عارفوں کے مشاہدہ قلب کی حقیقت مکتوب نمبر 90دفتر سوم

اس سوال کے جواب میں جو عارفوں کے مشاہدہ قلب کی حقیقت کے بارہ میں کیا گیا تھا فقیر ہاشم کشمی کی طرف صادر فرمایا ہے:۔

آپ نے پوچھا تھا کہ بعض محقق صوفیاء دنیا میں دل کی آنکھ سے حق تعالیٰ کی رؤیت اور مشاہدہ ثابت کرتے ہیں جیسے کہ شیخ عارف (شہاب الدین سہر وردی)نے اپنی کتاب عوارف میں فرمایا ہے ۔ کہ مَوْضِعُ الْمَشَاهِدَةِ بَصَرُ الْقَلْبِ ( مشاهده کامحل دل کی آنکھ ہے ) اور شیخ ابواسحاق کلا بادی قدس سره جو اس طائفہ عالیہ کے قد ماء و رؤساء میں سے ہے اپنی کتاب تعرف میں لکھتا ہے کہوَ اَجْمَعُوْا عَلىٰ أَنَّهٗ لَا يُرىٰ فِي الدُّنْيَا بِالْاَبْصَارِ وَلَا بِالْقُلُوْبِ إِلَّا مِنْ جِهَةِ الْإِيْقَانِ ( اس بات پر اجماع اور اتفاق ہے کہ حق تعالیٰ کو دنیا میں ایقان کی جہت کے سوا آنکھوں اور دلوں سے نہیں دیکھ سکتے ) ان دونوں حقیقتوں میں موافقت کس طرح ہے آپ کی رائے کسی تحقیق کے مطابق ہے اور با وجود اختلاف کے اجماع کے کیا معنی ہیں۔

 خدا تعالیٰ آپ کو ہدایت دے ۔ آپ کو واضح ہو کہ اس مسئلہ میں فقیر کے نزدیک صاحب تعرف قدس سرہ کا قول مختار ہے اور جانتا ہے 

کہ دلوں کو اس بارگاہ سے ایقان کے سوا کچھ حاصل نہیں۔ خواہ اس کو رؤیت خیال کریں یا مشاهده جب دل کو رؤیت حاصل نہ ہو تو آنکھ کو کیسے حاصل ہوگی جو اس معاملہ میں بیکارو معطل ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ ایقان کے معنی وحقیقت جو قلب کو حاصل ہوتی ہے۔ عالم مثال میں رؤیت کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے اور مُوْقَنْ بِہٖ (جس پر یقین لایا گیا ہے) مرئی کی صورت میں ظہور کرتا ہے کیونکہ عالم مثال میں ہرمعنی وحقیقت کی ایک صورت ہے جو عالم شہادت کی صورت کے مناسب ہے جب عالم شہادت میں کمال یقین رؤیت میں ہے تو وہ ایقان بھی عالم مثال میں رؤیت کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور جب ایقان رؤیت کی صورت میں ظاہر ہو تو اس کا متعلق یعنی موقن بہ بھی مرئی کی صورت میں ظاہر ہوگا جب سالک اس کو عالم مثال کے آئینہ میں مشاہدہ کرتا ہے تو آئینہ کے واسطہ سے غافل ہو کر صورت کو حقیقت جانتا ہے اورسمجھتا ہے کہ رؤیت کی حقیقت حاصل ہوئی ہے اور مرئی ظاہر ہوا ہے۔ نہیں جانتا کہ وہ رؤیت اس کے ایقان کی صورت ہے اور مرئی اس کے موقن بہ کی صورت۔ اس مقام پر بھی صوفياءغلطی کھا جاتے ہیں اور صورتیں اپنی حقیقوں سے مل جل جاتی ہیں جب یہ دیدغالب آجاتی ہے اور باطن سے ظاہر میں اثر کر جاتی ہے تو سالک کو یہ وہم گزرتا ہے کہ رؤیت بصری بھی حاصل ہوگئی ہے اور مطلوب گوش سے آغوش میں آ گیا ہے اور نہیں جانتا کہ اس مطلب کا حاصل ہونا جب اصل یعنی بصیرت میں بھی تلبس وتوہم پرمبنی ہے تو پھر جو اس عالم میں اس کی فرع ہے۔ اس مطلب کے لائق کیسے ہوگی اور اس کو کہاں رؤیت حاصل ہوگی حالانکہ رؤیت قلبی میں بھی بہت سے صوفياء نے وہم و شک کیا ہے اور اس کے وقوع کا حکم کیا ہے۔ کوئی احمق ہی ہوگا جو رؤیت بصری کے وقوع کا وہم کرتا ہوگا کیونکہ اہل سنت و جماعت کے اجماع کے مخالف ہے۔

سوال: جب عالم مثال میں موقن بہ کی صورت پیدا ہوگی تو لازم ہوا کہ حق تعالیٰ کی وہاں صورت ہے۔

 جواب : تجویز کیا ہے کہ اگر چہ حق تعالیٰ کی کوئی مثل نہیں ہے لیکن مثال ہے اور جائز رکھا ہے کہ مثال میں کسی صورت پرظہور فرمائے چنانچہ صاحب فصوص قدس سرہ نے رؤیت اخروی کو بھی لطیفہ جامعہ مثالیہ کی صورت میں مقرر کیا ہے۔ اس جواب کی تحقیق یہ ہے کہ مثال میں موقن بہ کی وہ صورت حق تعالیٰ کی صورت نہیں۔ بلکہ صاحب ایقان کے مکشوف کی صورت ہے۔ جس کے ساتھ اس کے ایقان کا تعلق ہے اور وہ مکشوف حق تعالیٰ کی ذات کے بعض وجوه و اعتبارات میں سے ہے۔ نہ کہ حق تعالیٰ کی ذات اسی واسطے جب عارف کا معاملہ ذات جل شان تک پہنچتا ہے تو پھر اس قسم کے تخیلات پیدا نہیں ہوتے اور کوئی رؤیت ومرئی خیال میں نہیں آتا کیونکہ مثال میں ذات اقدس کی کوئی صورت موجودنہیں جس کو مرئی کی صورت میں ظاہر کرے اور اس کے ایقان کورؤیت کی صورت میں جتلائے۔ یا ہم یوں کہتے ہیں کہ عالم مثال میں معانی کی صورتیں ہیں۔ نہ کہ ذات کی صورت چونکہ عالم بتمامہ اسماء و صفات کے مظہر ہیں۔ اس لئے ذاتیت سے بہرہ نہیں رکھتے۔ چنانچہ ہم نے اس کی حقیقت کئی جگہ کیا ہے۔ پس وہ مرئی بتمامہ معانی کی قسم سے ہوگا اور مثال میں اس کی صورت موجود ہوگی۔ کمالات وجوبی میں کہ جہاں صفت دشان ہے جو ذات کے ساتھ قیام رکھتے ہیں اور معانی کی قسم سے ہیں۔ اگر مثال میں ان کی صورت ہو اگر چہ یہ بھی سراسر نقص ہے تو ہوسکتا ہے لیکن اس کی ذات اقدس ہرگز صورت کے مراتب میں سے کسی مرتبہ میں نہیں آ سکتی۔ کیونکہ صورت سےتحدیدو تقیید(محدود و مقید ہونا) لازم آتی ہے اور تقیید خواہ کسی مرتبہ میں ہو جائز نہیں کیونکہ مراتب جوسب اس کی مخلوق ہیں ۔ کہاں گنجائش رکھتے ہیں کہ اپنے خالق کومحدود و مقید کرسکیں اور جس کسی نے اس بارگاہ جل شانہ میں مثال کو جائز قرار دیا ہے۔ وہ وجوه و اعتبارات کے اعتبار سے ہے۔ نہ کہ عین  ذات تعالیٰ کے اعتبار سے۔ اگر چہ حق تعالیٰ کے وجود و اعتبارات میں بھی مثال کا تجوز کرنا اس فقیر پر گراں ہے۔ ہاں اگر اس کے ظلال بعیدہ میں سے کسی ظل میں تجویز کی جائے تو بجا ہے۔ اس بیان سے واضح ہوا کہ عالم مثال میں معانی اور صفات کی صورتوں کے نقش موجود ہیں۔ نہ کہ ذات اقدس کے۔ پس صاحب فصوص نے جورؤیت اخروی کو صورت مثالیہ میں تجویز کیا ہے۔ جیسے کہ گزر چکا ۔ وہ حق تعالیٰ کی رؤیت نہیں بلکہ حق تعالیٰ کی صورت کی رؤیت بھی نہیں کیونکہ حق تعالیٰ کی کوئی صورت نہیں جس کے ساتھ رؤیت کا تعلق ہو اور اگر مثال میں کوئی صورت ہے تو وہ اس کے ظلال بعیدہ میں سے کسی ظل کی ہے۔ پس اس کی رؤیت حق کی رؤیت نہیں۔شیخ قدس سرہ حق تعالیٰ کی رؤیت کی نفی میں معتزلہ وفلاسفہ سے کچھ کم نہیں۔ کیونکہ رؤیت کو اس طرح ثابت کرتا ہے جس سے رؤیت کی نفی لازم آتی ہے اور اس میں صریح طور پر رؤیت کی نفی کرنے کی نسبت زیادہ بلیغ طور پر رؤیت کی نفی ہے کیونکہ اَلْکِنَايَةُ اُبْلَغُ مِنَ التَّصْرِيْحِ ( کنایہ تصریح سے زیادہ بلیغ ہوتا ہے)قضیہ مقررہ ہے۔ فرق صرف اس قدر ہے کہ اس جماعت کا مقتداء ان کی اپنی بھدی عقل ہے اور شیخ کا مقتداء اپنا بعید از صحت یعنی غلط کشف۔ شاید مخالفوں کے ناتمام دلائل نے شیخ کے متخیلہ میں مقام کر کے اس کے کشف کو بھی اس مسئلہ میں صواب سے منحرف کردیا ہے اور ان کے مذہب کی طرف مائل کر دیا ہے لیکن چونکہ خود اہل سنت و جماعت سے ہے۔ اس لئے صورت کے طور پر اس کو ثابت کیا ہے اور اس پر کفایت کر کے اسی کو رؤیت خیال کیا ہے۔ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ ‌نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَاتو ہماری بھول چوک پر ہمارا مواخذہ نہ کر)  اس مسئلہ دقیقہ کی وہ تحقیق بھی جو کتاب عوارف کے بعض مقامات کےحل میں لکھی ہے۔ تحریر ہو چکی ہے۔ اجماع کے بارے میں جو آپ نے دریافت کیا تھا۔ممکن ہے کہ اس وقت تک ایسا خلاف جو اعتبار کے لائق ہو۔ ظاہر نہ ہوا ہو یا اپنے زمانہ کے مشائخ کا اجتماع مراد ہو وَاللَّهُ سُبحَانَه أَعْلَمُ ‌بِحَقِيقَةِ ‌الْحَالِ (حقیقت حال کو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے ۔

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر سوم صفحہ264ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں