ساتویں مجلس

محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے ساتویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان المجلس السابع فی الصبر ‘‘ ہے۔

 منعقدہ 17شوال 545 ھ بروز اتوار بمقام خانقاہ شریف

 اللهم صل على محمد و على آل محمد وافرغ علينا صبرا و ثبت أقدامنا و كير عطائك لناوارزقنا الشكر عليه إلى آخر الدعاء

 یا الہی ! حضرت محمد ﷺ اور آپ  ﷺ کی آل پر رحمت بھیج ، اور ہمیں صبر کی توفیق عطا فرما، اور ہمیں ثابت قدم رکھ اور ہمارے لئے اپنی عطا ئیں اور زیادہ کر دے اور ہمیں شکر کرنے کی توفیق عطافرما۔آخر دعا تک ۔“

دنیا کی زندگی آفتوں اور مصیبتوں سے بھری پڑی ہے:

اے لوگو! صبر سے کام لو، دنیا کی زندگی آفتوں اور مصیبتوں سے بھی بھری پڑی ہے۔ کوئی بچ سکا تو بہت ہی کم ،د نیا کی کوئی نعمت ایسی نہیں کہ جس کے ساتھ مصیبت اور غم نہ ہو۔ اس میں کوئی خوشی ایسی نہیں کہ جس کے ساتھ رنج نہ ہو، اس میں کوئی فراخی ایسی نہیں کہ جس کے ساتھ تنگی نہ ہو۔

شریعت کے دائرے میں دنیا سے اپنے مقدر کا لکھا لیتے رہو، یقینی بات تو یہ ہے کہ دنیا کی لذتوں سے جو مرض لاحق ہوا، شریعت ہی اس کا علاج ہے۔

بیٹا! جب تو کسی کے دامن سے وابستہ ہو تو قسمت کا لکھا شرع کے ہاتھ سے لے، جب تو خاص دوست (صدیق) کے مرتبہ پر پہنچے تو اپنا نصیب امر الہی کے ہاتھ سے حاصل کرو، اور جب تو فانی فی اللہ، واصل اور مقرب بارگاہ ہو جائے تو الہی فعل کے ہاتھوں سے لے ۔ پھر تجھے شرعی امور کا حکم دیا جائے گا ، اور ناپسندیدہ سے رو کے گا، تیرے دل میں فعل کے لئے خود بخود تحریک ہوگی۔

اللہ کے بندے تین طرح کے ہیں:

اللہ کے بندے تین طرح کے ہیں:

عامی -خاصی۔ خاص الخاص،

عامی وہ مسلمان ہے جو پر ہیز گار ہو، جوشریعت کا پابند ہو، اور شرع سے کسی پل جدا نہیں ہوتا ، اور اللہ کے اس فرمان پرعمل پیرا ہو

وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا جو کچھ رسول  ﷺ نے تمہیں دیا ہے، لےلو، اور جس چیز سے روکا ہے ، رکے رہو۔“ جب اس کے حق میں یہ تمام ہوتا ہے، اور اس کے ظاہر و باطن پرعمل کر چکے تو اس کا قلب ایسا روشن ہو جا تا ہے کہ وہ اس سے ہرشے کو دیکھنے لگتا ہے، اگر وہ کوئی چیز شریعت کے دائرے میں حاصل کرے تو اس کے لئے اپنے دل سے یقین چاہتا ہے،اور الہام ربانی کا منتظر رہتا ہے، کیونکہ الہام ربانی ہرشے میں عام ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا’’اس نے نیکی اور بدی اس کے دل میں ڈال دی ہے ۔‘‘ وہ اپنے دل سے اعتبار چاہتا ہے اور الہام ربانی کا منتظر رہتا ہے ، اس کی پہچان یہ ہے کہ وہ ظاہرامر پرعمل کرتا ہے اور وہ ظاہرامر یہ ہے کہ جو کچھ اس معیشت تیار کرنے والی دکان میں ہے، دینے والا دے رہا ہے، سب اس کے ہاتھ میں اور ملکیت میں ہے۔

پھر یہی عام خاص بن کر اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے، اور اپنے دل سے اعتماد چاہتا ہے، اور دل کے نور سے روشنی حاصل کر کے اس بارے میں امرالہی کو دیکھ لیتا ہے۔ یہ مقام تب حاصل ہوتا ہے جب وہ شریعت پرعمل کرتا ہے،اور اس کے ایمان کی قوت اور توحید کی قوت اور قوی جائے اور اس کا دل خلقت اور دنیا سے الگ ہو جائے ، دنیا کے جنگلوں اور دریاؤں کو عبور کر لے، اس مقام پر صبح  صادق نمودار ہوتی ہے، اور سب طرح کے انوار :نورایمان،نورقرب الہی ، نورعمل ،نور بصر،نورتحمل واطمینان حاصل ہو جاتے ہیں، یہ ثمرات شرعی حقوق کے ادا کرنے کے بعد اس کی متابعت کی برکت سے حاصل ہوتے ہیں۔

 اور خاص الخواص، یہ لوگ ابدال ہیں ۔ ان کا طریقہ کار یہ ہے کہ پہلے شریعت سے اعتماد (فتوی) لیتے ۔ پھر اللہ کا امر اور اس کا فعل اورتحریک دیکھتے ہیں اور اس کے الہام کے منتظر رہتے ہیں۔ ان تین طبقوں کے علاوہ تباہی در تباہی ،بیماری ، حرام در حرام ،دین کے سر کا درد، دین کے دل کا پھوڑا ہے، اور بدن میں  سل کا مرض ہے۔

تمہارے اعمال اس کی نظر میں ہیں:

اے لوگو! اللہ تعالی طرح طرح سے (اپنے تصرفات سے) تمہارے احوال میں تبدیلی لاتا ہے تا کہ دیکھے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو، تمہارے اعمال اس کی نظر میں ہیں)-: تم ثابت قدم رہتے ہو ، یالڑکھڑ ا جاتے ہو،  امرالہی کی تصدیق کرتے ہو، یا انہیں جھٹلاتے ہو، جوشخص رضائے الہی میں راضی نہ ہو، اس کی ہم نوائی نہیں ہوتی ، نہ ہی توفیق دی جاتی ہے ، جو قضائے الہی میں راضی نہیں اللہ بھی اس سے راضی نہیں ، جو خودنہیں دیتا، اسے بھی نہیں دیا جاتا ۔ جوکسی سے نہیں ملتا، کوئی اس کے پاس بھی چل کے نہ آئے گا۔

ثابت قدمی کے بغیر ایمان کا دعوی خام ہے:

جاہل آدی! تیرا خیال ہے کہ اللہ تیری مرضی ومنشاء سے تغیر و تبدل کرے، کیا تو دوسراالہ ہے کہ اللہ تیری موافقت کرے۔ یہ تو الٹا معاملہ ہے، تو اس کے خلاف کرتا کہ ہدایت پائے ، اگر اللہ نے تقدیر نہ بنائی ہوتی تو جھوٹے دعوے نہ پہچانے جاتے ، جواہر کی پرکھ تجربوں سے ہوتی ہے، جس طرح تیرانفس احکام الہی کا انکاری ہے تو اپنے نفس کی ماننے سے انکاری ہو جا، جب تو اپنے نفس کی ماننے سے انکار کر دے گا تو دوسرے کے انکار پر بھی قدرت پالے گا ، ایمانی قوت کے اندازے سے ہی خرابیاں دور ہوسکتی ہیں ، ایمانی کمزوری سے گھر بیٹھنا اسے بزدل بنادے گا، اور اسے دور کرنے سے عاجز اور گونگا ہو جائے گا۔

ایمان کے قدم ہی ایسے ہیں جو انس وجن  کے شیطانوں  کے مقابلے پر ڈٹے رہیں، آفتوں اور مصیبتوں کے آنے پر نہ ڈگمگائیں، ثابت قدمی کے بغیر ایمان کا دعوی جھوٹا ہے، اگر ایمان کا دعوی ہے تو ہر ایک سے دشمنی کر اور سب کے خالق سے دوستی کر ، اگر وہ چاہے تو ایسی چیز کو تمہاری محبوب بنا کر محفوظ رکھے کہ جس سے تمہیں نفرت تھی ، کیونکہ دل میں محبت ڈالنے والا وہ ہے نہ کہ تم ہو، اس لئے رسول اللہ ﷺ نے ارشادفر مایا: ‌حُبِّبَ ‌إِلَيَّ مِنْ ‌دُنْيَاكُمُ النِّسَاءُ، وَالطِّيبُ، وَجُعِلَ قُرَّةُ عَيْنِي فِي الصَّلَاةِ ”تمہاری دنیا سے تین چیز یں ایسی ہیں جو میری محبوب بنا دی گئی ہیں،خوشبو،عورتیں اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے۔نبی کریم ﷺکیلئے یہ چیزیں بعد میں محبوب  کی گئیں، پہلے آپ کی طرف سے نفرت ، ان کا ترک اور بے نیتی اور روگردانی تھی ۔ چنانچہ

فرغ أنت قلبك مما سواه حتى يحبب هو إليك ما يشاء من ذلك تو اپنے دل کو ماسوا اللہ سے خالی کر دے تا کہ وہ ان میں سے جس کی بھی جا ہے تیرے دل میں محبت ڈالدے۔

فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 59،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی

الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 43دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں