جائے انجام ، یا ازل و ابد ۔ یا ۔ دنیا و آخرت میں یا ہر کام کے اول و آخر میں ۔

مجاہدہ: ۔ کوشش، جد و جہد نفس کو اس کی صفات مجرد کرنے اور اوصاف ذمیمہ کو اوصاف حمیدہ میں تبدیل کرنے کی عملی کوشش ۔ مقابلہ نفس مخالفت ہوا۔

محادثة:۔ باہم گفتگو یا کلام کرنا،خطاب حق تعالی جو عالم الملک و الشہادت سے عارفوں کی جانب ہوتا ہے۔ جس طرح کہ موسیٰ علیہ السلام کو درخت کی جانب سے ندا آئی تھی ۔

محاضرہ:۔  قدرت الہی کی نشانیاں دیکھ کر حق تعالیٰ کے حضور کی کیفیت کا قلب میں پیدا ہوتا۔

محتسب:۔گنتی کرنے والا عقل سے کنایہ ہے،خلاف شرع کاموں سے روکنے والا

محویت :۔ بندے کا اللہ کی ذات کے علاوہ ہر وجود سے لا تعلق ہو جاتا۔
مخدع :۔معرفت میں ایک مقام ، قطب الاقطاب یعنی غوث کا ایک خاص مقام اور اعلی مرتبہ

مراقبہ:۔ کے معنی غور کرنا یا کسی چیز پرتوجہ مرکوزکرنا ہے۔ مراقبہ ایک قلبی عمل ہے جو لفظ ’’رقیب‘‘ سے ماخوذ ہے۔ رقیب اسمائے الٰہی سے ایک اسم ہے جس کے معنی نگہبان، پاسبان کے ہیں۔

مرشد:۔ پیر، رہنمائے کامل راستہ دکھانے والا راه رشد عطا کرنے والا ۔ صراط مسقیم کی جانب رہنمائی کرنے والا۔

مرید:۔ مرشد کا پیروکار بیعت کرنے والا طالب ہدایت جس کا ارادہ حق تعالیٰ کے ارادہ میں محو ہو گیا ہو۔ جس کے لیے اسماء الہی کا دروازہ کھولا گیا ہو

مست:۔ مرشد اور چشم معشوق سے کنایہ ہے ہشیار کی ضد متوالا اور مجذوب

مستدرج:-وہ شخص ہے جس سے ایک ایک کر کے نعمتیں چھین لی جاتی ہیں۔ اور اس کو احساس بھی نہیں ہوتا ہے۔

مسجد:۔ سجدہ گاہ اور سالکوں کی اصطلاح میں منظر تجلی اجمالی” اور آستانہ پیرومرشد کو کہتے ہیں ۔ ظاہر پرستوں کے زہدو ورع سے بھی کنایہ کرتے ہیں ۔
مشاهده:۔ دل کی آنکھ سے حق کو دیکھنا۔

مطرب:َ مرشد کامل اور مرد اکمل سے کنایہ ہے کیونکہ وہ عشق و معرفت کےنغمے سناتا ہے

معرفت :یہ ولی اللہ کی صفت ہے جو حق سبحانہ تعالی کو اس کے اسماء صفات سے پہچانتا ہے۔ اور الله تعالی اس کے معاملات میں سچائی پیدا کر دیتا ہے۔ اور اس کو اخلاق رذیلہ اور اس کی آفات سے پاک و صاف کر دیتا ہے۔ اس تزکیہ کے بعد وہ اللہ تعالی کا ہو کر رہ جاتا ہے وہ سر میں اللہ تعالی کے ساتھ مناجات کر تا ہے اور یہاں اس کی حاضری دائمی صورت اختیار کر جاتی ہے۔ ایسے میں وہ وقت کا ترجمان بن جاتا ہے۔ اس کے اسرار قدرت کو بیان کر تا ہے۔ اور تصرفات کے بارے گفتگو کرتا ہے۔ معرفت کے حامل شخص کو عارف کہتے ہیں۔
مقام:۔ مرتبہ سلوک و قرب الی اللہ ۔ اس سے مراد بندے کا دہ مرتبہ ہے جو وہ توبہ ، زهد ، عبادات ، ریاضات اور مجاہدات کے ذریے بارگاہ خداوندی میں حاصل کرتا ہے۔ جب تک وہ ایک مقام کے احکام پر پورا نہیں اتر تا دوسرے مقام کی طرف ترقی نہیں کر سکتا۔
معرفت میں ایک منزل کا نام بھی ہے۔

مقامات عشرہ..؛ مقام ولایت تک پہنچنے کے لیے دس مقامات ہیں 1توبہ…..2انابت…..3زُہد…..4قناعت…..5ورع…..6صبر…..7شکر…..8توکل…..9تسلیم…..10رضا…..ان کے حصول کے بغیر ولایت تک پہنچناناممکن ہے
مکاشفہ :اتصال یا تعلق باللہ کا نام مکاشفہ ہے۔ مکاشفہ سے چھپے راز عیاں ہو جاتے ہیں اور انسان باطن کی آنکھ سے سب کچھ دیکھنے لگتا ہے۔

ممکن الوجود:۔ وہ ہے جو اپنی موجودیت کے لیے کسی غیر کا محتاج ہو اور اس میں حکم ( قانون قاعدہ) کے اختلافات جاری ہوں۔

مناجات:۔ کے معنی، احباب کے ساتھ چپکے چپکے بات کرنی ہے۔ بندے کی اللہ تعالی کے ساتھ سرگوشی : تلاوت ، اور اذکار کے ساتھ ہوتی ہے۔ اور اللہ تعالی کی اپنے بندے کے ساتھ سر گوشی سمجھ ، اور معرفت کے دروازے کھلنے، اور حجابات کے اٹھنے کے ساتھ ہوتی ہے۔

موانعات :۔ رکاوٹیں، سلوک میں موانعات وہ ہیں  جوخلاف شرع وصول الی اللہ  میں  سد راہ ہوں ۔ وہ مجمل طور پر چار ہیں :

(1)خلاف شرع باتیں

(2)   قلب کی ماسوی سے آلودگی

معصیت، شرک و وسواس (3)

اخلاق ذمیمه (4)

موت اختیاری :۔ ہوائے نفس کا قلع قمع۔ لذت جسمانی سے اعراض توبه موتو اقبل ان تموتو ا یعنی مرنے سے قبل مرجانے سے اسی موت کی طرف اشارہ ہے۔ اس مرگِ اختیاری کی مندرجہ ذیل اقسام ہیں:

(1) موت ابیض : سفید موت۔ یعنی بھوک، پیاس اور نیند پر قابو پا لینا۔

(2) موت احمر:۔ سرخ موت۔ یعنی خواہشات پر غلبہ پالیتا۔ لذائذ و خواہشات کی قربانی

(3) موت اخضر: ۔ سبز موت ۔ یعنی آئندہ کے متعلق امنگوں کو خیر باد کہہ دینا ۔ اس سے ترقی و سرسبزی شروع ہو جاتی ہے اس لیے اسے سبز موت کہا گیا ہے۔

(4) موت اسود: سیاہ موت ۔ یعنی دارین سے منہ پھیر لینا۔ الفقر سواد الوجه في الدارين چونکہ دونوں جہان سے آنکھ بند کر لی جاتی ہے اسے  سیاہ موت کہتے ہیں

میان : وسط، کمر، کنارے کی ضد۔ صوفیوں کی اصطلاح میں طالب مطلوب کے درمیان جو رابطہ اور بھید ہوتا ہے اس سے کنایہ ہے ۔ وہ لمحہ امر ہاریک جس کی دریافت خدا کی بخشش کے سبب ہوتی ہے ۔

مے خانہ :۔ مقام محبت سے بھی کنا یہ ہے پیرخانے و مرشد خانے کیلئے استعمال ہوتا ہے اور عالم عشق اور مشاہدات و تجلیات  مراد ہیں،

ناقوس :۔ راہب اپنی طاعت کی تائید میں بانگ نماز کی جگہ بجاتے ہیں ۔ یہ کنایہ ہے اہل معرفت کی گفتگو سے جو وہ ایک دوسرے سے کرتے ہیں۔ وہ جذبہ جو خدا کی خبر دیتا ہے، طاعت وعبادت کی ترغیب دیتا ہے اور خواب غفلت سے بیدار کرتا ہے ۔

نایافت: محرومی  اور نقصان  اور نا قابل دریافت ۔عشق و طلب کی وہ کیفیت جو محرومی کی صورت میں ہوتی ہے۔

نزول:۔اپنی تکمیل کے بعد دوسروں کی تکمیل وار شاد کے لئے مخلوق کی طرف متوجہ ہونا۔ اصطلاح میں اس کو سیر عن اللہ باللہ کہتے ہیں

نغمہ:۔آواز سرود، خواہ گلے سے نکلے یا بانسری سے کنایتا حقائق و معارف مراد لئے جاتے ہیں
نفس امارہ : جو نفس بشری شہوانی طبیعت کے تقاضوں کا مطیع و فرمانبردار ہو نفس امارہ کہلاتا ہے۔ نفس امارہ اوامر و نواہی کی کچھ پرواہ نہیں کرتا اور لذات نفسانی میں منہمک رہتا ہے۔
نفس مطمئنہ :ایسانفس جسے حق سے سکون حاصل ہو اور وہ طمانیت کی کیفیت پا چکا ہو۔
نفس ملہمہ : ایسا نفس الہام خداوندی سے بھلائی کے کام کرتا ہے۔لیکن بتقاضا طبیعت اس سے برے کام بھی ہو جاتے ہیں۔

نفی و اثبات:۔ انکار اور اقرار، ،خیال کی زبان سے لَاأِلٰہَ اِلآَااللّٰہُ کے ذکر کو نفی و اثبات کہتے ہیں۔ ذکر نفی و اثبات

توحید کی دو جہتیں ہیں نفی اور اثبات اور کلمہ طیبہ مرکب ہے نفی اور اثبات سے ذات باری تعالی ان اوصاف سے مبرا و منزہ ہے جو اس کی شان کے شایاں نہیں۔ نفی ان ہی اوصاف ناقصہ کی کی جاتی ہے اور اس کی ذات کامل، اسمائے حسنیٰ اور ان اوصاف کا ملہ (جن کو اس نے خود بیان فرمایا ہے ) کا اثبات کیا جاتا ہے ۔ لیکن حقیقت خداوند عزوجل ہمارے نفی اور اثبات کا بھی محتاج نہیں ہے۔ ذات باری تعالی ہماری تمام تصورات و عبارات سے منزہ اور مادری ہے۔

نکاح معنوی:۔ روح اور بدن کا تعلق عاشق و معشوق کا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں کے درمیان نکاح معنوی کر دیا اور حق مہر کے طور پر تمام عالم کو انسان کی ملک بنا دیا۔ اس نکاح معنوی سے جو اولاد پیدا ہوئی وہ حسب ذیل ہے: علوم نطق، فصاحت اخلاق حسنہ صباحت بالفاظ دیگر صفات کمال اور جلال و جمال۔

نکہت:۔معنی پھول کی خوشبو،اس پیغام سے کنایہ ہے جو ملک الموت لاتا ہے

نهایت :۔ روح کا اس صفاء کی طرف رجوع جواسے تعلق بالجسد سے پہلے حاصل تھی۔
نور قدسی :۔ وہ نور جس کا فیض عالم ملکوت اور عالم جبروت کوپہنچتا ہے۔

واجب الوجوب:۔ واجب وہ ہے جو اپنے وجود کے لیے کسی غیر کا محتاج نہ ہو۔ وہ ذات حق ہے۔ جو اپنے وجود قیام و بقا کے لیے کسی غیر کا محتاج نہیں۔

واجب الوجود:۔اسے کہتے ہیں جس کا وجو د اس کی ذات کا مقتضا ضروری ہو۔

وادی ایمن :۔ کوہ طور کے دامن میں ایک صحرا ، صحرائے سلوک سے کنایہ ہے

وارد:۔ وہ  غیبی معانی جو بغیر کسب کے وہبی طور پر عالم غیب سے سالک کے دل پر نازل ہوں ایسی کیفیت جو بندے کی برداشت سے باہر ہو،

واسطہ:۔ پیر و مرشد

واصل : کسی شے سے وابسطہ ہونے والا اللہ تعالی سے پیوست ہو جانے والا فنا فی اللہ

واعظ:۔ اسے مراد نفس لیا جاتا ہے جو وعظ ونصیحت کرتا رہتا ہے
وجد :حق کے راز کو پاکر روح کا خشوع اختیار کرنا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ جب انسان ذکر کی حلاوت محسوس کرتا ہے تو اس کے دل میں عشق کی چنگاری بھڑک اٹھتی ہے جسے وہ برداشت نہیں کر سکتا اور ضبط کے باوجود بھی کسی نہ کسی رنگ میں اظہار ہو جاتا ہے۔ اظہار کی کیفیت و جد ہے۔
وجود:سلطان حقیقت کے غلبے کے وقت بشریت کافناوجود ہے۔ اپنی حقیقت سے باخبر ہونا

ورد:۔  بار بار دہرانے کا عمل وہ ہے جو تمہاری طرف سے اللہ کی بارگاہ میں  پیش ہو۔
وصال :اتصال بالحق کا دوسرا نام ہے وصال مخلوق سے انقطع کی قدر ہوتا ہے۔ ادنی وصال دل کی آنکھ سے مشاہدہ ہے۔ جب حجاب اٹھ جاتا ہے اورتجلی پڑتی ہے تو سالک کو اس وقت واصل کہاجاتا ہے ۔
اس کے دو مفہوم ہیں
(1) وصل حقیقت محمدیہ کیونکہ سالک جب سلوک تمام کر کے یہاں پہنچتا ہے۔ تو واصل بحق ہوتا ہے۔
(2)۔ سالک کا اپنی صفات بشریت کو صفات حق سبحانہ میں فنا کر دینا۔۔

وصول:۔ کے معنی :- صوفیائے کرام کے نزدیک اللہ تعالیٰ  کے واحد وجود کے علم کا  ثابت اور قائم ہو جانا ہے ۔

وقت :۔ایک منزل جس میں عارف کے لئے بہت مشکلات واقع ہوتی ہیں۔یہ منزل عرفان مشکل ترین منزل ہے

ہشیاری:۔غلبہ عشق سے افاقہ سکون کی جانب آنا، یعنی مقام سکر سے مقام صحو کی جانب آنا

ہفت منزل :۔ وہ سات وادیاں جو سالک کو راہ سلوک میں طے کرنی ہوتی  ہیں   : (1) وادی طلب (2) وادی عشق (3) معرفت الہی (4) استغنا(5) توحید (6) حیرت (7) فقر وغنا

ہمت:۔  اپنے لیے یا کسی اور کے لیے حصول کمالات کی غرض سے اپنی پوری قوتوں اور جمیع قوائے روحانی کے ساتھ حق تعالی کی جانب متوجہ ہونا ۔

هوا:ھوی:۔( خواہش نفس – آرزو)  طبیعت کی جانب نفس کا میلان اور علویت سے سفلیت کی جانب  جھکنے کی خواہش ۔

هویت (مرتبہ وحدت یا مرتبہ ذات۔ لاھوت ) لفظ ھو سے مشتق ہے جو غائب کی طرف اشارہ کرنے کے لیے استعمال میں آتا ہے۔ ھویت سے حق تعالٰی کی ذات کنہ(ذات بلند، اعلی، اللہ تعالی ذات حقیقی۔) کی طرف اشارہ باعتبار اس کے اسما و صفات اور اس کی غیوبیت کے۔ حق تعالٰی کی غیبت میں اس کی شہادت ہے اور اس کی شہادت عین اس کی غیبت ہے۔ انسان کی حالت پر اس کا قیاس نہیں کیا جا سکتا، بلکہ وہ بالذات ایسا غیب ہے جو اس کو لائق ہے اور اس کی شہادت بھی ایسی ہے جو اسی

کے لائق ہے۔

 یار:۔ محبوب مرشد اور صاحب سے کنایہ ہے مددگار اور سہارا کے معنی میں آتا ہے

یافت  : پانا اورفائدہ  یاوصول    قابل دریافت  ۔عشق و طلب کی وہ کیفیت جو ھل من مزید “ کی صورت ہمیشہ طالب رہتی ہے

۔يقين :۔ شک کا ازالہ ۔ ایسا علم ہے جس میں وہم کی مزاحمت ، اور شک کی آمیزش نہ ہو اور اُس کے ساتھ کوئی گھبراہٹ اور بیقراری نہ ہو۔ اس کی تین قسمیں ہیں۔ علم الیقین، عین الیقین اور حق الیقین۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں