بے مثال نعمتوں کا سفر

حضرت شیخ المشائخ، قطب ربانی، غوث صمدانی ، محبوب سبحانی، سیدنا عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہ نے تصوف و طریقت پر مشتمل کتاب” آداب السلوک والتواصل الی منازل الملوک“ میں فرمایا :

جو آخرت کا ارادہ رکھتا ہے اس پر لازم ہے کہ دنیا میں زہد اختیار کرے۔ اور جس کا مقصود اللہ تعالی ہے اس پر لازم ہے کہ وہ آخرت سے بھی قطع تعلقی برتے۔ وہ دنیا و آخرت کیلئے اور پھر آخرت کو اپنے رب کیلئے چھوڑ دے۔ 

جب تک اس کے دل میں دنیا کی شہوتوں اور لذتوں سے ایک لذت و شہوت بھی پائی جارہی ہے یا دنیا کی راتوں میں سے کوئی ایک راحت پائی جارہی ہے وہ حقیقی زاہد نہیں ہو سکتا۔ مثلا کھانے پینے ، لباس ، نکاح رہائش سواری، ولایت وریاست ، اور دوسرے علوم و فنون مثلا فقہ لیکن اس قدر کہ عبادات خمسہ کی ادائیگی ہو سکے ، روایت حدیث ، مختلف روایتوں سے قرأت قرآن۔ علم نحو، لغت ، فصاحت و بلاغت۔ زوال فقر ووجود غنی کا علم ۔ بلیات کے جانے اور عافیت کے آنے سے متعلقہ علم ۔ ان کے علاوہ سے نقصان سے بچنے اور نفع حاصل کرنے سے متعلق علم ان تمام لذت ہائے دنیا سے جب تک اپنے دل کو خالی نہیں کر لیتا اللہ تعالی کاطالب کہلوانے کا مستحق نہیں بن سکتا۔ کیونکہ ان تمام چیزوں سے نفس لذت محسوس کرتا ہے۔ انسان کی طبیعت ان سے موافقت اختیار کرتی ہے۔ طبعا اسے ان چیزوں سے راحت ملتی ہے۔ وہ ان میں اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ ان تمام کا تعلق دنیا سے ہے۔ انسان چاہتا ہے کہ یہ چیزیں ہمیشہ اسے میسر رہیں۔ وہ ان سے سکون اور طمانیت محسوس کرتا ہے۔ 

زاہد کو چاہیئے کہ وہ ان تمام چیزوں کا خیال دل سے نکال پھینکنے کی کوشش کرے اور نفس کو مائل کرے کہ وہ ان چیزوں کا ازالہ کرے عد م اور افلاس و فقردائمی پر راضی رہے۔ اور دل میں ذرا برابر بھی دنیا کی خواہش باقی نہ رہے تا کہ وہ واقعی زاہد فی الدنیا کے مرتبے پر فائز ہو جائے۔ 

اگر وہ واقعی زاہد بن جائے گا تو دل غم واندوہ سے خالی ہو جائے گا اور اس کا باطن ہر قسم کی تکلیف سے محفوظ ٹھہرے گا۔ اسے پھر دنیا کی لذتوں سے کوئی تعلق خاطر نہیں رہے گا وہ صرف اللہ عزوجل سے مانوس ہو گا اور صرف اسی سے راحت و سکون محسوس کرے گا۔ جیسا کہ نبی کریم ﷺکا ارشاد گرامی ہے۔ 

إِنَّ الزُّهْدَ فِي الدُّنْيَا ‌يُرِيحُ ‌الْقَلْبَ وَالْبَدَنَدنیا میں زہد قلب و جاں کیلئے باعث راحت ہے ۔

جب تک دل میں دنیا کی کوئی بھی خواہش ہے حزن و ملال اور خوف وہر اس سے مفر نہیں۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ دل میں دنیابسی ہو اور انسان ذلیل و خوار نہ ہو۔ یہ حجاب اکبر ہے۔ دنیا کی محبت قرب الہی سے مانع ہے۔ یہ ایسادبیز پردہ ہے جب تک اس کو ہٹایا نہیں جاتا الله تعالی کاوصال ممکن نہیں ہو سکتا۔ اور اس حجاب کے سرکنے کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ دنیا کی محبت کامل طور پر زائل ہو جائے اور سارے علائق ناپید ہو جائیں۔ 

پھر آخرت میں زہد کی باری آتی ہے۔ انسان کیلئے ضروری ہے کہ وہ در جات ، منازل عالیہ ، حور و قصور۔ مراکب وبساتین۔ بہترین گھر اور خوبصورت پاکیزہ خدام، خلعتیں اور زیورات کھانے پینے کی چیزیں اور دوسری کئی نعمتیں جواللہ تعالی نے اپنے ایماندار بندوں کے لیے تیار کر رکھی ہیں۔ انسان اپنے عمل پر کسی قسم کی جزا اور اجر کا طالب نہ ہو۔ نہ دنیامیں کسی صلہ کا خواہاں ہو اور نہ آخرت میں پس ایسے میں بندہ مو من اللہ تعالی کو پالیتا ہے۔ تب اللہ تعالی اپنے بندے پر رحم و کرم فرماتے ہوئے اسے پورا پورا اجر عطا فرماتا ہے۔ اپنا قرب و وصال بخشتا ہے۔ نظر التفات سے نوازتا ہے۔ اور انواع و اقسام کی نعمتوں سے مالا مال کر تا ہے جیسا کہ پروردگار عالم کی عادت ہے کہ اپنے رسولوں، نبیوں ولیوں ۔ دوستوں اور دین متین کے عالموں کو نوازتا ہے۔ پس بنده مؤ من اللہ تعالی کے علم سے پوری زندگی روحانی طور پر ترقی کرتا رہتا ہے اور روز بروز اس کی نعمتوں میں اضافہ ہو تا رہتا ہے۔ پھر اسے دار آخرت کی طرف منتقل کیا جاتا ہے تو وہاں وہ ایسی نعمتیں پاتا ہے جو نہ کسی آنکھ نے دیکھی ہے۔ نہ کسی کان نے سنی ہیں اور نہ کسی انسان کے دل میں کھٹکی ہیں۔ ان نعمتوں کو سمجھنے سے عقلیں قاصر ہیں اور ان کی تعریف سے قلم درماندہ ہیں۔

آداب السلوک شیخ عبد القادر الجیلانی صفحہ 152 ،مکتبہ دارالسنابل دمشق شام


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں