روشنی چراغ کی دلیل اور خوشبو کلیوں کی

حضرت شیخ المشائخ، قطب ربانی، غوث صمدانی ، محبوب سبحانی، سیدنا عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہ نے تصوف و طریقت پر مشتمل کتاب” آداب السلوک والتواصل الی منازل الملوک“ میں فرمایا :

ایک عقلمند انسان سب سے پہلے اپنی ذات اور جسمانی ترکیب میں غور و خوض کر تا ہے۔ پھر تمام مخلوقات اور موجودات میں فکر و تامل کر تا ہے۔ انفسی و آفاقی یہ دلائل اسے خالق وصانع کا پتا دیتے ہیں کیونکہ صنعت صانع پر اور قدرت محکمہ فاعل حکیم پر دلالت کرتی ہے۔ سب اشیاء کاوجود اللہ کریم کی قدرت کی مرہون منت ہیں۔ 

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے آیت کریمہ وَسَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ‌جَمِيعًا ‌مِنْهُ اور اس نے مسخر کر دیا تمہارے لیے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب کا سب اپنے حکم سے“ 

سے یہی معنی مراد لیا ہے۔ فرماتے ہیں۔ ہر چیز اللہ تعالی کے اسماء میں سے کسی اسم کی مظہر ہے۔ اور ہر چیز کا نام و نشان اس کے نام کے اثر سے ہے۔ اے انسان!) تو خود اللہ تعالی کے اسماء ، اس کی صفات اور اس کے افعال کا پرتو ہے اور اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ قدرت حق میں پوشیدہ اور حکمت الہی سے ظاہر ہے۔ حق سبحانہ اپنی صفات کے ذریعے ظاہر ہے اور اپنی ذات کے اعتبار سے پوشیدہ ہے۔ذات صفات کے پردوں میں مخفی جب کہ صفات افعال کے پردوں میں پوشیدہ ہیں۔ وہ علم کو اپنے ارادہ سے ظاہر فرماتا ہے اور ارادہ کو حرکات سے عیاں کر تا ہے۔ اپنے کام کو اور کاریگری کو پوشیدہ فرمایا اور پھر اپنے ارادہ سے صنعت کو عیاں کر دیا۔ وہ اپنی ذات میں غائب اور حکمت اور قدرت میں ظاہر ہے۔ اس جیسی کوئی چیز نہیں۔ وہ سب کچھ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔ حضرت ابن عباس نے اس کلام میں ان اسرار و معرفت کو بیان فرمایا ہے جو صرف ایسے دل پر ظاہر ہو سکتے ہیں جس میں الہی نور ضوفگن ہو۔ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہماده شخصیت ہیں جن کے بارے نبی مکرم ﷺنے بارگاہ خداوندی میں دعا فرمائی اور التجاکی ۔ اے اللہ ا نہیں دین کی سمجھ عطافرماور انہیں تاویل کا علم عطا کر۔ 

اللہ تعالی ہمیں ان کے فیوض و برکات سے مستفیض فرمائے اور ہمارا حشر انہیں پاکان امت کے ساتھ ہو۔ آمین۔

 ہر امر کی ایک حقیقت ہوتی ہے اور ہر عمارت کے ستون 

حضرت شیخ رضی اللہ تعالی عنہ وارضاه نے فرمایا : میں تمہیں وصیت کر تا ہوں کہ اللہ تعالی سے ڈرتے رہنا۔ اس کی فرمانبرداری کرنا۔ ظاہری شریعت کو لازم پکڑنا اپنے دل سے ہر برائی نکال دینا۔ جو دوسخی اور خوش خلقی کا مظاہر ہ کرنا کسی کو تکلیف نہ دینا۔ فقر و افلاس اور تکالیف پر صبر کرنا۔ مشائخ کی عزت و تکریم کرنا۔ بھائیوں سے حسن معاشرت رکھنا۔ چھوٹوں اور بڑوں کو نصیحت کرنا عداوت اور نفرت کو ترک کرنا ۔ ایثار و قربانی اختیار کرنا۔ ذخیرہ اندازی سےبچنا۔ بروں کی صحبت سے احتراز کرنا۔ دین ودنیا کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرنا۔ 

حقیقت فقر یہ ہے کہ تو اپنے جیسے کسی انسان کا محتاج نہ ہو۔ اور غنا کی حقیقت یہ ہے کہ اپنے ہم جنسوں سے بے نیازبن جا۔ 

تصوف کا تعلق قیل و قال سے نہیں۔ یہ نعمت ریاضت سے ہاتھ آتی ہے۔ اس کیلئے بھوک سہناپڑتی ہے۔مالوفات و مستحسنات ترک کرنے پڑتے ہیں۔ کسی درویش سے شروع میں علم و ادب کا مطالبہ نہ کر۔ اس سے نرمی اور محبت کا رویہ اختیار کر ۔ کیونکہ یہ مطالبہ اسے وحشت میں ڈال دے اور رفق و نرمی انس ومحبت کا نتیجہ ہوگی۔ 

تصوف آٹھ خصلتوں پر مبنی ہے۔ سخاوت ابراہیم علیہ السلام، رضائے اسحاق علیہ السلام 

صبر ایوب علیہ السلام، اشارہ زکریا علیہ السلام، غربت یحیٰ  علیہ السلام، خرقہ پوشی موسی علیہ السلام، سیاحت عیسی علیہ السلام اور فقر سیدناونبینا محمد ﷺ

آداب السلوک شیخ عبد القادر الجیلانی صفحہ 186 ،مکتبہ دارالسنابل دمشق شام


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں