عورتوں کیلیئے ضروری نصیحتیں مکتوبات نمبر41دفتر سوم

 عورتوں کے لیے ان ضروری نصیحتوں کے بیان میں جو آیہ کریمہ يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ کی تاویل میں مندرج ہیں۔ ایک صالحہ عورت کی طرف صادر فرمایا ہے:۔ اللہ تعالیٰ  فرماتا ہے۔ يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ عَلَى أَنْ لَا يُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَيْئًا وَلَا يَسْرِقْنَ وَلَا يَزْنِينَ وَلَا يَقْتُلْنَ أَوْلَادَهُنَّ وَلَا يَأْتِينَ بِبُهْتَانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ وَلَا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوفٍ فَبَايِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (اے نبی ﷺجب مومن عورتیں تیرے پاس آ کر اس شرط پر بیعت کریں کہ الله تعالیٰ  کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں گی اور نہ چوری کریں گی اور نہ زنا کریں گی اور نہ اپنی اولا کوقتل کریں گی اور نہ کسی پر بہتان لگائیں گی اور نہ کسی شرعی امر میں تیری نافرمانی کریں گی۔ تو ان کو بیعت میں لے لو اور ان کے لیے اللہ تعالیٰ  سے بخشش مانگو۔ اللہ تعالیٰ  بخشنے والا مہربان ہے) یہ آیت کریمہ فتح مکہ کے روز نازل ہوئی ہے۔ جب رسول الله ﷺمردوں کی بیعت سے فارغ ہوئے تو پھر عورتوں کی بیعت شروع فرمائی۔ آنحضرت نے عورتوں کو صرف قول ہی سے بیعت کیا ہے۔ آنحضرت کا ہاتھ ہرگز بیعت کرنے والی عورتوں کے ہاتھ تک نہیں پہنچا۔ چونکہ مردوں کی نسبت عورتوں میں ردی اور بیہودہ اخلاق زیادہ پائے جاتے ہیں اس لیے مردوں کی بیعت کی نسبت عورتوں کی بیعت میں زیادہ شرائط کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ اور خدا تعالی کے امر کو بجالانے کے لیے عورتوں کو اس وقت ان بری عادتوں سے منع فرمایا ہے۔ شرط اول یہ ہے کہ حق تعالیٰ  کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنانا چاہیئے نہ ہی وجوب وجود میں اور نہ ہی عبادت کے استحقاق میں جس شخص کے اعمال ريا وسمعہ سے پاک نہ ہوں اور حق تعالیٰ  کے سوا کسی اور سے اجر طلب کرنے کے فتنہ سے صاف نہ ہوں۔ اگرچہ وہ طلب قول اور ذکر جمیل سے ہو۔ وہ شخص دائرہ  شرک سے باہرنہیں ہے اور نہ ہی وہ موحد ومخلص ہے۔ رسول الله ﷺ نے فرمایا 

ہے۔ الشِّرْكُ أَخْفَى فِي أُمَّتِي مِنْ دَبِيبِ النَّمْلِ عَلَى الصَّفَا فِي اللَّيْلَةِ الظَّلْمَاءِ(شرک میری امت میں اس چیونٹی کی رفتار سے بھی زیادہ پوشیدہ ہے اور جو سیاہ رات میں سیاه پتھر پر چلتی ہے)

لاف بےشر کی مزن کان از نشان پائے مور در شب تاریک برسنگ سیاه پنہاں تراست 

ترجمہ: شرک ایک چیونٹی کی بھی ہے چال سے پوشیدہ تر جو شب تاریکی میں چلتی ہے کالے سنگ پر

رسول الله ﷺنے فرمایا کہ شرک اصغرسے بچو۔ یاروں نے عرض کیا کہ شرک اصغر کیا ہے فرمایا کہ ریاء(دکھاوا)۔

 شرک و کفر کی رسموں کی تعظیم کو شرک میں بڑادخل اور رسوخ ہے اور دو دینوں میں کفر اور شرک کی تصدیق اور اظہار کرنے والا اہل شرک میں سے ہے اور اسلام و کفر کے مجموعی احکام پرعمل کرنے والا مشرک ہے۔ کفر سے بیزار ہونا اسلام کی شرط ہے اور شرک سے پاک ہونا توحید کا نشان ہے۔ دکھ، درد اور بیماریوں کے دور کرنے کے لیے اصنام اور طاغوت یعنی بتوں اور شیطانوں سے مدد مانگنا جو جاہل مسلمانوں میں شائع ہے۔عین شرک و گمراہی ہے اور تراشیدہ اور ناتراشیدہ پتھروں سے حاجتوں کا طلب کرنا واجب الوجود جل شانہ کامحض کفروانکار ہے۔ اللہ تعالیٰ  بعض گمراہوں کے حال کی شکایت بیان فرماتا ہے۔يُرِيدُونَ أَنْ يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوا أَنْ يَكْفُرُوا بِهِ وَيُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَنْ يُضِلَّهُمْ ضَلَالًا بَعِيدًا (یہ لوگ چاہتے ہیں کہ طاغوت کی طرف اپنا فیصلہ لے جائیں حالانکہ ان کو حکم ہے کہ اس کا انکار کریں، لیکن شیطان چاہتا ہے کہ ان کو سخت گمراہ کرے) اکثر عورتیں کمال جہالت کے باعث اس قسم کی ممنوع استمداد میں مبتلا ہیں اور ان بےمسمی اسموں سے بلیہ و مصیبت کا دفع ہونا طلب کرتی ہیں اور شرک اور اہل شرک کی رسموں کے ادا کرنے میں گرفتار ہیں۔ خاص کر مرض جدری کے وقت جس کو ہندی زبان میں سیلا اور چیک کہتے ہیں نیک و بد عورتوں سے یہ بات مشہود(مشاہدہ)  محسوس ہوتی ہے۔ شاید ہی کوئی عورت ہوگی جو اس شرک سے خالی ہے اور شرک کی کسی نہ کسی  رسم میں مبتلا نہ ہو۔ الا من عصمها الله تعالیٰ  (مگر جس کو الله تعالیٰ  بچائے) ہندوؤں کے بڑے دنوں کی تعظیم کرنا اور ان دنوں میں ان کی مشہور رسموں کو بجا لانا سراسر کفر وشرک ہے۔ جیسے کہ کافروں کی دیوالی کے دنوں میں جاہل مسلمان خاص کر ان کی عورتیں کافروں کی رسموں کو بجا لاتی اور اپنی عید مناتی ہیں اور کافروں اور مشرکوں کی طرح ہدیہ اورتحفہ اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو دیتی ہیں اور اس موسم میں کافروں کی طرح اپنے برتنوں کو رنگ کر کے ان کو سرخ چاولوں سے بھر کر بھیجتی ہیں اور اس موسم کا بڑا اعتبار اور شان بناتی ہیں۔ سب شرک اور دین اسلام کا کفر ہے۔ الله تعالیٰ  فرماتا ہے وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ (ان میں سے اکثر ایمان نہیں لاتے بلکہ شرک کرتے ہیں) اور حیوانات کو جو مشائخ کی نذر کرتے ہیں اور ان کی قبروں پر جا کر ذبح کرتے ہیں۔ روایات فقہیہ میں اس عمل کو بھی شرک میں داخل کیا ہے اور اس بارہ میں بہت مبالغہ کیا ہے اور اس دن کوجن (طاغورت) کےذ بیجوں کی قسم سے خیال کیا ہے۔ جوممنوع شرعی ہے اور شرک کے دائرہ میں داخل ہے اس عمل سے بھی پرہیز کرنا چاہیئے کہ اس میں بھی شرک کی بو پائی جاتی ہے۔ نذر اور منت کے وجوه  اور بہت ہیں۔ کیا حاجت ہے کہ حیوان کے ذبح کرنے کی منت و نذر مانیں اور اس کو ذبح کرکے جن کے ذبیحوں سے ملائیں اور جن کے پجاریوں کے ساتھ مشابہت پیدا کریں اسی طرح وہ روزے جو عورتیں پیروں اور بیبیوں کی نیت پررکھتی ہیں اور اکثر ان کے ناموں کو اپنے پاس سے گھڑ کر ان کے نام پر اپنے روزوں کی نیت کرتی ہیں اور ہر روزہ کے افطار کے لیے کھانے کا خاص اہتمام کرتی ہیں اور خاص طور پر افطار کرتی ہیں اور روزوں کے لیے دنوں کا تعین بھی کرتی ہیں اور اپنے مطلبوں اور مقصدوں کو ان روزوں پر موقوف کرتی ہیں اوران روزوں کے ذریعے ان پیروں اور بیبیوں سے حاجتیں طلب کرتی ہیں اور ان روزوں کے ذریعے ان کو اپنا حاجت روا اور مشکل کشا جانتی ہیں۔ یہ سب عبادت میں شرک ہے اور غیر کی عبادت کے ذریعے اس غیر سے اپنی حاجتوں کا طلب کرنا ہے۔ اس عمل کی برائی کو اچھی طرح معلوم کرنا چاہیئے حالانکہ حدیث قدسی میں الله تعالیٰ  فرماتا ہے الصَّوْمُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ یعنی روزه خاص میرے ہی لیے ہے اور روزہ کی عبادت میں میرے سوا اور کوئی شریک نہیں۔ اگرچہ کی عبادت میں اللہ تعالیٰ  کے ساتھ کسی کو شریک بنانا جائز نہیں، لیکن روزہ کی تخصیص اس عبادت کے بلندشان ہونے کے باعث ہے۔ جس میں تاکید کے ساتھ شریک کی نفی کی گئی ہے اور یہ جوبعض عورتیں اس فعل کی برائی ظاہر کرنے کے وقت کہتی ہیں کہ ہم ان روزوں کو خدا تعالیٰ  کے لیے رکھتی ہیں اور ان کا ثواب پیروں کو بخشتی ہیں۔ یہ ان کا حیلہ اور بہانہ ہے۔ اگر یہ اس امر میں سچی ہیں تو روزوں کے لیے دنوں کو معین کیوں کرتی ہیں اور افطار کے وقت طعام کی تخصیص اور طرح طرح کی بری وضعوں کا تعین کیوں کرتی ہیں۔ اکثر اوقات افطار کے وقت محرمات(حرام) کی مرتکب ہوتی ہیں اور حرام چیز سے افطار کرتی ہیں اور بے حاجت سوال و گدائی کر کے اس سے روزہ کھولتی ہیں اور اس فعل محرم کے کرنے پر اپنی حاجتوں کا پورا کرنا جانتی ہیں۔ یہ سب گمراہی اور شیطان لعین کامکروفریب ہے۔ والله سبحانه العاصم (الله تعالیٰ بچانے والا ہے)۔ 

شرط دوم جو عورتوں کی بیعت کے وقت در میان لائے ہیں یہ کہ ان کو چوری سے منع کیا گیا ہے۔ جو کبیرہ گناہوں میں سے ہے، چونکہ یہ بری خصلت بھی اکثر عورتوں میں پائی جاتی ہے۔ شاید ہی کوئی عورت ہوگی جو اس بری عادت سے خالی ہوگی۔ اس لیے اس بری خصلت سے منع کرنا ان کی بیعت میں شرط قرار پایا۔ وہ عورتیں جو اپنے خاوندوں کےمالوں میں ان کی اجازت کے بغیر تصرف کرتی اور نڈر ہو کر ان کو خرچ اور تلف کرتی ہیں چوروں میں داخل ہیں  اور چوری کے گناہ کبیرہ کی مرتکب ہیں۔ یہ بات عام عورتوں میں ثابت ہے اور یہ خیانت عام طور پر تمام عورتوں میں پائی جاتی ہے۔ الا من عصمها الله تعالى (مگر جس کو اللہ تعالیٰ  بچائے کاش عورتیں اس بات کی برائی جانیں اور اس کو گناہ اور بد تصور کریں۔ بلکہ اکثر اس برائی کو حلال جانتی ہیں حالانکہ اس کو حلال اور جائز جاننے میں ان کے کفر کا خوف ہے۔ حکیم مطلق جل شانہ نے عورتوں کو شرک سے روکنے کے بعد چوری سے اس لیے منع فرمایا ہے کہ یہ بری خصلت عام طور پر ان کے حلال و جائز سمجھنے کے باعث ان کو کفر تک لے جاتی ہے اور ان کے حق میں تمام کبیرہ گناہوں سے بڑھ کر بری ہے۔ جب عورتوں میں خاوندوں کے مالوں کو بارہا دفعہ چرانے کے باعث خیانت کا ملکہ پیدا ہو جاتا ہے اور غیروں کے مال میں تصرف کرنے کی برائی ان کی نظروں سے دور ہو جاتی ہے تو خاوندوں کے سوا اور لوگوں کےمالوں میں بھی تعدی سے تصرف کرتی ہیں اور بے تحاشا دوسروں کے اموال میں خیانت کرتی اور چراتی ہیں۔ یہ بات تھوڑے سے تامل سے واضح ہو جاتی ہے۔ پس ثابت ہوا کہ عورتوں کو چوری سے منع کرنا اسلام کی ضروریات میں سے ہے اور شرک کے بعد چوری کی برائی ان کے حق میں زیادہ ثابت ہے۔

تذییل (ذیلی بحث)

ایک دن حضرت پیغمبر علیہ الصلوة والسلام نے اصحاب سے پوچھا کہ تم جانتے ہو کہ چوروں میں سے بڑا اور برا چور کون ہے۔ عرض کی کہ ہم نہیں جانتے۔ آپ ہی فرمائیں۔ فرمایا کہ چوروں میں سے زیادہ چور وہ شخص ہے جو نماز میں چوری کرے اور نماز کے ارکان کو کامل طور پر ادا نہ کرے۔ اس چوری سے بھی بچنا ضروری ہے تا کہ بد تر چوروں میں سے نہ ہوں۔ حضور دل سے نماز کی نیت کرنی چاہیئے۔ کیونکہ نیت کے بغیر کوئی عمل درست نہیں ہوتا قرأت کو درست پڑھنا چاہیئے اور رکوع وسجود اورقومہ جلسہ کو اطمینان سے ادا کرنا چاہیئے۔ لیکن رکوع کے بعد سیدھا کھڑا ہو کر ایک تسبیح کی مقدار دیر کرنی چاہیئے اور دو سجدوں کے درمیان ایک تسبیح کی مقدار بیٹھنا چاہیئے تاکہ قومہ اور جلسہ میں اطمینان حاصل ہو۔ جوشخص ایسا نہ کرے وہ چوروں میں داخل ہے اور وعید کا مستحق ہے۔ 

تیسری شرط جو عورتوں کی بیعت میں منصوص ہے۔ یہ ہے کہ ان کو زنا سے منع کیا گیا ہے۔ عورتوں کی بیعت میں اس شرط کی خصوصیت اس لیے ہے کہ زنا اکثر عورتوں کی رضامندی سے وقوع میں آتا ہے۔ یہ خود اپنے آپ کو مردوں کے سامنے پیش کرتی ہیں اور اس عمل میں پہل عورتوں کی طرف سے ہوتی ہے اور اس عمل کے حصول میں ان کی رضامندی معتبر ہے۔اسی لیے مردوں کی نسبت عورتوں کو اس فعل سے بڑی تاکید کے ساتھ منع کیا گیا ہے۔ مرداس عمل میں عورتوں کے تابع ہیں ۔ یہی سبب ہے کہ اللہ تعالیٰ  نے اپنی کتاب مجید میں زانی عورت کو زانی مرد پر مقدم فرمایا ہے۔ الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ (زانی عورت اور زانی مرد کو سو سو کوڑے لگاؤ) یہ بدخصلت دنیا اور آخرت کا خسارہ ہے اور تمام دینوں میں قبیح اور منکر ہے۔ حضرت ابو حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ  عنہ حضرت پیغمبر علیہ الصلوة والسلام سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ اے آدمیوں کے گروہ زنا سے پرہیز کرو کہ اس میں چھ بری خصلتیں ہیں۔ جن میں سے تین دنیا میں ہیں اور تین آخرت میں۔ وہ تین جو دنیا میں ہیں ایک یہ کہ زنا کرنے والے سے خوبی اور نورانیت اور صفا دور ہو جاتی ہے۔ دوسری یہ کہ اس سے فقر اورمحتاجی پیدا ہوتی ہے۔ تیسری یہ کہ عمرکم ہوتی ہے اور وہ تین خصلتیں جوزانیوں کے لیے آخرت میں ہیں۔ ایک حق تعالیٰ  کا غصہ اورغضب۔ دوسرے بری طرح سے حساب ہونا۔ تیسرے دوزخ کا عذاب جاننا چاہیئے کہ حدیث نبوی میں آیا ہے کہ آنکھوں کا زنا محرمات کی طرف نظر کرنا ہے اور ہاتھوں کا زنا محرمات کو پکڑنا اور پاؤں کا زنا محرمات کی طرف جانا ہے۔ اللہ تعالیٰ  فرماتا ہے۔ قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ  وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ (یعنی اے محمدمومنوں کو کہہ دو کہ اپنی آنکھوں کومحرمات سے ڈھانپیں اور اپنی شرم گاہوں پر نگاہ رکھیں۔ یہ ان کے واسطے بہت ہی اچھا ہے۔ اللہ تعالیٰ  ان کے کاموں کو دیکھتا ہے اور مومنات کو کہہ دو کہ اپنی آنکھوں کو محرمات سے ڈھانپیں اور اپنی شرمگاہوں کو محفوظ رکھیں جاننا چاہیئے کہ دل، آنکھ کے تابع ہے۔ جب تک آنکھ کو محرمات سے بند نہ کریں دل کی محافظت مشکل ہے۔ جب آنکھ گرفتار ہو جائے تو دل کی حفاظت مشکل ہے اور جب دل گرفتار ہو جائے تو شرم گاہ کی محافظت دشوار ہے۔ پس محرمات سے آنکھ کا ڈھانپنا ضروری ہے تاکہ شرمگاہ کی محافظت حاصل ہو سکے اور دینی اور دنیاوی خساره میں نہ ڈالے۔ قرآن مجید میں اس بات سے بھی منع کیا گیا ہے کہ عورتیں بیگانہ مردوں کے ساتھ بدکار عورتوں کی طرح ایسی نرم و ملائم کلام نہ کریں جن سے بدکار مردوں کو بدکاری کا وہم پیدا ہو اور ان دلوں میں برائی کا طمع ظاہر ہو۔ ہاں نیک اور اچھا کلام جو اس وہم اورطمع سے خالی ہو عورتیں، مردوں کے ساتھ کر سکتی ہیں اور اس امر سے بھی منع کیا گیا ہے کہ عورتیں اپنی زینت و خوبی اور بناؤ سنگار بیگانہ مردوں کے سامنے ظاہر کریں اور مردوں کوخواہش میں ڈالیں اور اس امر سے بھی نہی آئی ہے کہ اپنے پاؤں کو زمین  پر ماریں تا کہ ان کی پوشیده زینت ظاہر ہو یعنی پازیب وغیرہ حرکت میں آ ئے اور اس سے آواز نکلے ۔ جس سے مردوں کو عورتوں کی طرف بری خواہش پیدا ہو۔ غرض جو بات فسق اور بدکاری کی طرف لے جانے والی ہے بری ہے اور اس سے منع کیا گیا ہے۔ بڑی احتیاط کرنی چاہیئے کہ محرمات کے مبادی اور مقدمات کا ارتکاب نہ کیا جائے تا کہ محرمات سے خلاصی حاصل ہو۔ والله سبحانه العاصم ( اللہ تعالیٰ  بچانے والا ہے) وَمَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللَّهِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ سوائے اللہ تعالیٰ  کی توفیق کے میری کوئی توفیق نہیں۔ کہ گناہوں سے بچوں۔ میں نے اسی پر توکل کیا اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں) پوشیدہ نہ رہے کہ بیگانی عورت کی طرف شہوت کے ساتھ دیکھنے اور ہاتھ لگانے میں عورت بھی بیگانہ مرد کی طرح ہے۔ عورت کے لیے جائز نہیں کہ اپنے آپ کو اپنے خاوند کے سوا کسی اور کے لیے خواہ عورت ہو یا مرد آراستہ کرے اور ان کو اپنی زیب و زینت دکھائے۔ جس طرح مردوں کو امردوں یعنی بے ریش یا نابالغ لڑکوں کو شہوت کے ساتھ دیکھنا اورمس(چھونا) کرنا حرام ہے اسی طرح عورتوں کو بھی عورتوں کی طرف شہوت کی نظر سے دیکھنا اور ہاتھ لگانا منع ہے۔ اس امر کو بخوبی مد نظر رکھنا چاہیئے کہ دین و دنیا کے خسارہ کا موجب ہے۔ مرد کا عورت تک پہنچنا دونوں کی جنس کے مختلف ہونے کے باعث مشکل ہے، کیونکہ کئی رکاوٹیں درمیان ہیں۔ برخلاف ایک عورت کے دوسری عورت تک پہنچنے کے کہ دونوں کے ہم جنس اور متحد ہونے کے باعث نہایت آسان ہے۔ یہاں زیادہ احتیاط کرنی چاہیئے اور مرد کو عورت کی طرف اور عورت کو مرد کی طرف بنظر شہوت دیکھنے اورمس کرنے کی نسبت عورت کو عورت کی طرف بنظر شہوت دیکھنے اور مس کرنے سے اچھی طرح منع کرنا اور ڈرانا چاہیئے۔ 

چوتھی شرط جو عورتوں کی بیعت میں فرمائی ہے۔ ان کو اولاد کے قتل کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ یعنی عورتیں محتاجی اور فقر کے سبب سے اپنی چھوٹی لڑکیوں کو مار دیا کرتی تھیں یہ برافعل کسی کو ناحق قتل کرنے کے علاوہ قطع رحم کوبھی شامل ہے۔ جو کبیرہ گناہ ہے۔ 

پانچویں شرط جو عورتوں کی بیعت میں فرمائی ہے۔ اس میں بہتان اور افتراسے منع کیا گیا ہے۔ چونکہ یہ بری صفت عورتوں میں زیادہ تر پائی جاتی ہے۔ اس لیے خاص طور پر اس سے  ان کومنع فرمایا ہے۔ یہ صفت تمام بری صفتوں سے بری ہے اور یہ عادت تمام ردی عادتوں میں سے ردی ہے جس میں جھوٹ بھی شامل ہے۔ جو تمام مذہبوں میں حرام ہے نیز اس میں مومن کی ایذاء ہے۔ جس کی نسبت بہتان اور افترا کیا جا تا ہے اور مومن کو ایذا دینا حرام ہے۔ نیز بہتان و افترا روئے زمین  میں فساد برپا کرنے کا موجب ہے۔ جونص قرآنی سے مکروہ اور ممنوع اور حرم اور مستنکر ہے۔ 

چھٹی شرط یہ ہے کہ نبی ﷺجو کچھ فرمائیں۔ اس کی نافرمانی اور معصیت سے عورتوں کو منع کیا گیا ہے۔ یہ شرط تمام اوامر شرعی یعنی نماز و روزه و حج و زکوة کے بجالانے اور تمام شرعی منہیات سے ہٹ جانے پر مشتمل ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ  اور اس کے نازل کیے ہوئے ضروری احکام پر ایمان لانے کے بعد اسلام کی بنیادانھی چار رکنوں پر ہے۔ پنجگانہ نماز کو سستی اورقصور کے بغیر بڑی کوشش واہتمام سے ادا کرنا چاہیئے۔ مال کی زکوة بڑی رغبت و احسان کے ساتھ زکوة کے مستحقوں کو دینی چاہیئے۔ رمضان مبارک کے روزے جو سالانہ گناہوں کے دور کرنے والے ہیں۔ بڑی اچھی طرح رکھنے چاہئیں۔ بیت اللہ کا حج بھی جس کی شان میں مخبر صادق علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا ہے کہ الْحَجَّ يَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهُ (حج گزشتہ تمام گناہوں کو گرا دیتا ہے) ادا کرنا چاہیئے تا کہ اسلام قائم ہو جائے۔ اسی طرح ورع و تقوی بھی ضروری ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے مِلَاكُ دِينِكُمُ الْوَرَعُ لیکن تمہارے دین کا اصل اصول اور اس کو قائم رکھنے والا ورع ہے اور اس سے مراد شرعی منہیات کا ترک کرنا ہے۔ مسکر ات یعنی نشہ والی چیزوں سے پرہیز کرنا چاہیئے ۔ ان کو شراب کی طرح حرام اور برا سمجھنا چاہیئے ۔ غنایعنی سرود اور گانے بجانے سے بھی بچنا ضروری ہے، کیونکہ لہو ولعب اور کھیل کود میں داخل ہے جو حرام ہے۔ اس کے بارہ میں آیا ہے کہ الْغناء رقية الزِّنَىیعنی سرود زنا کا افسون اور منتر ہے اور غیبت اورسخن چینی سے بھی اجتناب کرنا لازم ہے کیونکہ اس سے بھی شرع نے منع فرمایا ہے اورمسخرہ پن اور مومن کوناحق ایذا دینے سے بچنا چاہیئے ۔ شگون بد کا اعتبار نہ کریں اور اس کی کچھ تاثیر نہ جانیں اور ایک شخص سے دوسرے شخص کو مرض کے(اڑ کر)لگ جانے لیکن مریض سے کسی تندرست شخص کو لاحق ہونے کا اعتبار نہ کریں، کیونکہ مخبر صادق علیہ الصلوة والسلام نے ان دونوں سے منع فرمایا ہے۔ لَا طِيَرَةَ، وَلَا عَدْوَی یعنی شگون بد کی کوئی اصل نہیں اور ایک کے مرض کا دوسرے کو لگ جانا ثابت نہیں ۔ کاہن اور نجومی کی باتوں کا اعتبارنہ کریں اوران کی غیبی باتوں کو کچھ نہ جانیں اور ان سے کچھ نہ پوچھیں اور ان کوا مورغیبی کا عالم نہ جانیں، کیونکہ شریعت نے بڑے مبالغہ کے ساتھ منع فرمایا ہے۔ نہ خود جادوکریں نہ جادوگر کے پاس اس نیت سے جائیں، کیونکہ حرام قطعی ہے اور کفر میں قدم راسخ رکھنا ہے۔سحرو ساحری سے بڑھ کر زیادہ کفر کے نزدیک اور کوئی گناہ کبیرہ نہیں۔ بڑی احتیاط کرنی چاہیئے کہ اس کا کوئی چھوٹا سا امر بھی نہ ہونے پائے، کیونکہ شرع میں آیا ہے کہ مسلم جب تک اسلام رکھتا ہے اس سےسحر ظاہر نہیں ہوتا۔ جب ایمان اس سے جدا ہو جاتا ہے اس وقت سحر بھی اس سے صادر ہوتا ہے۔ گویا سحر اور ایمان ایک دوسرے کی ضد او نقیض ہیں۔ اگر جادو ہے تو ایمان نہیں۔ اس بات پر خوب غور کرنا چاہیئے تا کہ ایمان کے کارخانہ میں خلل نہ آئے۔ اور اس عمل کی شامت سے اسلام کی دولت ہاتھ سے نہ چلی جائے۔ غرض جو کچھ مخبر صادق علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا ہے اور علماء نے کتب شرعیہ میں اس کو بیان کیا ہے۔ جان و دل سے اس کو بجا لانا چاہیئے اور اس کے خلاف کوزہر قاتل خیال کرنا چاہیئے ۔ جودائمی موت تک پہنچا دیتا ہے اور طرح طرح کے عذابوں میں جتلا کر دیتا ہے۔ جب بیعت کرنے والی عورتوں نے ان سب شرطوں کو قبول کر لیا تو آنحضرت نے صرف قول ہی سے ان کو بیعت فرمایا اورحق تعالیٰ  کے امر کے بموجب ان کے لیے بخشش طلب کی ۔ وہ استغفار جو آنحضرت حق تعالیٰ  کے امرسے کی جماعت کے لیے طلب کریں کامل امید ہے کہ قبول ہوگا اور وہ جماعت بخشی جائے گی اور ابو سفیان کی زوجہ ہندہ بھی اس بیعت میں داخل تھی۔ بلکہ تمام عورتوں کی سرگروه تھی اور ان کی طرف سے کلام کرتی تھی۔ اس بیعت اور استغفار سے اس کے لیے بڑی بھاری بخشش کی امید ہے پس جو عورتیں ان شرطوں کو قبول کر لیں اور ان کے موافق عمل کریں حکمااس بیعت میں داخل ہو جاتی ہیں اور اس استغفار کی برکات کی امیدوار بن جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ  فرماتا ہے مَا يَفْعَلُ اللَّهُ بِعَذَابِكُمْ إِنْ شَكَرْتُمْ وَآمَنْتُمْ(اگر تم شکر کرو اور ایمان لے آؤ تو الله تعالیٰ  تمہیں عذاب دے کر کیا کرے گا) شکر بجا لانے سے مراد یہ ہے کہ شرعی احکام کو قبول کریں اوران کے مطابق عمل کریں۔ نجات کا طریق اور خلاصی کا راستہ اعتقادی اور عملی طور پر صاحب شریعت علیہ الصلوة والسلام کی متابعت ہے۔ پیرواستاد اس لیے بنائے جاتے ہیں کہ شریعت کی طرف ہدایت و رہنمائی کریں اور ان کی برکت سے شریعت کے اعتقاد اور عمل میں آسانی و سہولت حاصل ہو۔ نہ یہ کہ مرید جو کچھ چاہیں کریں اور جو کچھ چاہیں کھائیں اور پیران کے لیے  ڈھال بن جائیں اور عذاب سے بچالیں کہ یہ ایک نکمی اور بیہودہ آرزو ہے۔ وہاں اذن کے بغیر کوئی شفاعت نہ کر سکے گا اور جب تک عمل پسندیدہ نہ ہوں گے کوئی اس کی شفاعت نہ کرے گا۔ اگر بشریت کے بموجب کوئی لغزش اورقصوراس سے سرزد ہو گا تو اس کا تدارک شفاعت سے ہو سکے گا۔ سوال: گناہگار کوکس اعتبار سے پسندیدہ کہا جاسکتا ہے؟

جواب: جب حق تعالیٰ  گناہگار کو بخشنا چاہتا ہے اور اس کے معاف کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی وسیلہ درمیان لے آتا ہے تو وہ شخص در حقیقت مرتضی اور پسندیدہ ہے۔ اگرچہ بظاہر گناہ گار ہے۔ والله سبحانه الموفق (اللہ تعالیٰ  توفیق دینے والا ہے۔ رَبَّنَا آتِنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا (یا اللہ تو اپنے پاس سے ہم پر رحمت نازل فرما اور ہمارے کام سے بھلائی ہمارے نصیب کر) والسلام 

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر سوم صفحہ128ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں