فلسفہ وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود
فلسفہ وحدۃ الوجود: وحدت الوجود یعنی ہمہ اوست (Pantheism ) لغوی معنی ہیں (سب کچھ وہ(اللہ) ہے) کا سادہ مطلب یہ ہے کہ خدا کائنات ہے اور کائنات خدا ، اس سے زیادہ نہ کم۔اسے توحید عینی بھی کہا جاتا ہے اس فلسفے کے بانی شیخ محی الدین ابن عربی(۵۶۰ھ تا۶۳۸ھ) جانا جاتا ہے
فلسفہ وحدت الشہود یعنی ہمہ از اوست) Panenthesm )لغوی معنی ہیں (ہر شے کا وجود حق(اللہ) سے ہے)کا مطلب یہ ہے کہ کائنات خدا کا پر تو ہے۔ اسے توحید ظلی بھی کہا جاتا ہے اس فلسفے کے بانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی ہیں نے وحدت الوجود میں اصلاح کی خاطر وحدت الشہود کا نظریہ پیش کیا جو یقینا کافی حد تک کامیاب ہے ان کا کہنا تھا کہ:
’’ کائنات وعالم چونکہ مرتبہ و ہم میں بہرحال موجود ہے اس لئے نفی صرف شہود کی ہونی چاہیے، یہ وہ مقام ہے کہ جب سالک اللہ کے سوا کچھ نہیں دیکھتا چنانچہ اس وقت اس کی توحید یہ ہے کہ وہ مشہود صرف اللہ کو مانے اور انہیں صرف اللہ دکھائی دے رہا ہو۔‘‘
دونوں نظریات کا فرق یاتقابل
وحدت الوجود (ھوالکل ) وحدت الشہود (ھوالھادی)
(1) نظریہ ہمہ است یا اندرہمہ اوست (1) نظریہ ہمہ ازاوست
(2) رحجان تصوف، سکون کی طرف مائل (2) جوش کی طرف مائل
(3) میں اور وہ جدا نہیں وہ دریا تو میں قطرہ ہوں (3) اس کے ساتھ میں اور میرے ساتھ وہ ہے
(4) وصل (4) عشق
(5) اعتقاد : میں کون ہوں ؟ اَ ناَ الحق (عارف ) (5) میں کون ؟ اناَ عَبدُہُ (عاشق)
اصطلاحِ صوفیہ میں ’’وحدت الوجود‘‘ کے دیگر عنوانات توحید، عینیت اور مظہریت بھی ہیں۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا وجود کامل ہے اور اس کے مقابلہ میں تمام ممکنات کا وجود اتنا ناقص ہے کہ کالعدم ہے، عام محاورہ میں کامل کے مقابلہ میں ناقص کو معدوم سے تعبیر کیا جاتا ہے جیسےکسی بہت بڑے علامہ کے مقابلہ میں معمولی تعلیم یافتہ کو یا کسی مشہور پہلوان کے مقابلہ میں معمولی شخص کو کہا جاتا ہے کہ یہ تو اس کے سامنے کچھ بھی نہیں، حالانکہ اس کی ذات اور صفات موجود ہیں مگر کامل کے مقابلہ میں انھیں معدوم قرار دیا جاتا ہے، فلسفی اور ملحدین کی طرف سے اس عقیدے کی ایسی تشریحات بھی کی گئی تھیں جن کی بناء پر ہر نظر آنے والی شے پر اللہ تعالیٰ کا اطلاق درست ہے۔
چنانچہ ایسی ملحدانہ تعبیر کے مقابلے میں شیخ مجدد الف ثانی رحمہ اللہ نے اس نظریے کی اصلاح کے لیے اس کے مد مقابل ایک نیا نظریہ پیش فرمایا جسے وحدت الشہود کہا جاتا ہے۔ اس کے دیگر عنوانات ظل و عکس ہیں اس نظرئیے کی رو سے خالق اور مخلوق دونوں کا وجود بالکل الگ الگ ہے، البتہ مخلوق اپنے وجود کے لیے ہر لحظہ خالق کی محتاج ہے۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے سورج اور اس کی روشنی، کہ روشتی کا وجود ہر لمحہ سورج ہی کے دم سے ہے مگر اس کے باوجود روشنی سورج سے علیحدہ وجود کی حامل ہے۔