اچھی سوچ عمل میں راہنمائی

حضرت شیخ المشائخ، قطب ربانی، غوث صمدانی ، محبوب سبحانی، سیدنا عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہ نے تصوف و طریقت پر مشتمل کتاب” آداب السلوک والتواصل الی منازل الملوک“ میں فرمایا :

مومن کو چاہیئے کہ پہلے وہ فرائض کی ادائیگی میں مشغول ہو۔ جب فرائض کی ادائیگی سے سبکدوش ہو جائے تو پھر نوافل اور مستحبات کی فکر کرے ۔ جب تک اس پر عائد فرائض کی ادائیگی مکمل نہیں ہوتی اس کا سنن میں مشغول ہونا حماقت اور رعونت ہے اگر وہ فرائض کو چھوڑ کر سنن ونوافل میں مشغول ہوا تو یہ بھی مقبول نہیں ہونگے اور اس کی اہانت ہوگی۔ 

اس کی مثال اس آدمی کی کیا ہے جسے بادشاہ اپنی خدمت کا حکم دیتا ہے اور وہ شخص بادشاہ کی خد مت چھوڑ کر بادشاہ کے غلام کی خدمت میں جت جاتا ہے۔ یقیناً بادشاہ اس سے ناراض ہو گا کیونکہ اس نے اس کے خادم اور زیردست کی خدمت کو ترجیح دی۔ 

حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے۔ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: 

إن مصل النوافل وعليه فريضة كمل إمرأة حملت فلما دنا نفاسها أسقطت ولاهى ذات حمل ولاهي ذات ولد. كذالك المصلى لايقبل الله له نافلة حتى يؤدى الفريضة 

فرض چھوڑ کر نوافل ادا کرنے والا اس حاملہ عورت کی مانند ہے جس کی مدت ولادت قریب آئے تو اس کا حمل ساقط ہو جائے۔ نہ وہ حاملہ شمار ہو اور نہ ہی بچے کی ماں۔ اسی طرح جب تک نمازی فرائض ادا نہیں کرتا اس کی نفلی عبادت بارگاہ خداوندی میں قبول نہیں ہوتی۔

 نمازی کی مثال تاجر کی ہے کہ جب تک وہ راس المال حاصل نہیں کر لینا نفع حاصل نہیں کر سکتا۔ 

اس طرح جو شخص سنت چھوڑ کر ان نوافل کی ادائیگی میں مشغول ہو جاتا ہے جن کی ادائیگی فرائض پر مرتب نہیں ہوتی۔ اور نہ انہیں چھوڑنے سے فرائض میں نقص آتا ہے اور نہ انہیں ادا کرنے کا تاکیدی حکم دیا گیا ہے تو اس کے نوافل قبول نہیں ہوتے۔ 

حرام اور شرک باللہ کر ترک کرنا۔ خدائی فیصلوں پر اعتراض نہ کرنا۔ مخلوق کی فرمانبرداری اور اطاعت سے اجتناب کرناور اللہ تعالی کے حکم اور اس کی اطاعت سے روگردانی کارویہ چھوڑ دینا فرض ہے۔ نبی کریم کا ارشاد گرامی ہے۔ 

لَا طَاعَةَ لِمَخْلُوقٍ فِي ‌مَعْصِيَةِ ‌الْخَالِقِخالق کی نافرمانی کر کے مخلوق کی فرمانبرداری کا کوئی جواز نہیں“ 

آداب السلوک شیخ عبد القادر الجیلانی صفحہ 144 ،مکتبہ دارالسنابل دمشق شام


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں