حال ومقام

حال و مقام (ان کی جمع احوال و مقامات )ان واردات کو کہتے ہیں جو سالک کے دل پر نازل ہوتے ہیں لیکن ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ حال کو استقرار نہیں بلکہ بدلتا رہتا ہے اور مقام کو استقرار ہے جب تک اس کے آگے کا مقام حاصل نہ ہو اس مقام میں سالک کو قرار رہتا ہے

حال کی کئی اقسام ہیں

وہبی

کسبی

نسبتی

مجازی

سالک کے دل پر جو کیفیات بلا کوشش محض اللہ کریم کی طرف سے وہبی طور پر وارد ہوں اس کی دو قسمیں ہیں ایک وہ کہ بوجہ صفات نفسی کے زائل ہو جائے اور کوئی کیفیت باقی نہ رہےدوسری یہ کہ کیفیت ہمیشہ کیلئے قائم رہےاول کو حال اور دوسری کو مقام کہتے ہیں

سالک کے دل پر جو واردات مثلا قبض و بسط ،حزن و طرب،ہیبت و انس اورمستی و بے خودی اچانک وارد ہونے کو حال کہتے ہیں اور سالک کی بے عملی اسے زائل کر دیتی ہے۔ یہی حال جب دائمی ہو اسے مقام کہتے ہیں۔

حال آتا اور جاتا ہے مقام میں استقلال ہے حال سے سابقہ اصحاب تلوین کو اور مقام اصحاب تمکین کا حصہ ہےاس لیئے حال سے مقام اعلیٰ ہے۔

صاحبِ حال ہونا اچھی بات ہے مگر حال کے خطرات سے بچنا چاہیے اور اِن سے ادب ہی بچا سکتا ہے – شرعی قانون کا ادب، اخلاقی قوانین کا ادب، مرشد کا ادب اور حلقۂ درویشاں میں اخوان کے طور طریق کا ادب لازمی ہے

صوفی ابن الوقت ہوتا ہے یعنی تابع وقت وحال ہوتا ہے جیسا کہ بیٹا باپ کے تابع ہوتا ہے پس اس قسم کا صوفی وقت وحال کا مغلوب ہوتا ہے اور صافی وہ ہے جو وقت اور حال سے فارغ ہے بلکہ ابوالوقت ہوتا ہے کیونکہ وہ وقت اور حال پر غالب ہوتا ہے

احوال و مقامات پہ موقوف ہے سب کچھ ہر لحظہ ہے سالک کا زماں اور مکاں اور


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں