فلاسفہ کی تقلید کی ممانعت مکتوب نمبر 101دفتر سوم

فلاسفہ کے مذاق کے موافق آیات قرآنی کی تاویل و تفسیر کرنے سے منع کرنے کے بیان میں نے عبداللہ کی طرف صادر فرمایا ہے:

سَلَّمَكُمُ اللهَ تَعَالیٰ وَعَافَاکُمْ عَن ِالْبَلِيَّاتِ (اللہ تعالیٰ آپ کو آفات و بلیات سے سلامتی و عافیت بخشے ) کتاب تبصیر الرحمن جو آپ نے بھیجی تھی اس کو بعض مقامات سے مطالعہ کر کے واپس بھیج دیا ہے۔ اس کتاب کا مصنف فلاسفہ کے مذہب کی طرف بہت میلان رکھتا ہے اور نزدیک ہے کہ علماء کو انبیا علیہم الصلوۃ والسلام کے برابر کر دے سورہ ہود کی ایک آیت نظر آئی جس کا بیان اس نے حکماء کے طرز پر کیا ہے جو سراسر انبیاء علیہم الصلوة والسلام کے طرز کے برخلاف ہے اور حکماء و انبیاء کے قول کو باہم برابر کیا ہے اور اس آیت کریمہ میں اس طرح کہا کہ أُولَئِكَ الَّذِينَ ‌لَيْسَ ‌لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ باِتِّفَاقِ الْأَنْبِيَاءِ وَالْحُکَمَاءِ اِلَّا النَّارُ الْحِسِّیُّ وَ الْعَقْلِى ( یہ وہ لوگ ہیں جن کا آخرت میں سوائے آگ کے کوئی حصہ نہیں انبیاء کے اتفاق سے آگ سے مرادآگ حسی ہے اور حکماء کے اتفاق سے آگ عقلی) انبیاءعلیہم الصلوة والسلام کے اجماع کے باوجود حکماء کے اجماع کی کیا گنجائش ہے اور عذاب آخرت میں ان کے قول کا کیا اعتبار ہے خاص کر جبکہ انبیاء کے قول کے مخالف میں فلاسفہ جو عذاب عقلی ثابت کرتے ہیں اس سے عذاب حسی کا رفع کرنا مقصود ہے جس کے ثبوت پر انبیا علیہم الصلوة والسلام کا اجماع ہے اسی طرح اور بھی کئی جگہ آیات قرآنی کوحکماء کے مذاق کے موافق بیان کرتا ہے اگر چہ اہل ملل (اہل سنت کے مذہب، متابعان انبیاء) کے مخالف ہی ہو یادرہے کہ اس کتاب کا مطالعہ پوشیدہ اور ظاہری ضرروں سے خالی نہیں چونکہ اس امر کا اظہار ضروری تھا اس لیے چند کلمات لکھ کر آپ کو تکلیف دی گئی ۔ والسلام 

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر سوم صفحہ318ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں