چھٹی مجلس

محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے چٹھی مجلس کا خطبہ جس کا عنوان المجلس السادس فی نصیحۃ المومن لاخیہ ‘‘ ہے۔

 منعقده 15 شوال 545 ھ مدرسہ قادریہ، بغداد شریف

ایمان والا ،ایمان والے کے لئے آئینہ ہے:

اللہ کے ولیوں کے دل صاف اور پاک ہوتے ہیں۔ وہ خلقت کو بھولنے والے اللہ کو یاد کرنے والے،دنیا کو بھلا دینے والے،آخرت کو یاد کرنے والے، جو کچھ تمہارے پاس ہے، اسے بھولنے والے، جو کچھ اللہ کے پاس ہے،اسے یادکرنے والے ہیں ۔تم ان سے اوران میں جو خوبیاں ہیں، ان سے محروم ہو(حجاب میں ہو )، آخرت کو چھوڑ کر دنیا میں مشغول ہو۔ تمہیں اللہ سے کوئی حیا نہیں تم نے حیا کا دامن چھوڑ دیا ہے،اور اس کے سامنے بے شرم بنے ہوئے ہو۔ میرے عزیز اپنے ایمان والے بھائی کی باتوں کو مان لے، اس کی مخالفت کی راہ نہ اپناؤ، یقینی طور پر وہ تم میں وہ کچھ دیکھتا ہے جو تم اپنے نفسوں میں نہیں دیکھتے، اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا: المؤمن مرأة المؤمن وایمان والا ، ایمان والے کے لئے آئینہ ہے ۔‘‘

ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لئے سچا خیر خواہ ہے، اسے نصیحت کرتا ہے ۔ جو کچھ اسے معلوم نہیں اس کے بارے میں اسے بتلا تا ہے ۔ اس کی خوبیاں اور خامیاں الگ الگ کر دیتا ہے، اسے نفع دینے والی اور نقصان دینے والی باتوں کی خبر دیتا ہے۔

پاک ہے وہ ذات جس نے میرے دل میں خلقت کی خیر خواہی ڈال دی ہے، اور اسے میرا سب سے بڑا مقصد بنا دیا ہے۔ یقینی طور پر میں ایک نصیحت کرنے والا ہوں ، اور خیر خواہی کا صلہ نہیں چاہتا، میراصلہ تو اللہ کے ہاں ہے، جو مجھےمل چکا ہے۔ مجھے دنیا کی کوئی طلب نہیں۔ مجھے آخرت کی کوئی تمنا نہیں ۔ میں ماسوا اللہ کی بندگی نہیں کرتا ، میں تو اللہ کے سواکسی کی عبادت نہیں کرتا، جو کہ خالق ہے، یکتا ہے، یگانہ ہے، قدیم ہے، تمہاری فلاح ونجات میں میری خوشی ہے اور تمہاری تباہی و بربادی میرے لئے دکھ اور غم کا باعث ہے۔ میں جب اپنے مرید صادق کا چہرہ دیکھتا ہوں کہ جس نے میرے ہاتھ پر فلاح ونجات پائی تو میں اور تروتازہ اور توانا ہو جا تا ہوں لباس پہنتا ہوں اور خوش ہوتا ہوں، اور کہتا ہوں کہ اس کا وجود میرے ہاتھ سے کیسی عمدہ پرورش اور اچھی تربیت پا کر نکلا۔

اے بیٹا! میں تجھے چاہتا ہوں، اپنے آپ کو نہیں ، اگر تجھ میں کچھ تبدیلیاں آئیں گی تو تیری ہی حالتیں بدلیں گی ، میری نہیں۔ میں تو سب منزلیں طے کر چکا ہوں، تیری میری دوستی تیری وجہ سے ہوئی  ہے، تو مجھ سے اپنے لئے محبت کرتا ہے، مجھ سے تعلق واسطہ رکھ تا کہ تو بھی جلد از جلدان منزلوں سے گزر سکے۔

حرص اور نفس کے بندے نہ بنو :

اے لوگو! اللہ اور اس کی مخلوق پر غرور اور تکبر کرنا چھوڑ دو۔ اپنے آپ کو پہچانو اپنے نفسوں  میں تواضع و انکساری  اجاگر کرو، تمہارا وجود ایک پلید بوند سے بنا ہے تمہاری شروعات ذلیل پانی سے ہوئی ، اور تمہارا انجام ایک پھینکے ہوئے مردار کی طرح ہے۔ ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جن کوطمع در بدر لئے پھرتی ہے، اور حرص کے بندے بن کے رہ جاتے ہیں، نفسانی خواہش انہیں بھڑ کا کر ایسی چیز کی طلب میں بادشاہوں کے در پر لے جاتی ہے جو ان کے نصیب میں نہیں ہے- اور اگر نصیب میں ہے تو نہایت ذلالت اور حقارت سے اس کے لئے ہاتھ پھیلاتے ہیں ،  رسول اللہ ﷺ کاارشاد گرامی ہے:

اشد عقوبات الله عز وجل يعبده طلبه ما لم يقسم له . . اللہ تعالی کے سخت ترین عذابوں میں سے اپنے بندے کے لئے یہ ہے کہ وہ ایسی چیز کی طلب کرے جو اس کی قسمت میں نہیں ہے۔“

افسوس اس بات کا ہے کہ تو اپنی تقدیر اور کاتب  تقدیر  کونہیں جانتا، کیا تجھےیہ گمان ہے کہ دنیا والے وہ چیز تجھے دینے پر قدرت رکھتے ہیں جو تیرے مقدر میں نہیں۔ (ہرگز نہیں ، ) یہ شیطانی وسوسہ ہے جو تیرے دل و دماغ میں بس گیا ہے، تو اللہ کا بندہ نہیں ، بلکہ اپنے نفس اور حرص اور شیطان اور عادت اور درہم و دینار کا بندہ ہے، کوشش کر کہ تجھے کوئی نجات دہند ہ مل جائے تا کہ اس کی پیروی سے تجھے بھی فلاح ونجات مل سکے، (یعنی مرشد کامل کی جستجو کر ۔)

اللہ کے ایک کامل ولی فرماتے ہیں: من لم يرى المفلح لا يفلح   ”جس نے نجات والے کو نہ دیکھا ،اس نے نجات نہ پائی‘‘۔ تو کسی فلاح والے کو اگر دیکھتا بھی ہے تو سر کی آنکھ سے دل اور باطن اور ایمان کی آنکھ سے نہیں دیکھتا، تیرے پاس تو ایمان ہی نہیں تو دیکھنے والی آنکھ کہاں سے لاؤ گے جس سے نجات دلانے والے کو دیکھ سکے، ارشاد باری تعالی ہے: فَإِنَّهَا لَا ‌تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَكِنْ ‌تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ”وہ (ظاہری) آنکھوں کو اندھا نہیں کرتا لیکن جوسینوں میں دل ہیں ۔ان ( کی آنکھوں کو اندھا کرتا ہے ۔‘‘ جو شخص خلقت کے ہاتھوں سے دنیا پانے کی خاطر حرص اور لالچ کرتا ہے، اور دین کو ایک (معمولی) انجیر کے بدلے میں فروخت کرتا ہے ۔ بقا کوفنا کے بدلے بیچ ڈالتا ہے، اس لئے اس کے ہاتھ نہ یہ دنیا لگتی ہے نہ آخرت، جب تک تمہارا ایمان ناقص ہے، اپنے نفس کی اصلاح کر اور اکل حلال کے حصول کے لئے کوشش کر ، تا کہ تو مخلوق کا محتاج نہ ہو جائے ، چنانچہ اپنے دین کو بیچ کر لوگوں کا مال نہ کھاؤ ، اور (اس غلط کاری سے باقی کو فانی سے نہ بدل ،ہاں جب تمہارا ایمان قوی اور کامل ہو جائے تو ہر سبب سے علیحدہ ہو جاؤ ، ارباب باطلہ سے قطع تعلق کرلو، اور اللہ تعالی پر توکل کرو۔ اپنے دل سے سب چیزوں کو چھوڑ دینے کی راہ اختیار کرو، دل کے ہمراہ اپنے شہر اور اہل وعیال ، اور اپنی دکان ( کاروبار ) اور اپنے جان پہچان والوں سے نکل جا، اور جو کچھ تیرے پاس ہے، اپنے اہل وعیال، اپنے بھائیوں اور دوستوں کو دے دے تیری حالت ایسی ہو جائے کہ جیسے موت کے فرشتے نے تیری روح قبض کر لی ہے اور موت کے اچکنے والوں نے تجھے اچک لیا ہے ، تو موت کا لقمہ بن گیا ۔ گو یا زمین پھٹ گئی اور تم اس میں سماگئے۔ یعنی تقدیر اور قضا نے تجھے اٹھا کر علم ومعرفت کے دریا میں ڈبو دیا ہے ۔ جو شخص اس مقام پر پہنچ گیا، عالم اسباب والے اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ۔ اسباب کے اثرات ظاہر پر پڑتے ہیں ، باطن پرنہیں ۔ اس حال میں سبب دوسروں کے لئے ہوتے ہیں، اس کے لئے نہیں۔

اے لوگو اگر تم پوری طرح سے دل کے ساتھ ان سب باتوں پر  عمل نہیں کر سکتے تو اسباب اوران سے تعلق کو چھوڑ دو اگر تم سےیہ کلی طور پر نہ ہو سکے تو جس قدر ہو سکے اس قدرہی سہی  ، اگر پوری طرح سے نہیں تو تھوڑا ہی سہی ، رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:

‌تَفَرَّغُوا ‌مِنْ ‌هُمُومِ ‌الدُّنْيَا ‌مَا ‌اسْتَطَعْتُمْجس قدر استطاعت ہو، دنیا کے بکھیڑوں سے بچ جاؤ۔“

سب کچھ اسی سے مانگو،غیر کے سامنے ہاتھ نہ پھیلاؤ: بیٹا! اگر دنیا کی فکروں سے آزاد ہونے کی ہمت ہے تو ہو جاؤ، ورنہ اپنے دل کے ساتھ اللہ کی طرف دوڑ لگا دے اور اس کے دامن رحمت کو تھام لے،تاوقتیکہ تمہارے دل سے دنیا کی فکر نکل جائے ۔وہ ہر چیز پر قادر ہے، اور ہر ایک چیز کے جاننے والا ہے، ہر چیز اس کے دست قدرت میں ہے، اس کے در کے ہور ہواور التجا کرو کہ تمہارے دل کو غیر سے پاک کر دے ، اور اسے ایمان اور اپنی معرفت اور اپنے علم سے بھر دے اور اپنے غیر سے بے نیاز کر دے اور تجھے یقین عطا فرمادے، اور تیرے دل کو اپنے ساتھ مانوس کر دے اور غیر کے انس سے نجات بخشے اور تیرے سب اعضاء کو اپنی اطاعت و بندگی میں لگائے رکھے، سب کچھ اس سے مانگو، غیر کی سامنے ہاتھ نہ پھیلاؤ ،اپنے جیسے بندوں کے سامنے نہ جھکو، بلکہ غیر کو چھوڑ کر اس کے ہورہو، اپناہر معاملہ اس کے ساتھ اس کے لئے رکھ، اس میں دوسرے کا تعلق نہ ہونے پائے ۔

 دل سے عمل نہ ہو تو علم بیکار ہے:

اے بیٹا اگرز بان پر علم کا چشمہ جاری ہو اور علمی طور پر دل ساتھ نہ ہوتو یہ سوجھ بوجھ   اللہ  کی طرف ایک قدم بھی نہ بڑھنے دے گی ،سیر تو دل کی سیر ہے، قرب الہی تو باطنی قرب ہے،عمل حقیقی معنوں میں عمل ہے، جس میں اعضاء شرعی حدود کی پاسداری کرتے دکھائی دیں اور اس کے بندوں کی تواضع وانکساری اللہ ہی کے لئے کی جائے ، جوشخص اپنے نفس کو بلند مرتبہ جانےسمجھ لواس کی کوئی قدرومنزلت نہیں ، جس نے خلقت کے دکھلاوے کے لئے عمل کئے ، اس کا کوئی عمل نہیں،حقیقی عمل تو خلوت ہی میں ہوتے ہیں جلوت میں ان کا اظہار نہیں کیا جا تا سوائے ان کے ، جن کا ظاہری طور پر کرنا شرعا لازم ہے (یعنی نماز روزہ وغیرہ)، تجھ سے بنیاد کی مضبوطی میں کوتاہی سرزد ہوگئی ہے، نا پختہ بنیاد پر بننے والی عمارت کو مضبوط کرنا کیا فائدہ دے گا، اوپر کی چھت وغیرہ اوپر ہی اوپر دوبارہ مضبوط کی جاسکتی ہے، مگر بنیاد کی کمزوری کا کیا علاج ہے ،اعمال کی بنیادتوحید اور اخلاص پر ہے، جس کے پاس تو حید اور اخلاص نہیں ، اس کا کوئی عمل نہیں ۔ لہذا توحید اور اخلاص کے ذریعے اپنے عمل کی بنیاد کو مضبوط کرو، اپنی طاقت وقوت کے بل بوتے اعمال کی عمارت نہ اٹھا یہ بھروسے کی بات نہیں، بلکہ اللہ کی مدد اور نصرت سے اعمال کی عمارت بناء توحید واخلاص ہی اصل معمارہیں شرک و نفاق نہیں ،حقیقی توحید والاو ہی ہے جس کے علم کا چاند بلند ہوکر روشنی بکھیرے،( منافق کے کئے سے کچھ بھی نہیں بنتا۔)

ہماری التجاودعا یہی ہے کہ اللهم باعد بيننا وبين النفاق في جميع أحوالنا ‌ آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ النار “یا الہی! ہمارے سب احوال میں ہم میں اور نفاق میں دوریاں ڈال دے اور ہمیں دنیا میں بھلائی عطا کر اور آخرت میں بھلائی عطا کر، اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچائے رکھ آمین!‘‘

فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 55،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی

الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 41دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں