فیض کیا ہے؟

فیض کیا ہے؟

عنایتِ الٰہی و جذبۂ باطن قلبی کیفیات ، باطنی برکات فیض کہلاتا ہے ، اس حالت کو جس سے دل میں مثبت تبدیلی آنی شروع ہو جائے اور کسی شخص کا سفر اندھیروں سے روشنی کی طرف، جہالت سے علم کی طرف، نامحرمی سے معرفت کی طرف اور بے عملی سے عملِ صالح کی طرف شروع ہو جائے، تو اسے ‘فیض’ کہا جاتا ہے۔

لفظ ‘فیض’ اصطلاحِ تصوّف میں مختص  ہے۔قلبی کیفیات کیلئے، باطنی برکات کیلئے، جبکہ شرعی اعتبار سے جس چیز کو فیض کہا جاتا ہے، وہ ہیں برکاتِ محمد رسول اللہ ﷺ۔

فیض اقدس و فیض مقدس

  ذات الہی  چونکہ تنوع پسند ہے اس لیے اس کی تجلیات غیر مکرر ہیں اور صورتوں کا محل عین ثابتہ ہے۔ حق تعالٰی اپنی لامتناہی صفات کے ساتھ اپنے لامتناہی علمی مظاہر پر تجلی فرماتا ہے اور اس کو فیض اقدس کہتے ہیں۔ پھر ان علمی مظاہر یعنی اعیان ثابتہ کے احکام کے مطابق ان علمی مظاہر کے محل ظہور یعنی خارجی مظاہر پرتجلی فرماتاہے اوراس کو فیضی مقدس کہتے ہیں۔ 

 فیض اقدس سے اللہ تعالی نے ممکنات عالم کے اعیان ثابتہ کو استعدادات عطا کیں اور فيض مقدس سے استعدادت کے مطابق اعیان ثابتہ کو اعیان خارجیہ کا لباس پہنایا۔ پس فیض اقدس تجلی ذات ہے اور فیض مقدس تجلی اسمائی ہے ۔ 

 فیض کی دو قسمیں

سالک کو ذاتِ حقّ تعالیٰ (مَبدا فیض) سے جو فیض پہنچتا ہے اس کی دو قسمیں ہیں

۔ فیضِ تخلیقی                  فیضِ کمالاتی

فیضِ تخلیقی

انسان کی ایجاد و تخلیق کا سبب فیضِ تخلیقی کہلاتا ہے یہ فیض انسان کو صفات کے توسط سے حاصل ہوتا ہے۔

فیضِ کمالاتی

انسان کے ایمان و معرفت اور کمالاتِ نبّوت و ولایت کا سبب فیضِ کمالاتی کہلاتا ہے یہ فیض بعض کو صفات کے توّسط سے اور بعض کو شیونات کے توّسط سے حاصل ہوتا ہے۔ مثلًا سرورِ کائنات خلاصہِ موجودات علیْہ التحیّات و الصّلوٰت کا مَبداِ فیضِ تخلیقی صفات ہیں اور مَبداِ فیضِ کمالاتی شیونات ہیں۔* آپ اپنے مبداِ فیضِ کمالاتی میں ساری مخلوق سے منفرد و ممتاز ہیں اور اس مرتبے میں آپ کا کوئی شریک نہیں انبیاء و مُرسلین علیہم الصَّلوٰت اور اولیائے کاملین علیہم الرحمۃ کو آپ کے اس مرتبہِ شانُ العلم کے ظِلال سے فیض ملتا ہے۔
مُنَزَّہُُ عَنْ شَرِیْکِِ فِیْ مَحَاسِنِہِ فَجَوْھَرُ الْحُسْنِ فِیْہِ غَیْرُ مُنْقَسِمِ
حضرت اِمامِ ربّانی قدس سرہ کا قول سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبداءِ فیضِ کمالاتی سے متعلق ہے۔

 

چند اصطلاحات کی وضاحت پیشِ خدمت ہے

قابلیّت

ذات و شیونات یا ذات اور صفات کے درمیان نسبت کو قابلیّت کہا جاتا ہے۔

نِسبت

ظِلّ طرفین یا رابطہ بینَ الطّرفین کا نام نسبت ہے۔

قابلیّتِ اُولیٰ

حقیقتِ مُحمّدیہ علیٰ صَاحبہا الصَّلوٰت کو قابلیتِ اُولیٰ کہا جاتا ہے۔

مبداِ فیض

عالمِ وجوب میں جس اسم، شان، صفت یا ظِلّ کے توسط سے سالک کو فیض آتا ہے اس کو مبداِ فیض کہتے ہیں۔

مبداِ فیاض

مبداِ فیاض صرف ذاتِ باری تعالیٰ ہے اور ہر انسان اپنی استعداد و صلاحیت کے مطابق عالمِ وُجوب میں اپنے مبداِ فیض سے تربیت و پرورش پاتا ہے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں