خلیل کی خلت کے اسرار اور تعین وجودی کے اثبات مکتوب نمبر 88دفتر سوم

خلیل کی خلت کے اسرار اور تعین وجودی کے اثبات میں مخدوم زاده عالی مرتبہ خواجہ محمد سعید سلمہ اللہ تعالیٰ کی طرف صادر فرمایا ہے:۔ 

جب حق تعالیٰ اپنے بندہ کو اپنی خُلَّتْ کی دولت سے جو دراصل حضرت ابراہیم علی نبینا وعلیہ الصلوة والسلام کے ساتھ مخصوص ہے مشرف فرماتا ہے اور ولایت ابراہیمی سے سرفراز کرتا ہے تو اس کو اپنا انیس و ندیم بنالیتا ہے اور انس و الفت کی نسبت جو خلت کے لوازم سے ہے در میان آجاتی ہے اورخلیل کے اخلاق و اوصاف کی قباحت و کراہت نظر سے دور ہو جاتی ہے کیونکہ اگر قبح نظر میں رہے تو نفرت و بے الفتی کا باعث ہوگا جو مقام خلت کے منافی ہے جو سراسر الفت ہے۔

 سوال : خلیل کے اوصاف کی قباحت(برائی) کا نظر سے مرتفع ہونامجاز میں ظاہر ہے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ اس مقام میں خلت کی نسبت غالب آجائے اورخلیل کے اوصاف کی برائی کو چھپا دے لیکن مرتبہ حقیقت میں کہ جہاں شے کا علم کماحقہ ہے ۔قبیح کو غیر قبیح جاننا اور اس کا خلت کی نسبت مغلوب ہونا جائز ہیں۔

 جواب : ہر ایک قبیح میں حسن وخوبی کی کوئی نہ کوئی وجہ ثابت ہے۔ پس ہوسکتا کہ حسن وخوبی کی اس وجہ پر نظر کر کے اس کو حسن اور نیک جانیں اور اس کے بہتر اور نیک ہونے کا حکم کریں۔ جاننا چاہیئے کہ اس قبیح میں اگر چہ حسن مطلق پیدا نہیں ہوا لیکن چونکہ اس کے حسن کی وجہ مولی جل شانہ کوملحوظ و منظور ہے ۔ اس لیے فَإِنَّ ‌حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْغَالِبُونَ ( اللہ تعالیٰ کا گروہ غالب ہے) کے موافق اس کے قبیح کی تمام وجود پر غالب آگیا ہے اور سب کو اپنے رنگ میں رنگ کرمستحسن کر دیا ہے۔ فَأُولَئِكَ ‌يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ (یہ لوگ ہیں جن کی برائیوں کو الله تعالیٰ نیکیوں کے ساتھ بدل دیتا ہے) خدا تجھے سیدھے راستے کی ہدایت دے۔ جاننا چاہیئے کہ خلت ومحبت کے درمیان عموم و خصوص کی نسبت ہے ۔ خلت عام ہے اور محبت اس کافر دکا مل کیونکہ محبت زیادہ تر انس والفت سے مراد ہے جوگرفتاری کا باعث ہو جاتی ہے اور بے قراری و بے آرامی پیدا کرتی ہے۔خلت سراسر انس و الفت و آرام ہے وہ محبت کی ہے جس نے گرفتاری کا موجب پیدا کیا ہے اور خلت کے دوسرے افراد سے متمیز ہوئی ہے۔ گویا الگ جنس بن گئی ہے اور وہ ہنر جومحبت نے اس امتیاز میں خلت کے باقی تمام افراد کی نسبت بڑھ کر حاصل کیا ہے وہ درد وحزن ہے۔ ورنہ نفس خلت سراسرعیش درعیش اور فرح در فرح اور انس در انس ہے۔ ممکن ہے کہ اسی سبب سے حق تعالیٰ نے اپنے خلیل علے نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام کو دنیا میں جورنج ومحنت کا گھر ہےعمل کا اجر کرامت فرمایا ہے اور آخرت میں بھی اللہ تعالیٰ ان کے حق میں فرماتا ہے۔ وَآتَيْنَاهُ ‌أَجْرَهُ ‌فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ ( ہم نے اس کو دنیا میں اجر عطا کیا اور آخرت میں وہ صالحین میں سے ہے ) چونکہ محبت در دوحزن کا موجب ہے اس لیے جس فرد میں محبت غالب ہوگی اس میں در دو حزن زیادہ تر ہوگا۔ شاید اسی سبب سے کہا ہو کہ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَوَاصِلَ الْأَحْزَانِ دَائِمَ الْفِكْرِ (رسول اللہ ﷺہمیشہ غم کرنے والے اور دائمی فکر کرنے والے تھے) رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے کہ مَا ‌أُوذِيَ ‌نَبِيٌّ مِثْلَ مَا أُوذِيتُ (جس قدر مجھے ایذ ادی گئی ہے کسی اور نبی کوو یسی ایذ انہیں دی گئی۔) کیونکہ افراد انسانی میں سے فرد کامل محبت کے حاصل ہونے میں حضور علیہ الصلوة والسلام ہی تھے۔ حضور علیہ الصلوة والسلام اگر چہ محبوب ہوئے ہیں لیکن چونکہ محبت کی نسبت در میان آ گئی ہے ۔ اس لیےمحبوب بھی محب کی طرح فریفتہ اور گرفتار ہوا ہے۔ حدیث قدسی میں آیا ہے ۔ أَلا قَدْ طَالَ ‌شَوْقُ ‌الأَبْرَارِ إِلَى لِقَائِي وإِنِّي إِلَيْهِمْ لَأَشَدُّ شَوْقًا (خبردار ابرار کا شوق میرےلقاء کے لیئے حد سےبڑھ گیا اور میں ان سے بھی بڑھ کر ان کا شائق ہوں) سوال : شوق مفقود میں ہوتا ہے جب اس بارگاه جل وعلی سے کوئی چیز مفقود نہیں تو پھر شوق کیسے ہوگا اور اشدشوق کیا ہوگا۔

 جواب: کمال محبت کا مقتضایہ ہے کہ دوئی دور ہو جائے اورمحب محبوب کے ساتھ متحد ہو جائے چونکہ یہ بات مفقود ہے۔ اس لیے شوق موجود ہے اور چونکہ اتحاد کی تمنا اصلی طور پر محبوب میں موجود ہے کیونکہ محب صرف محبوب کے دل پر بھی قناعت کرسکتا ہے۔ 

اس لیے اشد شوق محبوب کی جانب ہو گا اور متواصل الحزن حبیب کی صفت ہوگی۔

 سوال : حق تعالیٰ تمام امور پر قادر ہے اور جو کچھ چاہے اس کے لیے میسر ہے۔ پس کوئی چیز حق تعالیٰ کے حق میں مفقود نہ ہوگی تا کہ شوق متحقق ہو۔

 جواب: تمنا اور چیز ہے اور اس کا ارادہ اور چیز حق تعالیٰ کی مراد اس کے ارادہ کے برخلاف نہیں ہوتی لیکن تمنا ہوتی ہے اور اس کے حاصل ہونے کا ارادہ نہیں ہوتا اور اس کا وجود ہیں چاہتی ۔ ع 

درعشق چنیں بوالعجبیہا باشد     ترجمه   عشق میں ایسی ہی ہوتی ہیں بہت باتیں عجب 

کبھی ایسا ہوتا ہے کہ عشق میں صرف محبوب کا درد ہوتا ہے اور وصل کچھ ملحوظ نہیں ہوتا بلکہ وصل کونہیں چاہتے اور محبوب کے اتصال سے بھاگتے ہیں۔یہ عشق کے دیوانہ پن کی باتیں ہیں بلکہ عشق کے ہنروفن ہیں۔ وَمَنْ لَّمْ يَذُقْ لَم يَدْرِ جس نے مزہ ہی نہیں چکھا، وہ کیا جانے۔ 

اب ہم اصل بات کو بیان کرتے اور کہتے ہیں کہ خلت نہایت ہی بلند اور بڑی برکت والا مقام ہے۔ عالم مجاز میں جس کسی کو دوسرے کے ساتھ انس و الفت وسکونت وآرام ہے سب مقام خلت کے ظلال میں سے ہے وہ الفت جو باپ کو بیٹے کے ساتھ اور بھائی کو بھائی کے ساتھ اور عورت کو شوہر کے ساتھ ہے۔ سب خلت کی قسم سے ہے ایسے ہی ہر ایک حظ ولذت و آرام جو اچھی صورتوں اور جمیلہ مظہروں سے ثابت ہے مقام خلت ہی سے ہے لیکن محبت کچھ اور ہی چیز ہے اور اس کا منشاء بھی اور ہی ہے اگر خلت اور اس کا انس و الفت در میان نہ ہو کوئی مرکب وممکن وجود میں نہ آئے اور کوئی جزو دوسرے جزو کے ساتھ نہ ملے خاص کر جب کہ ایک دوسرے کے مخالف اور متضاد ہوں بلکہ کوئی وجود ماہیت کے ساتھ نہ ملے اور کوئی عالم واجب تعالیٰ کی ایجاد کے تحت میں داخل نہ ہو کیونکہ حب ہی سلسلہ ایجاد کو حرکت میں لائی ہے اور وجود اشیاء کا باعث . ہوئی ہے۔ فَاَ حْبَبْتُ أَنْ أُعْرَفَ فَخَلَقْتُ الْخَلْقَ ( میں نے چاہا کہ پہچانا جاؤں پس خلق کو پیدا کیا) حدیث قدسی ہے اور حب خلت کا فرد کامل ہے جیسے کہ گزر چکا ہیں اگر خلت نہ ہوتی کوئی چیز موجود نہ ہوتی اور کوئی دوسرے کے ساتھ جمع نہ ہوتا اور الفت نہ پکڑتا ۔ جہان کا وجود اور اس کا نظام خلت پر وابستہ ہے اگر خلت نہ ہوتی ۔ نظام بھی وجود کی طرح مفقود ہوتا پس خلت ہی ایجاد کا اصل ہے۔ موجد کی جانب میں بھی اور موجود کی جانب میں بھی کیونکہ خلت ہی نے ممکن کو وجود کے قبول کرنے کے لیے مانوس کیا ہے اور اس کو ایجادکی قید میں لائی ہے۔ بلکہ عدم نے بھی اپنے خلوت خانہ میں خلت کی بدولت آرام پایا ہے اور اپنی نیتی کے ساتھ موافقت کی ہے بلکہ اپنے نقیض کے ساتھ بھی الفت وانس پکڑا ہے اور اس کے کمالات کا مظہر ہوا ہے اور  وجودممکنات کا واسطہ بنا ہے۔

پس خلت تمام اشیاء سے زیادہ برکت والی ہے اور اس کی برکتیں موجود و معدوم کو شامل ہیں جب تو نے مقام خلت کے دقائق ومعارف کو جان لیا اور اس کی عام برکتوں کو معلوم کرلیا اور یہ بھی جان لیا کہ مقام خلت اصالت کے طور پر حضرت ابراہیم علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ مخصوص ہے اور اس کی ولایت ولایت ابرا ہیمی ہے تو پھر معلوم کرنا چاہیئے کہ ان معارف کے برکات کے وسیلے اس فقیر پر ظاہر کیا گیا ہے کہ تعین اول حضرت وجود میں حضرت ذات تعالی و تقدس کا تعین ہے اور وہ تعین اول وجودی حضرت خلیل علی نبینا وعلیہ الصلوة والسلام کا رب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سب کے امام ہیں۔ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ ‌إِمَامًا میں تجھ کو سب کا امام بنانے والا ہوں) اور حضرت سید البشر علیہ الصلوة والسلام ان کی ملت کی متابعت پر مامور ہوئے۔ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ ‌حَنِيفًا حضرت ابراہیم کی سیدھی ملت کی متابعت کر ) اور ان کے بعد جو پیغمبر مبعوث ہوا اس کو انہی کی متابعت کا امر ہوا اور باقی جس قدر تعینات ہیں سب اسی وجودتعین کے ضمن میں مندرج ہیں اگر تعین علمی اجمالی ہے تو وہ بھی اسی کے ضمن میں ہے اور اگرتفصیلی ہے تو وہ بھی اسی میں مندرج ہے۔ شاید اسی باعث سے ہمارے پیغمبر علیہ الصلوة والسلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اُبُوَّتْ (پدرانہ طور پر) یاد کرتے تھے اور باقی تمام انبیاء علیہ الصلوة والسلام کو اُخُوَّتْ ( برادران طور) سے اور اگر باقی تمام انبیاء علیہ الصلوة والسلام کو بُنُوَّتْ( یعنی پسرانہ طور ) کے ساتھ یاد فرماتے تو بھی ہوسکتا تھا کیونکہ ان بزرگواروں کے تعینات حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے تعین کے ضمن میں جس کوتعین علمی اجمالی کہا ہے۔ مندرج ہیں اور یہ جو صلوات منطوقہ(نماز ماثورہ) میں آیا ہے ۔ كَمَا ‌صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ ممکن ہے کہ اس کی وجہ یہ ہو کہ حضرت ذات و تقدس تک پہنچنا تعین اول وجودی اور ولایت ابراہیمی کے تمام کمالات کے وسیلہ کے بغیر میسر نہیں کیونکہ اس مرتبہ مقدسہ کا پہلا پردہ یہی ہے اور اسی نے غیب الغیب کی آئینہ داری فرمائی ہے اوربطن بطون یعنی باطنوں کے باطن کو ظاہر کیا ہے پس کسی کو اس کے توسط و وسیلہ سے چارہ نہیں ۔ حضرت خاتم الانبیاء علیہ الصلوة والسلام کو حضرت ابراہیم علیہ الصلوة والسلام کی متابعت کا امراسی لیے ہوا ہے کہ ان کی تبعیت سے ان کی ولایت تک پہنچ جائیں اور وہاں سے حضرت ذات جل شانہ تک ترقی فرمائیں۔

 سوال: اس بیان سے لازم آتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوة والسلام خاتم الرسل علیہ الصلوة والسلام سے افضل ہیں حالانکہ اجماع حضرت خاتم الرسل علیہ الصلوة والسلام کی فضیلت پر ہے اور نیز لازم آتا ہے کہ تجلی ذات دراصل حضرت خلیل علیہ الصلوة والسلام کے نصیب ہے اور دوسروں کو ان کی تعین سے حاصل ہے حالانکہ اکابر صوفیہ کے نزدیک مقرر ہے کہ تجلی ذات بالاصالت (براہ راست) حضرت خاتم الرسل علیہ الصلوة والسلام کے ساتھ مخصوص ہے اور دوسروں کے لیے ان کی تبعیت کے باعث ہے۔ 

جواب: وصول بذات بھی تجلی ذات کی طرح دوقسم پر ہے ایک باعتبار نظر کے ہے دوسری باعتبار قدم کے یعنی نظر واصل ہے یا ناظر بنفس خود واصل ہے وہ قسم جو وصول نظری ہے۔ بالا صالت حضرت خلیل علیہ السلام کے نصیب ہے کیونکہ تمام تعینات میں سے زیادہ قریب حضرت ذات سے تعین اول یہ جو حضرت ابراہیم خلیل علیہ الصلوة والسلام کا رب ہے جیسے کہ اوپر گزر چکا اور جب تک اس تعین تک یہ پہنچیں نظر اس سے آگے نہیں گزرتی اور وہ قسم جو باعتبار قدم کے ہے بالاصالت (براہ راست) حضرت حبیب علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ مخصوص ہے جومحبوب رب العالمین ہیں۔ محبوبوں کو اس جگہ لے جاتے ہیں جہاں خلیل نہیں جاسکتے سوائے اس کے کہ ان کی تبعیت سے ان کو وہاں تک لے جائیں۔ ہاں خلیل بھی ایسا ہی ہونا چاہیئے کہ اس کی نظروہاں تک پہنچ جائے جہاں محبوبوں کےرئیس پہنچے ہیں اور راستہ ہی میں نہ رہ جائے۔ غرض تجلے ذات ایک وجہ سے بالاصالت (براہ راست) حضرت خلیل علیہ السلام کے ساتھ مخصوص ہے اور دوسرے ان کے تابع ہیں اور دوسری وجہ سے وہ تجلی (غیبی انوار دلوں پر ظاہر ہونا) ذات حضرت خاتم الرسل ﷺکے ساتھ مخصوص ہے اور دوسرے ان کے تابع ہیں چونکہ دوسری وجہ کو مراتب قرب میں زیادہ قوت اور دخل ہے اس لیےتجلی ذات کو خاتم الرسل ﷺکے ساتھ زیادہ تر مناسبت حاصل ہے اور آنحضرت ﷺکے ساتھ مخصوص ہے اس لیے آنحضرت ﷺ حضرت خلیل اور باقی تمام انبیاء سے افضل ہیں۔ پس فضل کلی انبیاء علیہم الصلوة والسلام کے درمیان انہی دو بزرگواروں کے نصیب ہے ۔ اگر چہ ایک دوسرے سے افضل ہیں اور حضرت موسی علی نبینا وعلیہ الصلوة والسلام چونکہ محبوں کے بھی رئیس جیسے کہ ہمارے پیغمبر علیہ الصلوة والسلامحبوبوں کےرئیس ہیں اس لیے المَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ (آدمی اسی کے ساتھ ہو گا۔ جس کے ساتھ اس کو محبت ہوگی) کے موافق حضرت موسی علیہ السلام کو بھی حضرت ذات تعالیٰ کے ساتھ وہ معیت حاصل ہے جو دوسروں کے لیے نہیں ۔ نیز اس بارگاہ میں ان کے لیے ایسا قدم گاہ اور مرتبہ ہے جو صرف ان کی محبت ہی کے باعث ہے جس میں کسی اور کا دخل نہیں لیکن یہ فضل ایک ایسی جزئی کی طرف راجع ہے جس کو عدیل کلی یعنی کل کے برابر کہہ سکتے ہیں کیونکہ انبیاءعلیہم الصلوة والسلام میں سے بہت سےنبی اس مقام میں ان کے تابع ہیں حالانکہ فضل کی وہی ہے جو حضرت حبیب خلیل علیہ الصلوة والسلام کے نصیب ہے ۔ اگرچہ ایک ایک وجہ سے دوسرے کا تابع ہے وصول نظری میں حضرت خلیل اصل ہیں اور حضرت حبیب علیہ السلام ان کے تابع ہیں اور وصول قدمی میں حضرت حبیب اصل ہیں اور حضرت خلیل علیہ السلام ان کے تابع ہیں اور حضرت کلیم علی نبینا وعلیہ الصلوة والسلام کے مخصوصہ کمالات و فضائل جس قدر اس فقیر پر ظاہر ہوئے ہیں ان کوعلیحدہ کاغذ میں درج کرنے کا ارادہ ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔ 

جاننا چاہیئے کہ وہ انبیاء علیہم الصلوة والسلام جو نبی علیہ السلام کے ذریعے حضرت ذات تعالیٰ تک پہنچتے ہیں وہ نبی حضرت ذات اور انبیاءعلیہم الصلوة والسلام کے درمیان حائل نہیں ہوتے ۔ ان کو حضرت ذات سے بالاصالت (براہ راست) نصیب حاصل ہوتا ہے حاصل کلام یہ ہے کہ انبیاء علیہم الصلوة والسلام کا اس درجہ تک پہنچنا اسی نبی علیہ السلام کی تبعیت پر وابستہ ہے برخلاف نبی کی امت کے جونبی کے ذریعےپہنچتی ہے اور وہ پیغمبر درمیان میں حائل ہوتا ہے۔ ہاں افراد امت میں سے ایک فرد کو بالاصالت (براہ راست) حضرت ذات سے نصیب حاصل ہوتا ہے اس جگہ بھی نبی کا حائل ہونا مفقود ہے اور اسکی تبعیت موجود ایسے شخص قلیل بلکہ اقل ہیں۔ 

سوال : اس تقدیر پر اس فردامت اور تمام انبیاء کے درمیان کیا فرق ہے کیونکہ حائل ہونا دونوں میں مفقود ہے اور تبعیت موجود۔

 جواب: اس تقدیر پر اس فردامت اور تمام انبیاء کے درمیان کیا فرق ہے کیونکہ حائل ہوتا دونوں میں مفقود ہے اور بھی موجود۔ 

جواب: تبعیت فردا مت میں باعتبار شریعت کے ہے یعنی جب تک وہ نبی کی شریعت کی متابعت نہ کرے نہیں پہنچا اور تبعیت انبیاء میں اس اعتبار سے ہے کہ نبی متبوع کے لیے اس درجہ تک پہنچنا اولاً اور بالذات ہے اور دوسروں کے لیےثانیا اور بالعرض کیونکہ دعوت سے مطلوب محبوب ہوتا ہے اور دوسروں کو اس کے طفیل بلاتے ہیں اور اس کی تبعیت سے طلب کرتے ہیں لیکن سب ایک ہی دسترخوان کے جلیس ہیں اور ایک ہی مجلس  میں اپنے اپنے درجہ کے موافق کامل طور پر لذت ونعمت پاتے ہیں وہ امتی ہی ہیں جو ان بزرگواروں کا حاشیہ بردار اور پس خوردہ (بچا کھچا) کھانے والے ہیں ہاں ہوسکتا ہے کہ ان کے افراد امت میں سے کوئی فرد کرم خداوندی سے مخصوص ہو جائے اور ان بزرگواروں کی مجلس کا ہم نشین ہو جائے جیسے کہ گزر چکا۔ 

برکریماں کا رہا دشوار نیست                     کریموں پر نہیں مشکل کوئی کام

 مگر پھر بھی امت امت ہے اور پیغمبر پیغمبر ۔ امتی خواہ کتنا ہی سرفراز ہو جائے اور کتنا ہی بلند درجہ حاصل کرلے پھر بھی ولی ہی ہے جس کا سر پیغمبر کے پاؤں تک پہنچتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا وَلَقَدْ ‌سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِينَ إِنَّهُمْ لَهُمُ الْمَنْصُورُونَ وَإِنَّ جُنْدَنَا لَهُمُ الْغَالِبُونَ (ہمارے اپنے مرسل بندوں کے ساتھ ہمارا وعدہ ہو چکا ہے کہ یہی فتح مند رہیں گے

 سوال:ملت ابراہیم علیہ السلام کی متابعت سے کہ جس کا ہمارے پیغمبر کو امر ہوا کیا مراد ہے اور حضورﷺکی اپنی مستقل شریعت کے ہوتے تبعیت کا امر کیا ہوگا؟ جواب: شریعت کا مستقل ہونا تبعیت کے مخالف نہیں ہوسکتا ہے کہ ہمارے پیغمبر نے شریعت کو بالاصالت (براہ راست) اخذ کیا ہولیکن کسی خاص امر کے حاصل ہونے کے لیے حضرت خلیل علیہ السلام کی متابعت کا امر ہوا ہو کیونکہ وہ امراس متبوع کے خصائص میں سے ہے جس کی متابعت کا امر ہوا ہے اور اس امر کا حاصل ہونا اس متابعت کے حاصل ہونے پر موقوف ہے۔ مثلا ایک شخص فرائض میں سے کسی فرض کو ادا کرتا ہے اور اس کے علاوہ متابعت کی نیت بھی کرلے اور کہے کہ اس فرض کو چونکہ ہمارے نبی نے ادا کیا ہے اس لیے ہم بھی ادا کرتے ہیں۔ اس صورت میں یقین ہے کہ ادائے فرض کے ثواب کے علاوہ متابعت کا ثواب بھی پائے گا اور اس نبی علیہ السلام کے ساتھ مناسبت پیدا کرکے اس کی برکات سے استفادہ بھی کرے گا اور اس امر کی تفتیش کہ ملت کی متابعت سے مراد تمام ملت کی متابعت ہے یا بعض کی اور اگر تمام کی ہے تو بعض احکام کے منسوخ ہونے کے باوجودکل کی متابعت کس طرح درست ہے اور اگر بعض کی ہے تو پھر بھی خدشہ کے بغیر نہیں ہے اس کو علماتفسیر نے حل کیا ہے اس طرف رجوع کرنا چاہیئے کیونکہ یہ کام علماء ظاہر کا ہے اس کو علوم صوفیاء کے ساتھ کچھ مناسبت نہیں ہے۔ سبحان الله اس قسم کے عجیب و غریب معارف مجھ سے ظاہر ہوتے ہیں جن کو سن کرعجب نہیں کہ ابناءجنس بھی مجھ سے نفرت کریں اورمحرم بھی مخالفت کے درپے ہو کر نامحرم اور مجرم بن جائیں ۔ نہ میرا ان معارف کے حاصل ہونے میں کچھ اختیار ہے نہ ان کے اظہار میں میرا دل ہے مجھے بتایا گیا ہے کہ تعین اول تعین وجودی ہے جو حضرت خلیل علی نبینا وعلیہ الصلوة والسلام کا رب اور ان کا  مبدء تعین ہے۔ اسی ہزار سال کی مدت میں کسی نے نہیں سنا کہ تعین اول تعین وجودی ہے اور وہ حضرت خلیل الرحمن کا رب ہے۔ متقدمین میں اس قسم کی عبارت متعارف نہ تھی اور نہ ہی تنزل و تعین کی گنجائش تھی لیکن متاخرین میں جب اس قسم کی باتیں متعارف اور مشہور ہوئیں تو تعین اول تعین علمی جملی قرار پایا اور وہ حضرت خاتم الرسل ﷺکا رب مقرر ہوا۔ آج اگر اس مقرر اور ثابت شده امر کے برخلاف کسی سے ظاہر ہو تو خیال کرتے ہیں کہ خلیل علیہ السلام کو حبیب پرفضیلت دیتا ہے اور حبیب علیہ السلام کوخلیل علیہ السلام کا جزو بناتا ہے کیونکہ تمام تعینات کو تعین اول میں مندرج جانتا ہے اگر چہ اوپر ان کے تو ہم کو دفع کیا گیا ہے اور جواب شافی کہا گیا ہے لیکن معلوم نہیں کہ اس پر کفایت کریں اور اس سے تسلی پائیں کیا کیا جائے جہالت و دشمنی و تعصب کا کوئی علاج نہیں سوائے اس کے کہ وہ مقلب القلوب اپنی قدرت کاملہ سے ان کے دلوں کو پھیردے اور حق امر کے سننے اور قبول کرنے کے لائق بنادے۔ حضرت خلیل علیہ السلام کی بزرگی اور ان کی شان کی بلندی امر اتبع (میری پیروی کریں)سے جو الله تعالیٰ نے اپنے حبیب کو فرمایا ہے معلوم کر سکتے ہیں کہ متبوع کوتابع کے ساتھ کیانسبت ہوتی ہے لیکن وہ محبوبیت جو حضرت خاتم الرسل کا حصہ ہے تمام مراتب قرب وفضائل پر غالب آگئی ہے اور سب سے پیش قدم اور برتر کر دیا ہے۔ قرب کے ہزار مراتب محبوبیت کی ایک نسبت کے برابر نہیں ہو سکتے محب اپنے محبوب کو اپنی جان سے زیادہ عزیز جانتا ہے دوسروں کو لائق نہیں کہ اس کی مشارکت طلب کریں۔

سوال : تونے اپنے رسالوں میں لکھا ہے کہ حضرت خلیل علیہ السلام کا رب بھی شان اعلم ہے جس طرح کہ حضرت حبیب علیہ السلام کا رب ہی شان العلم ہے صرف اس قدر فرق ہے کہ وہاں تفصیل کے طور پر ہے اور یہاں اجمال کے طور پر۔

. جواب: وہ معرفت اس ولایت خلت کی حقیقت تک پہنچنے سے پہلے حاصل ہوئی تھی جب اس ولایت کی حقیقت سے متحقق ہوا تو معاملہ جیسا کہ تھا ظاہر ہوگیا ۔ گویا وہ معرفت اس حقیقت کے ظل سے تعلق رکھتی تھی۔ وَاللهُ سُبْحَانَهٗ الْمُلْهِمُ لِلصَّوَابِ )الله تعالیٰ ہی بہتری کی طرف الہام کرنے والا ہے  ان معارف سے واضح ہوا کہ وجود عین ذات نہیں ہے بلکہ ایک تعین ہے جو حضرت ذات کے تمام تعینات سے سبق اور برتر ہے اور جس نے وجود کوعین ذات کہا ہے اس نے تعین کو لاتعلق خیال کیا ہے اور غیر ذات کوذات سمجھا ہے اور غیریت میں مناقشہ کرنا لاحاصل ہے کیونکہ میدان عبارت تنگ ہے۔

 سوال: اس تعین اول وجودی کو کہ تو نے معلوم کیا ہے اس تعین علمی اجمالی کے ساتھ جس کو اوروں نے معلوم کیا ہے کیا نسبت ہے اور ان دونوں تعینوں کے درمیان کوئی اور عین ہے یانہیں؟

 جواب : تعین وجودی تعین علمی سے برتر ہے اور تعین علمی سے اوپر جو حضرت ذات اور لاتعین کا مرتبہ کہا ہے یہی تعین وجودی ہے جس کو دوسروں نے حضرت ذات کا عین معلوم کیا ہے اور وجود کوذات کا عین جانا ہے ان دونوں تعینوں کے درمیان شان الحیات ہے جو تمام شیونات(جمع الجمع کا صیغہ ہے اس کا مُفرد شان ہے اور شیون اسکی جمع ہے شان کا معنیٰ حال اور امر ہے) سے اقدام اور اول ہے بعد ازاں شان العلم ہے جو اجمالی اورتفصیلی طور پر اس کے تابع ہے لیکن اس درمیان والے تعین کا مظہر نظر نہیں آتا ۔ اس کی مناسبت حضرت ذات تعالیٰ کے ساتھ سب سے زیادہ ہے اور اس میں سب سے زیادہ استغنائے ذاتی جلوہ گر ہے اس قدر مفہوم ہوتا ہے کہ اس کے فیوض و برکات صرف رو حانیوں تک ہی پہنچتے ہیں وَاللَّهُ سُبحَانَه أَعْلَمُ ‌بِحَقِيقَةِ ‌الْحَالِ (حقیقت حال کو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے) ‌سُبْحَانَكَ لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّكَ أَنْتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ (یا اللہ  تو پاک ہے ہمیں کوئی علم نہیں مگر جس قدر کہ تو نے ہمیں سکھایابیشک تو ہی جاننے والا اور حکمت والا ہے)   ۔

تنبیہ: یہ جو اوپر گزرا ہے کہ وصول نظری بالاصالت (براہ راست) حضرت خلیل علیہ السلام کے نصیب ہے اور وصول قدمی بالاصالت   حضرت حبیب علیہ السلام کے نصیب ہے اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہاں شہود مشاہدہ ہے یا قدم کی وہاں گنجائش ہے جب وہاں بال کی گنجائش نہیں تو پھر قدم کی کیا مجال ہے بلکہ وصول وہاں ایک مجہول الکیفیت وصول ہے اگر صورت مثالیہ میں ازروئے نظر 

کے ظاہر ہوا تو وصول نظری کہتے ہیں اور اگر بلحاظ قدم کے ہوتو وصول قدمی کہتے ہیں ورنہ نظر و قدم دونوں اس بارگاہ سے حیران و پریشان ہیں۔ وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى (سلام ہو اس شخص پر جس نے ہدایت اختیار کی )

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر سوم صفحہ248ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں