شان العلم اور اس سے اوپر کے مرتبہ کی بلندی مکتوب نمبر 76دفتر سوم

شان العلم اور اس سے اوپر کے اس مرتبہ مقدسہ کی بلندی میں جس کو نورصرف سے تعبیر کرتے ہیں۔ حضرت مخدوم زادہ خواجہ معصوم کی طرف صادر فرمایا ہے۔

شان العلم اگر چہ شان الحیات کے تابع ہے لیکن صفات وشیون کے اعتبارات کے زوال اور گر جانے کے بعد مرتبہ حضرت ذات تعالیٰ میں علم کا ایک الگ ہی شان اورگنجائش ہے جوحیات کے لیے نہیں ہے پھر اور صفات وشیون کا کیا ذکر ہے۔ یہ ایک ایسا بلند مرتبہ ہے جو تمام نسبتوں سے مجرد ہے اور نور کے اطلاق کے سوا کچھ اپنے اوپر تجویز نہیں کرتا ۔ میرے خیال میں علم ہی  کی وہاں گنجائش ہے۔ مگر یہ علم وہ نہیں جس کو حضوری یا حصولی کہتے ہیں ۔ کیونکہ یہ علم بمع دونوں قسموں کے حیات کےتابع ہے بلکہ وہ علم حضرت ذات کی طرح بے چون و بیچگون(بے مثل و بے کیف)  اور سراسر شعور بےچون ہے جس میں عالم ومعلوم کا اعتبار نہیں۔ اس مرتبہ کے اوپر ایک اور ایسا مرتبہ ہے جس میں دوسرے شیون کی طرح علم کی بھی گنجائش نہیں۔ وہاں صرف نور ہی نور ہے جو اس بیچون و بیچگون شعور کا اصل ہے جب اس حضرت نور کاظل بیچون اوربیچگون ہے تو پھر اصل کی بیچونی کی نسبت جوعین نور ہے کیا کہا جائے تمام وجوبی و امکانی کمالات اسی نور کے ظلال ہیں اوراسی نور کے ساتھ قائم ہیں۔ وجوداسی نور سے وجود ہوا ہے اور آثار کا مبدأبنا ہے۔ مرتبہ اول 

چونکہ حضرت نورصرف سے انحطاط کی بورکھتا ہے اور اور شعور کا جامع ہے۔ اس لیے حضرت مخبر صادق علیہ الصلوة والسلام نے اس کومخلوق کہا ہے اور اس کی تعبیر بھی عقل سے کی ہے اور فرمایا۔

ہے أَوَّلَ مَا ‌خَلَقَ ‌اللَّهُ ‌الْعَقْلُ (جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اول پیدا کیا ہے وہ عقل ہے) اور کبھی اس کو نور سے یاد فرمایا ہے اور اس طرح کہا ہے  أَوَّلَ مَا ‌خَلَقَ ‌اللَّهُ ‌نُورِي (سب سے اول اللہ نے میرےنور کو پیدا کیا) دونوں کا ایک ہی مطلب ہے یعنی نور بھی ہے اور عقل و شعور بھی چونکہ آنحضرت ﷺنے اس مرتبہ نور کو اپنی طرف منسوب کیا ہے اورنوری فرمایا ہے۔ اس لیے کہہ سکتے ہیں کہ یہ مرتبہ حقیقت محمدی ہے اور تعین اول ہے یہ حقیقت اورتعین اول وہ نہیں جو صوفیہ کے درمیان متعارف ہے کیونکہ وہ  تعین  متعارف اگر اس تعین کاظل بھی ہو جائے تو غنیمت ہے۔ اسی طرح عقل سے بھی وہ عقل مراد نہیں جس کو فلاسفہ نے ایجاب کے طور پر حق تعالیٰ سے صادر اول یعنی عقل فعال کہا ہے اور اسکو کثرت کے صادر ہونے کا مصدر بنایا ہے۔

 جاننا چاہیئے کہ جہاں عین ہے وہاں امکان کی بو اور عدم کی آمیزش پائی جاتی ہے جو وجودتعالی کے تعین وتمیز کا باعث ہے۔ وَبِضِدِّھَا تَتَبَيَّنُ الْأَشْيَاءُ (اور چیزیں اپنی ضدوں ہی سے پہچانی جاتی ہیں)حق تعالیٰ کی صفات جنہوں نے تمیز وتعین پیدا کیا ہے باوجود قدم کے واجب لذاتہا(اس کی ذات کے ساتھ واجب) نہیں ہیں بلکہ واجب الذات واجب تعالیٰ ہیں جن کاحاصل واجب بالغیر ہے جو امکان کی اقسام سے ہے اگر چہ صفات قدیمہ میں لفظ امکان کے اطلاق سے کنارہ کرنا لازم ہے کیونکہ اس سے حدوث کا وہم گزرتا ہے۔ ان کے مناسب وجوب کا اطلاق ہے جو حضرت واجب تعالیٰ کی طرف سے آیا۔ ہے لیکن درحقیقت امکان کی وہاں گنجائش ہے کیونکہ ان کا وجوب لذاتہانہیں بلکہ غیر کی طرف سے آیا ہے اگرچہ اس کو غیرنہیں کہتے اور غیر سے غیرمصطلح مراد لیتے ہیں لیکن اثنینت یعنی دوئی غیرت کا تقاضا کرتی ہے۔ کہ اَلْاَثْنَانِ مُتَغَائِرَانِ (دو چیزیں ایک دوسرے کے مغائر ہوتی ہیں)معقول والوں کا مقریہ قضیہ ہے تعجب ہے کہ شیخ محی الدین ابن عربی قدس سرہ نے دو تعین کو وجوبی کہا ہے اور تین تعین کو امکانی ۔ حالانکہ درحقیقت تمام تعینات ظلیت کا داغ اور امکان کی بور کھتے ہیں اگر چہ ممکن ممکن میں بہت فرق ہے کہ ایک قدیم ہے دوسرا حادث لیکن دائرہ امکان سے خارج نہیں اور عدم کی بور کھتے ہیں ۔ مرتبہ دوم جونورصرف ہے اور لاتعین سے متعین ہے۔ اس کو بھی تو دوسروں کی طری ذات بحت اور احدیت مجردہ (غیر مادی) خیال نہ کرے کیونکہ وہ بھی نورانیت صرف کےحجابوں میں سے ایک حجاب ہے اِنَّ لِلّٰهِ سَبْعِیْنَ اَلْفَ حِجَابٍ مِّنْ نُّوْرٍ وَّظُلْمَةٍ ٖتحقیق الله تعالیٰ کے لئے ستر ہزار پردے نور اور ظلمت کے ہیں۔ ) اگرچہ تعین نہیں لیکن مطلوب حقیقی کا حجاب ضروری ہے اگر چہ تمام حجابوں میں سے اخیر ہے حق تعالیٰ وراء الوراء ہے یہ نور صرف چونکہ دائرہ تعین میں داخل نہیں اس لیے عدم کی ظلیت سے منزه و مبراءہے ۔ وَلِلَّهِ ‌الْمَثَلُ الْأَعْلَى مثال اعلى الله تعالیٰ کےلیے ہے ) اس کی مثال نور آفتاب کی چمک کی طرح ہے جو  اس کی قرص(ٹکیہ) کی حاجب ہے اور اس کے عین قرص سے پراگندہ ہو کر اس کاحجاب بن گئی ہے۔ حدیث میں حجاب النور آیا ہے کہ حِجَابُهُ ‌النُّورُیعنی حجاب الله تعالیٰ کا نور ہے)یہ مرتبہ عالیہ تمام تجلیات ذاتیہ سے برتر ہے۔ پھر تجليات فعل و صفت کا ذکر کیا ہے کیونکہ تجلی تعین کی آمیزش کے بغیرمتصورنہیں اور یہ مقام تمام تعینات سے برتر ہے لیکن ان تجلیات ذاتیہ کا منشا(پیدا ہونے کی جگہ)وہی نورصرف ہے اورتجلی اسی کے تصور سے متصور ہوتی ہے لَوْ لَاہُ لَمَا حَصَلَ التَّجَلِّی (اگر یہ نہ ہوتا توتجلی بھی حاصل نہ ہوتی ) میرے خیال میں کعبہ ربانی کی حقیقت یہی نور ہے جو تمام مسجود اور تعینات کا اصل ہے جب تمام تجليات ذاتیہ کاملجاو ماوی یہی نور ہے تو پھر اوروں کےمسجود ہونے سے اس کی کیا تعریف کیا جائے جب حق تعالیٰ اپنے کمال فضل وعنایت سے ہزاروں میں سے کسی ایک عارف کو اس دولت کے وصل سے مشرف فرمائے اور اس مقام میں فاء و بقاء سے سرفراز کرے تو ہوسکتا ہے کہ اس نور سے بقا حاصل کر کے فوق اور فوق الفوق سے حصہ حاصل کرے اور اس نور کے ذریعے نور سے گزر کر اصل نور تک پہنچ جائے ۔ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ ( یہ الله تعالیٰ کا فضل ہے جس کو چاہتا ہے دیتا ہے اور الله تعالیٰ بڑے فضل والا ہے۔)

) پس معارف جس طرح نظر وفکر کے طور سے ماوراء ہیں اسی طرح کشف وشہود(مشاہدہ) کے طورسے بھی ماوراء ہیں نیز ارباب کشف وشہودان علوم کےسمجھنے میں ارباب علم و عقل کی طرح ہیں نبوت کا نور فراست ہونا چاہیئے تا کہ انبیاء علیھم الصلوة والسلام کی متابعت کے باعث ان حقائق کے سمجھنے کی ہدایت فرمائے اور ان علوم و معارف کے حاصل کرنے کی رہنمائی کرے۔

 جاننا چاہیئے کہ یہ نور دوسرے انوار کی طرح ہرگز ہرگز امکان کی آمیزش نہیں رکھتا نہ ہی ممکن ہے اور نہ ہی جوہر وعرض کی قسم سے ہے بلکہ یہ ایک ایسا مرتبہ ہے جس پرنور کے سوا کچھ اطلاق نہیں کر سکتے اگر چہ وجوب وجود یہی ہو کیونکہ وجوب بھی اس سے کمتر ہے۔ 

تنبیہ: اس بیان سے کوئی یہ وہم نہ کرے کہ عارف کے حق میں حق تعالیٰ کی ذات سے تمام حجابوں کا دور ہو جانا ثابت ہوتا ہے کیونکہ تمام حجابوں کے اخیر اسی نور کو کہتے ہیں اور یہ ازروئے اس حدیث کے ممتنع اورمحال ہے۔ اِنَّ لِلّٰهِ سَبْعِیْنَ اَلْفَ حِجَابٍ مِّنْ نُّوْرٍ وَّظُلْمَةٍ لَوْ کُشِفَتْ لَاَحْرَقَتْ سُبْحَاتُ وَجْهِهٖ مَا انْتَهىٰ اِلَيْهِ بَصَرُهٗ مِنْ خَلْقِہٖ (اللہ تعالیٰ کے لیے ستر ہزار پردے نور اور ظلمت کے ہیں اگر کھولے جائیں تو اس کی ذات کے انوار تمام مخلوقات کو جہا ں تک پڑیں جلا دیں کیونکہ اس جگہ حجابوں کے ساتھ تحقیق و بقا ہے جو ایک دوسر ے معدات و اسباب ہیں نہ کہ حجابوں کا دور ہونا شَتَّانِ مَا بَيْنَهُمَا ان دونوں کے درمیان بہت فرق ہے۔ ) رَبَّنَا آتِنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا (یا اللہ تو اپنے پاس سے ہم پر رحمت نازل فرما اور ہمارے کام سے بھلائی ہمارے نصیب کر)) وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى (سلام ہو اس شخص پر جس نے ہدایت اختیار کی )

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر سوم صفحہ217ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں