اعتبار/اعتبارات

 تصوف میں اعتبار کا لفظ بالعموم حقیقت کے مقابلے میں بولا جاتا ہے۔ ہر وہ شے اعتباری ہے، جو حقیقی نہیں۔ اور ہروہ چیز اعتباری ہے ظنی اور وہمی ہے۔ ذات حق ہر شے کی حقیقت ہے اور ہر شے کا وجود اعتباری ہے یعنی ہر شے کا وجود وجود حق سے قائم ہے۔

اگر بتی جلا کر تیز گھمائیں، ایک دائرہ سا بن جائے گا۔ کیا یہ دائرہ حقیقی ہے؟ ہرگز نہیں، ظنی ہے ، وہمی ہے اور اسی لیے اس کو اعتباری کہا جائے گا۔ حقیقتاً اگربتی کا جلتا ہوا سرا جو ایک نقطہ روشن ہے، دائرہ کی صورت میں نمودار ہو رہا ہے۔ اسی طرح ایک ذات حق ہی حقیقی ہے اور اس کے سوا جو کچھ ہے اعتباری ہے ۔ ہر تنزل ، ہر تعین ، ہر تقید اعتباری ہے اور ساری کائنات اعتبارات ہی کا مجموعہ ہے ۔

وجود اندر کمال خویش ساریست

تعينها امور اعتباریست

وجود اپنے کمال میں جاری ہے اور تعینات امور اعتباری ہیں 

یہ امر لائق توجہ ہے کہ کائنات میں جو کچھ اب تک ہوا، ہو رہا ہے اور ہونے والا ہے ، وہ باعتبار زمانہ تین حصوں میں ہی منقسم ہو سکتا ہے ۔ ماضی، حال اور مستقبل ۔ ماضی گزر چکا جس کا اب وجود نہیں۔ مستقبل آیا نہیں لہذا وہ بھی غیر موجود رہا حال جس میں ہم اپنے آپ کو پا رہے ہیں، اسی میں ہم مقید ہیں اور اسی پر ہماری ہستی کا دارو مدار ہے ۔ ایک وقت تھا کہ ماضی ماضی نہ تھا بلکہ حال تھا اور ایک وقت ہو گا کہ مستقبل مستقبل نہ ہوگا بلکہ حال ہو گا۔ بس حال ہی ہمارا نقد سرمایہ ہے ۔ اسی پر ہمارا قبضہ ہے اور اسی کی بنا پرہمیں یہ گمان ہے کہ ہماری بھی ایک ہستی ہے لیکن غور کریں اس حال کی حیثیت ہی کیا ہے ۔ ہم اب کہتے ہیں۔ اس کا تجزیہ کریں الف ادا ہوا تو ماضی ہو گیا اور ب ادا نہیں ہوا، مستقبل ہے ۔ حال کہاں ہے؟ ۔

بس یہی موہوم سی حد فاصل جو الف، اور “ب ” کے درمیان ہے یہ ایک نقطہ وہمی ہی تو ہوا جو صرف اعتباری ہے۔ حقیقت کہاں؟ در حقیقت حال کا وجود ہی نہیں۔ ہم حال پر قائم تھے لکن حال ہی نقطہ وہمی نکلا۔ توپھر ہم کہاں رہے ؟ وہ شاخ ہی نہ رہی جس یہ آشیانہ تھا تصوف ہی میں اعتبار کے ایک اور معنی بھی ہیں جس کو نہ سمجھنے کی وجہ سے بڑی غلط فہمیاں پیدا ہوئی ہیں اور ہوتی رہتی ہیں ۔ اعتبار کے ایک معنی ہیں ” گزر جانا ، ایسی صورت میں اس کا مصدر” عبور ہوگا۔ دوسرے معنی ہیں ” عبرت لینا ” ایسی صورت میں اس کا مصدر ہوگا عبرت ” عبرت لینا اور نصیحت حاصل کرنا صوفیہ کرام کا طریقہ رہا ہے ۔ وہ ہر بات کو اپنے مطلب پر ڈھال کر عبرت و نصیحت حاصل کر لیتے ہیں۔ قرآن پڑھتے ہیں تو شیطان اور کفار کو اپنے نفس پر منطبق کرتے ہیں ۔ پیغمبروں کا ذکر آتا ہے تو نفس لوامہ مراد لے لیتے ہیں ، قلب سلیم سمجھ لیتے ہیں۔ جتنی کہ قصہ لیلی مجنوں سن کر یا پڑھ کر خود کو مجنوں سمجھ لیتے ہیں ، لیلی سے محبوب حقیقی مواد لے لیتے ہیں۔ اسی طرح ساقی کو شیخ اور شراب کو معرفت سمجھ لیا ۔

اعتبار کے لیے ضروری نہیں کہ پورا قصہ ہی منطبق ہو جائے، بعض حصے سے بھی اعتبار کیا جاتا ہے خواہ دوسرا حصہ نا موافق ہی کیوں نہ ہو ۔۔  

  صوفیائئے کرام اپنے حسب حال معنی (اعتبار) سے لیتے ہیں ۔

 کبھی ایسا ہوتاہے کہ عارف کسی وقت کوئی آیتِ قرآنی یا حدیثِ نبوی سنتاہے تو اس کا ذہن کسی معرفت کی جانب منتقل ہوتاہے اگرچہ بظاہر عبارتِ نص اور اشاراتِ نص اور اقتضائے نص سے اس معرفت کی جانب دلالت وضعی نہ پائی جاتی ہو اس انتقالِ ذہنی کو اعتبار کہتے ہیں۔

مثلا کسی نے حدیث بیان کی جس گھر میں کتا اور تصویر ہو اس میں رحمت کا فرشتہ نہیں آتا ۔” یہ ایک واضح المعنی حدیث ہے جس میں کسی قسم کا ابہام ہے نہ عقدہ ۔ اس کو تشریح کی ضرورت ہے نہ تغیر کی ۔ لیکن ایک صوفی یہ حدیث سنکر بول اٹھتا ہے سچ ہے جس خانہ دل میں حرص کا کتا اور ماسوی اللہ کی تصویر ہو ، اس میں فرشتہ قدس نہیں آتا ہے یہ اعتبار کیوں درست نہیں ؟ آخر اس میں کیا غیر شرعی بات ہے ؟ یہ بات اچھی طرح ذہن نشین رہے کہ جو اعتبار خلاف شرع نہ ہو ، وہ بالکل جائز اور درست ہے ۔ بلکہ بعض اوقات یہ تغیر سے زیادہ موثر اور مفید مطلب ہوتا ہے ۔ صرف وہی اعتبار ناجائز اور مردود ہوگا جو خلاف شرع ہو ۔ :

  آپ کسی جاہل سے کہیں میں تمہیں حیوان ناطق سمجھتا ہوں ، پھر دیکھئے وہ کس طرح آپ سے لڑ پڑے گا حالانکہ آپ نے کوئی غلط بات نہیں کہی علمی طور پر حیوان ناطق اور انسان میں کوئی فرق نہیں ہر ایک دوسرے کا عین ہے۔ جو انسان ہے وہ حیوان ناطق ہے اور جو حیوان ناطق ہے وہ انسان ہے ۔ مگر بات ایک جاہل چونکہ نہیں سمجھتا وہ تو یس لفظ حیوان ہی پہ پھر جائے گا۔ 

وہ حیثیت یا منزل جو خداوند تعالیٰ نے مقرر اور متعین فرمائی ہے اس کا اطلاق تجلیات اور تعینات پر آتا ہے یعنی ان کو اعتبارات کہتے ہیں

تصوف میں اس لفظ کا استعمال عموماً حقیقت کے مقابلہ میں ہوتاہے۔ ہر وہ چیز جو حقیقی نہیں اعتباری ہے۔ ہر وہ چیز جو ظنّی وہمی اور فرضی ہے اعتباری ہے۔

شاہ ولی اللہ تحریر فرماتے ہیں آگاہ رہو کہ آنحضرت ﷺنے صفت کے اعتبار کو تدبر قرآن ان کے وقت نگاہ میں رکھا ہے اور اس کے موافق ایک دریا چھوڑ دیا ہے ہے غرض چھوڑا ہے غرض اعتبار ایک فن ہے بہت بڑا اور عمدہ اور بہت وسیع سب اسی مقولہ اعتبار سے ہے ترتیب موجودت جن منزلوں یا سیڑھیوں پر سے وجود نے نزول فرمائیں حسب موقع کبھی تنزلات کبھی تعینات کبھی تجلیات کبھی تقیدات اور کبھی اعتبارات کہتے ہیں وجود ،علم نور اور شہود کو اعتبارات اربعہ کہا جاتا ہے

اعتبار کی مثال

تعدد صفات سے تعدد حقیقی موصوف کا نہیں آیا کرتا۔ اگر کوئی شخص مثلاً زید چار پیشے (سوت کا تنا۔ کپڑا بننا۔ کپڑے سینا۔ کپڑا رنگنا) جانتا ہے تو کیا ایک زید سے چار زید ہوگئے ؟ کوئی دانا یہ کہے گا ؟ اسی طرح صفات اللہ کریم کا معاملہ ہے ہاں اعتباری تعدد ضرور ہے یعنی اس لحاظ سے کہ اللہ علیم ہے اور ہے اس لحاظ سے کہ اللہ قدیر ہے اور ہے مگر ایسے اعتبارات بالکل اس قصے کے مشابہ ہوں گے جو دو منطقی بھائیوں کا مشہور ہے کہ آپس میں گالی گلوچ ہو پڑے مگر چونکہ دونوں کی ماں بہن ایک تھی اس لیے گالی دیتے ہوئے قید اعتباری لگا دیں کہ تیری ماں کو اس حیثیت سے کہ تیری ماں ہے دوسرا بھی اسی ماں کو گالی دے مگر بقید حیثیت اس حیثیت سے کہ تیری ماں ہے پس جیسا ان کی ماں میں حقیقۃً تعدد نہ تھا بلکہ یہ ان کی جہالت کا ثبوت تھا اسی طرح صفات کے اعتبار سے اللہ میں تعدد پیدا کرنا ایک نادانی کا اظہار ہے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں