فنائے اتم کےبارے جو عین واثر کے زوال پر وابستہ ہےمکتوب نمبر64دفتر سوم

 اس فنائے اتم کے بیان میں جو عین واثر کے زوال پر وابستہ ہے اور واجب تعالیٰ  کے وجود کی تحقیق اورممکن سےعدم کے زوال اور اس کے ثبوت کے بقاء اور عروجات کے بیان میں علوم و اسرار کے جامع بزرگ مخدوم زادوں خواجہ محمد سعید خواجہ  محمد  معصوم سلمہما الله تعالیٰ  کی طرف صادر فرمایا ہے: . 

فنائے اتم اس وقت متحقق ہوتی ہے جب فانی کے عین واثر کازوال حاصل ہو اور اس کا کوئی نام ونشان نہ رہے۔

 سوال : ممکنات کی حقیقت جب اعدام ہیں جو اضافت سے امتیاز پا کر واجب تعالیٰ  کے اسماء و صفات کے جلوہ گاہ بنے ہیں جیسے کہ کئی مکتوبوں میں اس کی تحقیق ہو چکی ہے تو اس سے لازم آتا ہے کہ اس فناء کے حصول کی صورت میں عدم سے جو اس کی حقیقت ہے کوئی نام ونشان ممکن میں باقی نہ رہے اور وجود کے سوا اس میں کچھ نہ رہے کیونکہ وہ نقیضوں میں سے ایک کا زوال دوسری نقیض کے حصول کا باعث ہے تا کہ نقیضین کا ارتفاع لازم نہ آئے(جو محال ہے) اور وجودصوفیہ کے نزدیک عین واجب تعالیٰ  ہےیاحق تعالیٰ  کی اخص صفات میں سے ہے اس صورت میں قلب حقیقت لازم آتا ہے جو الحا دوزندقہ کو مستلزم ہے۔

 جواب: عدم کی نقیض وہ وجودنہیں جو عین واجب تعالیٰ  ہے یاحق تعالیٰ  کی صفات ذاتیہ میں سے اخص ہے بلکہ عدم کی نقیض اس وجود کے ظلال میں سے ایک ظل اور اس کے عکسوں میں سے ایک عکس ہے غرض وہ وجود جس کے مقابلہ میں عدم ہے وہ دائره امکان میں سے ہے اور عدم(جو اس کی نقیض ہے) کے رفع کرنے کی احتیاج رکھتا ہے۔ 

حق تعالیٰ  کی صفات اگر چہ دائره امکان سے خارج ہیں لیکن چونکہ حق تعالیٰ  کی ذات کے ساتھ احتياج رکھتی ہیں اور ہر ایک کے مقابل میں اعدام ثابت ہیں اس لیے امکان کی آمیزش سے خالی نہیں ہیں اور حق تعالیٰ  کی ذات کی احتیاج ہمیشہ ان کی دامنگیر ہے اگر چہ قدیم ہیں اور حق تعالیٰ  کی ذات سے جدا نہیں ہیں لیکن نفس احتیاج امکان کی دلیل ہے اگر غیر کی طرف احتیاج ہے تو کامل نقص ہے اور دائرہ امکان میں داخل ہے اور اگر غیر کی احتیاج نہیں تو بھی امکان کی بو پائی جاتی ہے اگرچہ دائرہ  امکان میں داخل نہ ہو جس طرح کہ حق تعالیٰ  کی صفات جن کا کمال ذات کے کمال سے کمتر ہے پس وجوب مطلق صرف حق تعالیٰ  کی ذات کے لیے ثابت ہے۔ جو ہر طرح کےنقص وقصور کی آمیزش سے منزہ ومبرا ہے حق تعالیٰ  کی صفات اگرچہ دائرہ وجوب میں قدم رکھتی ہیں لیکن چونکہ ذات کی احتیاج رکھتی ہیں اس لیے ان کا وجودذات کے وجوب سے کمتر ہے کیونکہ ان کا وجود عدم کی نقیض رکھتا ہے۔ جیسے کہ عدم علم اور عدم قدرت وغیرہ لیکن حق تعالیٰ  کے وجودذات کے مقابل کوئی عدم نہیں اور کوئی نقیض متصور نہیں اگر واجب تعالیٰ  کے وجود کے لیے اعدام میں کوئی عدم نقیض ہو تو اس نقیض کے رفع کرنے کا محتاج ہوگا اور احتیاج نقص کی صفات میں سے ہے جو امکان کے حال کے مناسب ہے تَعَالَى اللہُ عَنْ ذَالِکَ ‌عُلُوًّا ‌كَبِيرًا ( الله تعالیٰ  اس سے بہت ہی برتر اور بلند ہے )واضح ہو کہ حق تعالیٰ  کی صفات میں لفظ امکان کے اطلاق سے پر ہیز کرنی چاہیئے کیونکہ اس سے حدوث کا وہم گزرتا ہے اللہ تعالیٰ  کی صفات قدیم ہیں اگر چہ صفات واجبی فی ذات واجب نہیں ہیں لیکن واجب جل شانہ کی ذات کے اعتبار سے واجب ہیں جوذات  سے جدا نہیں ہیں ۔ اس معنی کا حاصل اگر چہ امکان کی طرف لے جاتا ہے لیکن حدوث کے وہم سے خالی ہے اور واجب تعالیٰ  کے وجود کے لیے نقیض یعنی عدم کا حاصل  نہ ہونا کشفی اور شہود ی ہے ۔ اگر چہ استدلال کی صورت میں تنبیہ لائیں اب ہم اصل بات کی طرف آتے ہیں اور سوال کا جواب دیتے ہیں کہ ممکن سے عدم کے زوال کے بعد فناء کی صورت میں وجود کے سوا اس میں کوئی چیز نہیں رہتی اور ثبوت وتحقق کے سوا کچھ اس کے نصیب نہیں ہوتا کیونکہ عدم بمع عین واثر کے دور ہو چکا ہوتا ہے لیکن یہ وہ وجود ثبوت ہے جوعین کے مرتبہ حس و وہم میں ثابت ہوا ہے اور آثار کو اس پر مرتب کیا ہے اور عدم کے زوال کے بعد حضرت وجوب تعالیٰ  کے کمالات کا آئینہ بنا ہے اور عدم زائل کی طرح ممکن کی ذات و حقیقت ثابت ہوا ہے۔یہ ثبوت زوال عدم سے پہلے کی صفات سے تھا جس کو مرتبہ حس وو ہم میں ثابت کیا ہے اور اب بھی زوال عدم کے بعد وہی ثبوت اس کے قائم مقام ہو کر ممکن کی ذات بن گیا ہے اور صفات کو اپنی طرف منسوب رکھا ہے اور عدم کا کارخانہ اس پر قائم کیا گیا ہے یہ کارخانہ جو عدم کی نیابت سے قائم ہوا ہے اس حد تک برپا ہے جب تک ثبوت کی نقیض قائم ہے اور امکان کے لیے بقاء ہے۔ جب معاملہ ثبوت کی نقیض سے بالا ہو جاتا ہے اور وجود کاتقابل نہیں رہتا بلکہ عدم کو اس کے مقابلہ کی مجال نہیں ہوتی اور امکان کی ہرگز گنجائش نہیں رہتی اس وقت اورہی کاروبار ہوتا ہے اور وہی دمساز اورغمگسار ہوتا ہے أَوْ أَدْنَى کا سر اس جگہ طلب کرنا چاہیئے کیونکہ جہاں تک کہ امکان کی آمیزش اور عدم کی مجال ہے اگرچہ نقاضت سے ہو۔ قَابَ ‌قَوْسَيْنِ میں داخل ہے اور جب امکان اور عدم بالکل اپنا اسباب باندھ لیں اور کوچ کا نقاره بجائیں تو پھرا أَوْ أَدْنَى کے کمالات پیش آتے ہیں ۔ اس سے یہ مطلب نہیں کہ ممکن واجب تعالیٰ  کی ذات ہو جاتا ہے بلکہ اس کا یہ مطلب ہے کہ اس کا قیام حق تعالیٰ  کی ذات بحت کے ساتھ ثابت ہو جاتا ہے اور وہ قیام جوذات  کے ظلال میں سےظل کے ساتھ تھازائل ہو جاتا ہے۔ع 

کسے کو درخدا گم شد خدا نیست ترجمہ جوگم ہوا خدامیں ہرگز خدا نہیں ہے ۔

اس عارف کا قیام حق تعالیٰ  کی ذات کے ساتھ ایسا ہے جیسے کہ حق تعالیٰ  کی صفات کا قیام اس کی ذات کے ساتھ ہے بلکہ اس کا قیام اس مرتبہ میں ہے جہاں صفات میں سے کچھ ملحوظ نہیں اگرچہ صفات حق تعالیٰ  کی ذات سے جدا نہیں ہیں لیکن صفات کا قیام ازلی و ابدی ہے اور قدم رکھتا ہے اور اس کا قیام ازلی نہیں ہے۔ حدوث کے داغ سے موسوم ہے لیکن صفات کے لیے نقیضین ہے جو اعدام ہیں مثلا عدم علم اور عدم قدرت اور اس عارف کا معاملہ اعدام کےنقیض ہونے سے بلند ہے جیسے کہ تحقیق ہو چکا ہے پوشیدہ نہ ر ہے کہ جب معاملہ اعدام کے نقیض ہونے سے برتر ہو جائے تو وجود متحقق ہو جاتا ہے اورممکن واجب ہو جاتا ہے اور یہ محال ہے میں کہتا ہوں کہ ممکن اس وقت واجب ہوتا ہے جب کہ وجود خارجی پیدا کرے لیکن جب مرتبہ حس و وہم کے سوا ممکن کا کوئی ثبوت نہیں تو پھر وجوب وجود کس طرح متصور ہوگا ۔ اس بیان سے صفات کے قیام اور عارف کے قیام کے درمیان ایک اور فرق ظاہر ہو گیا کہ صفات کا قیام وجود خارجی کے اعتبارسے ہے اور عارف کا قیام وجودوہمی کے اعتبار سے اگر چہ ثبات وقرار رکھتا ہے اور ان کا مبدء ہے جاننا چاہیئے کہ عارف کے انا(میں) کی بقا عدم کی بقا تک ہے جو اس کی حقیقت ہے جب عدم زائل ہو جائے تو انا کے لیے کوئی محل و موردنہیں رہتا، جس پر اس کا اطلاق کیا جائے ۔ ثبوت سے نفرت کرتی ہے ہاں ممکن میں جز واعظم عدم ہی ہے اورممکن عدم ہی سے ممکن ہوا ہے اور ممکن کہ یہ کارخانہ عدم ہی  سے لمبا چوڑا ہوا ہے اور وہ احتیاج جوممکن میں ہے عدم ہی کی طرف سے آئی ہے اور وہ حدوث جو امکان کا دامنگیر ہے وہ بھی عدم ہی سے ظاہر ہوا ہے اور اگر ممکن میں کثرت ہے تو عدم ہی کی طرف سے ہے اور اگر امتیاز ہے تو عدم ہی کے باعث ہے وجودممکن کےحق میں مستعار ہے اور وہ بھی تخیل و توہم میں ہے۔ اگرچہ ثبات و استقرار رکھتا ہے۔

 جاننا چاہیئے کہ وہ صفات جو حق تعالیٰ  کی ذات کے ساتھ قیام رکھتی ہے حق تعالیٰ  کی ذات ان صفات میں سے ہر ایک صفت کے رنگ میں کامل طور پرظہور فرماتی ہے۔ یہ نہیں کہ حق تعالیٰ  کی ذات میں سے کچھ حصہ کی صفت سے متصف ہو اور کچھ حصہ کی صفت سے کیونکہ اس بارگاہ میں تبعض و تجزی(حصے اور جز ہونا) نہیں ہے بلکہ بسیط حقیقی (جو تمام نسبتوں اور اعتباروں سے مجرد(خالی) اور شیون و صفات کی تفصیلوں سے معراہے) ہے وہاں جوحکم ثابت کریں کلیت کے اعتبار سے ہے۔ چنانچہ کہتے ہیں کہ حق تعالیٰ  کی ذات کلہ ارادہ ہے اور کلہ علم ہے اور کلہ قدرت ہے اور وہ قیام جوعارف کو اسماء صفات کے ملاحظہ کے بغیر حق تعالیٰ  کی ذات کے ساتھ حاصل ہوتا ہے وہ بھی اسی قسم سے ہے کہ حق تعالیٰ  کلی طور پر اس کے رنگ میں ظہور فرماتا ہے اور دوسرے مظاہر کے برعکس اس کے تشخص وتعین میں اپنے مرائیت یعنی آئینہ بننے کو ظاہر کرتا ہے۔ فَهِمَ مَنْ فَھِمَ(سمجھا جس نے سمجھا) بیت۔

 قیامت میکنی سعدی بدیں شیریں سخن گفتن مسلم نیست طوطی رابد و رانت شکر خالی 

ترجمہ: بیت غضب کرتا ہے اے سعدی تویہ شیریں سخن کہہ کر نہیں طوطی کو لائق اب کرے ظاہر شکر خانی۔

 اس طرح کا ظہور کی آئینہ کلی طور پر صورت کے رنگ میں آجائے اگر عارف کوفناء اتم کے بعد اس ظہور کے ساتھ بقا پیدا ہو جائے تو اس کے تعینات میں سے اکمل ہوگا کیونکہ یہ وجود موہوب حقانی یعنی حق کا بخشا ہوا ہے جو ولادت ثانیہ سے اس کو میسر ہوا ہے اور یہ تعین باوجود حدوث اور امکان کے چونکہ مرتبہ و ہم سے پیدا ہوا ہے ۔ اس لیے دوسرے تعینات پر جو اس مرتبہ سے پیدا نہیں ہیں ۔ فضل و زیادتی رکھتا ہے جس طرح کہ قرآن کے حروف و کلمات دوسرے حروف و کلمات پرفضل و زیادتی رکھتے ہیں ۔ اگر چہ دونوں حدوث و امکان سے موسوم ہیں وہ بہت ہی بیوقوف ہے جو ظاہربینی کے باعث اس تعین کو ان دوسرے تعینات کے برابر دیکھے اور قرآن کے حروف و کلمات کو دوسرے حروف و کلمات کے مساوی جانے ۔ اس بیان سے ثابت ہوتا ہے کہ عارف کو دوسرے لوگوں پرو ہی فضل و زیادتی حاصل ہے جو کلام خداوندی کو دوسروں کی کلام پرفضل و زیادتی ہے۔ بیت 

ہر کہ افسانہ بخواند افسانہ است وانکہ دیش نقد خودمردانہ است 

ترجمہ بیت جس نے افسانہ پڑھا افسانہ ہے جس نے دیکھا نقد وہ مردانہ ہے ۔

جب محجوبوں نے حضرت محمد رسول اللہ ﷺکو بشر کہا اور دوسرے انسانوں کی طرح تصور کیا وہ منکر ہو گئے اور جن سعادتمندوں نے ان کو رسالت اور رحمت عالمیان کے طور پر دیکھا اور تمام لوگوں سے ممتاز اور سرفراز سمجھا وہ ایمان کی دولت سے مشرف ہوئے اور نجات پاگئے۔ 

تنبیہ: بعض ان پوشیده مطالب کے ادا کرنے میں جو حق تعالیٰ  کی ذات و صفات سے تعلق رکھتے ہیں ۔ میدان عبارت کی تنگی کے باعث ایسے ایسے الفاظ لائے گئے ہیں جن سےممکن کی صفات کا وہم گزرتا ہے اور جن سے نقص وقصور لازم آتا ہے ۔ ان الفاظ کو ظاہر کی طرف سے پھیر لینا چاہیئے اور حق تعالیٰ  کی پاک بارگاه کونقص کے تمام صفات اور قصور کے تمام نشانات سے منزہ ومبرا جاننا چاہیئے اور بعض الفاظ جو شرع میں حق تعالیٰ  کی بارگاہ کی نسبت وارد نہیں ہوئے۔ مثلا مرائیت وغیرہ کہ حق تعالیٰ  کی ذات پر ان کا اطلاق مشائخ عظام کی تقلید پر مجازاً کیا جاتا ہے۔ ورنہ فقیران کے اطلاق سے بھی ڈرتا اور کانپتا ہے۔ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا (یا اللہ تو ہماری بھول چوک پرمواخذہ نہ کر۔

اگر کہیں کہ لفظ تجلی اور ظہورظلی وغیرہ سے جو تیری عبارت میں واقع ہوتے ہیں مراتب ظہورات میں وجود کا تنزل لازم آتا ہے جیسے کہ دوسرے مشائخ نے کہا ہے حالانکہ تو وجود کے تنزل کا انکار کرتا ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے تو میں . کہتا ہوں کہ تنزل اس صورت میں لازم آتا ہے جبکہ مظہر کو عین ظاہرکہیں جیسے کہ دوسرے نے کہا ہے اور اگرعین نہ کہیں تو پھر تنزل کیونکر ہوگا۔ اس فقیر کے نزدیک مختار یہی ہے کہ مظہرعین ظاہرنہیں ہے۔ وَالله سُبْحَانَهُ الْمُوَفِّقُ  اللہ تعالیٰ  توفیق دینے والا ہے۔

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر سوم صفحہ184ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں