حلول کے قائلین کا رد مکتوب نمبر 119دفتر سوم

مولانا مودود محمد کی طرف صادر فرمایا ہے۔ 

شیخ(شہاب الدین سہروردی) قدس سرہ نے اپنی کتاب عوارف کے نویں باب میں ان لوگوں کے بیان میں جو صوفیاء کی طرف منسوب ہیں کہا ہے کہ ان میں سے بعض وہ لوگ ہیں جو حلول کے قائل ہیں۔ 

خَذَلَھُمُ اللہ ُسُبْحَانَہٗ اللہ تعالیٰ ان کو خوار کرے) اور خیال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان میں حلول کئے ہوئے ہے اور ان جسموں میں کہ جن کو وہ دوست رکھتا ہے۔ حلول کرتا ہے اور قول نصاریٰ کے معنی لاہوت (عالم ذات الہی) اورناسوت(انسانی جسم) میں ان کے فہموں کی طرف بڑھتے ہیں اور ان میں سے بعض وہ لوگ ہیں جو اس وہم کے باعث محسنات یعنی خوبصورت چیزوں کی طرف نظر کرنا مباح جانتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ جن لوگوں نے اپنے بعض غلبوں کے وقت کلمات کہے ہیں۔ ان کلمات میں کچھ نہ کچھ وہی امر مضمر اور پوشیدہ ہے جو انہوں نے گمان کیا ہے جیسے کہ حلاج کا ‌أَنَا ‌الْحَقُّ    (میں خدا ہوں)   کہنا اور حضرت بایزید کا سُبْحَانِي(میں پاک ہوں )وغیرہ فرمانا۔حاشا وکلا کہ حضرت بایزید کے حق میں یہ اعتقاد کریں کہ اس نے اللہ تعالیٰ کی طرف سےحکایت کے معنی کے سوا کچھ اور کہا ہے حلاج کے قول میں بھی یہی اعتقاد ہونا چاہیئے اگر ہم جانتے کہ اس قسم کے قول میں کچھ نہ کچھ حلول مضمر اور پوشیدہ ہے تو ہم ان کو بھی ردکرتے۔ جیسے کہ ان کو رد کرتے ہیں۔ فقط نہیں معلوم ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکایت کے کیا معنی ہیں اور ارباب سکر(مستی) کو معنی حکایت کے طور پر اس قسم کے قول کے ساتھ مخصوص کرنے کی کیا وجہ ہے۔ سوائے اس کے کہ کہا جائے کہ شیخ قدس سرہ کی مراد یہ ہے کہ اس قسم کے قول کا کہنے والا اگر بندہ ہے جیسے کہ اکثر کے نزدیک ظاہر ہے تو بیشک یہ قول الله تعالیٰ کی طرف سے حکایت ہے کیونکہ بندہ رب نہیں بن جاتا لیکن اس قول کا کہنے والا درحقیقت اللہ تعالیٰ ہے اور بندہ کی زبان درخت موسوی کی طرح ہے اس صورت میں حلاج اور بایزید قدس سرہما پرکوئی طعن و اعتراض نہیں مگرشیخ قدس سرہ کی عبارت سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر وہ اس قول کو حکایت کے معنی پرمحمول نہ کرتا تو اس سے حلول کے معنی سمجھے جاتے۔ حالانکہ ایسا نہیں کیونکہ توحید کے غلبے اور اور واحد مشہود(مشاہدہ) کے ماسوا کے پوشیدہ ہو جانے اور نور شہود کے چمکنے کے وقت حلول و اتحاد کی آمیزش کے بغیر اس قسم کی باتوں کا کہنا جائز ہے۔ قول ‌أَنَا ‌الْحَقُّ  کے معنی یہ ہیں کہ میں کچھ نہیں ہوں اور موجودحق تعالیٰ ہی ہے۔ نہ یہ کہ میں حق تعالیٰ کے ساتھ متحد ہوں یا حق تعالیٰ میں حلول کئے ہوئے ہوں کہ یہ کفر ہے اور توحید شہود ی کے منافی ہے۔ کیونکہ اس میں واحد واحد کے سوا کچھ مشہودہیں اور حلول و اتحاد کی صورت میں مشہود متعدد ہو جاتے ہیں۔ گواتحاد و حالیت(اس کا کسی میں سرائیت کرنا ) کے طور پر ہوں اور شیخ قدس سرہ کا قول کہ ان میں سے بعض وہ لوگ ہیں جو اسی وہم یعنی حلول کے باعث خوبصورت چیزوں کا دیکھنا مباح جانتے ہیں ۔ تعجب کی بات ہے کہ شیخ اجل قدس سرہ اس قسم کی عبارتوں سےحلول و اتحادسمجھتا ہے حالانکہ ان اقوال سے ظہور ثابت ہوتا ہے جوحلول کے ماوراء ہے کیونکہ حلول کے یہ معنی ہیں کہ ایک شے بنفسہ دوسری شے میں موجود ہے جیسے کہ زید کابنفسہ گھر میں موجود ہونا اور ظہور کے یہ معنی ہیں کہ ایک شے کا کسی دوسری شے میں موجود ہو جیسے کہ زید کا عکس آئینے میں۔ امر اول مرتبہ وجوب میں محال ہے اور اس مرتبہ مقدسہ کیلے نقص کا موجب ہے اور امر دوم اپنے ثبوت کے باعث ممکن و جائز ہے اور اس کے حصول میں کوئی نقص نہیں کیونکہ امر اول سے تغیر لازم آتا ہے جو قدم کے منافی ہے اور امر دوم میں یہ بات نہیں جیسے کہ ظاہر ہے۔ پس اگر وجوبی کمالات امکانی عدموں کے آئینوں میں ظاہر ہوں تو اس سے ان کمالات کا ان آئینوں میں حلول وتغیر و انتقال جوقدم کے منافی ہے لازم نہیں آتا کیونکہ حق تعالیٰ کے کمال کا ظہور اور اراءت یعنی دکھاوا یا نمود ہے جیسے کہ آئینہ میں ہوتا ہے پس امکانی آئینوں میں حق تعالیٰ کے کمالات کا شہود(مشاہدہ) تجویز کرنا ان میں ان کمالات کے حصول کا تجویز کرنا نہیں ہے۔ بلکہ آ ئینہ میں کمالات کے ظہور کا تجویز کرنا ہے اور اس میں کوئی نقص نہیں اگر چہ اس قسم کے شہود کو جائز رکھنے والا صاحب نقص اور راستہ پر غیرمستقیم ہے لیکن مقصود یہ ہے کہ اس سے حلول کی تہمت رفع ہو جائے نہ کہ اس کا کمال ثابت ہو کہ وہ کچھ ہے۔ وَاللَّهُ ‌سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى بِحَقَائِقِ ‌الْأُمُورِ كُلِھَا( تمام امور کی حقیقت کو الله تعالیٰ ہی جانتا ہے)۔ 

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر سوم صفحہ362ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں