اعتبار/اعتبارات

وہ حیثیت یا منزل جو خداوند تعالیٰ نے مقرر اور متعین فرمائی ہے اس کا اطلاق تجلیات اور تعینات پر آتا ہے یعنی ان کو اعتبارات کہتے ہیں

تصوف میں اس لفظ کا استعمال عموماً حقیقت کے مقابلہ میں ہوتاہے۔ ہر وہ چیز جو حقیقی نہیں اعتباری ہے۔ ہر وہ چیز جو ظنّی وہمی اور فرضی ہے اعتباری ہے۔

صرف حق سبحانہ تعالیٰ ہی ذات حقیقی ہے اور اس کے ماسوائے جو کچھ ہے سب اعتباری ہے ہر تنزل ہر تعین ہر تقید اعتباری ہے ساری کائنات اعتبارات ہی کا مجموعہ ہے

لفظ اعتبار کا استعمال ہے جو تصوف کی کتابوں میں پایا جاتاہے۔ کبھی ایسا ہوتاہے کہ عارف کسی وقت کوئی آیتِ قرآنی یا حدیثِ نبوی سنتاہے تو اس کا ذہن کسی معرفت کی جانب منتقل ہوتاہے اگرچہ بظاہر عبارتِ نص اور اشاراتِ نص اور ایمائے نص سے اس معرفت کی جانب دلالت وضعی نہ پائی جاتی ہو اس انتقالِ ذہنی کو اعتبار کہتے ہیں۔

ذات کیلئے حکمِ ثابت جو ذات کیساتھ قائم ہو ذات کا اعتبار کہلاتا ہے۔ حُکمِ ثابت یہ ہے کہ ھُوَ النَّظْرُ فِیْ الْحُکْمِ الثَّابِتِ اَنَّہ لَاِیِْ مَعْنًی ثَبَتَ وَاِلْحَاقُ نَظِیْرہ بِہ وَھٰذَا عَیْنُ الْقِیَاسِ(کتاب التعریفات ص 13) ترجمہ: وہ حکم جو پہلے سے ثابت ہے اس میں باین طور غور و فکر کرنا کہ اس حُکم کی عِلّت معلوم ہوجانے پر دوسری چیز میں وہی عِلّت معلوم کرکے وہ حکمِ ثابت اس چیز میں بھی ثابت کیا جائے اس کا نام قیاس ہے

شاہ ولی اللہ تحریر فرماتے ہیں آگاہ رہو کہ آنحضرت ﷺنے صفت کے اعتبار کو تدبر قرآن ان کے وقت نگاہ میں رکھا ہے اور اس کے موافق ایک دریا چھوڑ دیا ہے ہے غرض چھوڑا ہے غرض اعتبار ایک فن ہے بہت بڑا اور عمدہ اور بہت وسیع سب اسی مقولہ اعتبار سے ہے ترتیب موجودت جن منزلوں یا سیڑھیوں پر سے وجود نے نزول فرمائیں حسب موقع کبھی تنزلات کبھی تعینات کبھی تجلیات کبھی تقیدات اور کبھی اعتبارات کہتے ہیں وجود ،علم نور اور شہود کو اعتبارات اربعہ کہا جاتا ہے

اعتبار کی مثال

تعدد صفات سے تعدد حقیقی موصوف کا نہیں آیا کرتا۔ اگر کوئی شخص مثلاً زید چار پیشے (سوت کا تنا۔ کپڑا بننا۔ کپڑے سینا۔ کپڑا رنگنا) جانتا ہے تو کیا ایک زید سے چار زید ہوگئے ؟ کوئی دانا یہ کہے گا ؟ اسی طرح صفات اللہ کریم کا معاملہ ہے ہاں اعتباری تعدد ضرور ہے یعنی اس لحاظ سے کہ اللہ علیم ہے اور ہے اس لحاظ سے کہ اللہ قدیر ہے اور ہے مگر ایسے اعتبارات بالکل اس قصے کے مشابہ ہوں گے جو دو منطقی بھائیوں کا مشہور ہے کہ آپس میں گالی گلوچ ہو پڑے مگر چونکہ دونوں کی ماں بہن ایک تھی اس لیے گالی دیتے ہوئے قید اعتباری لگا دیں کہ تیری ماں کو اس حیثیت سے کہ تیری ماں ہے دوسرا بھی اسی ماں کو گالی دے مگر بقید حیثیت اس حیثیت سے کہ تیری ماں ہے پس جیسا ان کی ماں میں حقیقۃً تعدد نہ تھا بلکہ یہ ان کی جہالت کا ثبوت تھا اسی طرح صفات کے اعتبار سے اللہ میں تعدد پیدا کرنا ایک نادانی کا اظہار ہے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں