قیامت کی فکر بیگانہ بنادے گی

حضرت شیخ المشائخ، قطب ربانی، غوث صمدانی ، محبوب سبحانی، سیدنا عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہ نے تصوف و طریقت پر مشتمل کتاب” آداب السلوک والتواصل الی منازل الملوک“ میں فرمایا :

دیندار طبقہ میں سے جو لوگ دینی ضروریات نماز جمعہ اور دوسری نمازپنجگانہ کیلئے یا ضروریات دنیوی کیلئے بازاروں میں جاتے ہیں۔ 

تو ان میں سے کچھ تو ایسے ہوتے ہیں جو بازار جا کر طرح طرح کی شہوات ولذات کو دیکھتے ہیں تو یہ چیزیں انہیں اپنی طرف متوجہ کر لیتی ہیں وہ انہیں دل دے بیٹھتے ہیں اور فتنہ میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ یہ چیز ان کی بربادی ، ترک دین، پاکبازی کا سبب بن جاتی ہے۔ وہ طبیعت کی موافقت پر اتر آتے ہیں۔ خواہشات کی اتباع کرنے لگتے ہیں ہاں اگر اللہ تعالی اپنے فضل و کرم سے ان کی دستگیری فرمائے۔ انہیں محفوظ رکھے اور صبر و عمل کی توفیق دے دے توده محفوظ رہ جاتے ہیں اور بھٹکتے نہیں۔ 

دوسراگروہ ان لوگوں کا ہے جن کی دنیاوی نعمتوں پر جب نظر پڑتی ہے اور ہلاک ہونے کے قریب ہوتے ہیں اور اپنی عقل اور دین کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ دل کو مضبوط کر لیتے۔ تکلفاً استقامت اختیار کرتے ہیں اور دنیا کو ترک کرنے کا کڑوا گھونٹ پی لیتے ہیں طبیعت اور خواہش کے خلاف جنگ لڑتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے آخرت میں بڑا اجر لکھا جاتا ہے۔ 

حدیث مبارکہ میں ہے کہ آپ نے فرمایا : يكتب للمؤمن بترك الشهوة عند العجز عنها او عنه القدرة عليها سبعين حسنة۔

بندہ مومن کو ترک شہوت پر ستر نیکیاں ملتی ہیں۔ خواہ وہ ترک شہوت سے عاجز ہو یا اس پر قدرت رکھتا ہو۔ 

تیسراگروہ ان لوگوں کا ہے جو ان نعمتوں سے پوری طرح لطف لیتے ہیں اور اللہ تعالی کے فضل و کرم کے ساتھ انہیں حاصل کرتے ہیں۔ کیونکہ ان کو اللہ تعالی نے دنیاوی مال و متاع سے حظ وافر عطا فرمارکھا ہوتا ہے۔ وہ ان نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور اس پر اس کریم کا شکر ادا کرتے ہیں۔ 

چوتھا گر وہ ان لوگوں کا ہے جو دنیوی چیزوں کو دیکھتے ہیں لیکن ان سے کوئی اثر قبول نہیں کرتے۔ وہ ماسواللہ سے اندھے بن جاتے ہیں۔ انہیں الله تعالی کے علاوہ اور کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ وہ بہرے ہو جاتے ہیں اور غیر کی آواز کو سن نہیں پاتے وہ اپنے مقصود و مطلوب میں اس طرح مشغول ہوتے ہیں کہ غیر کی طرف نگاہ کرنے کی فرصت ہی نہیں رکھتے۔ وہ خلق سے اس قدر لا تعلق ہو چکے ہوتے ہیں کہ دیکھ کر بھی کچھ نہیں دیکھتے۔ آپ پوچھیں کہ بازار میں کیا دیکھا تو کہیں گے کہ اس کے سواء تو ہمیں کچھ نظر ہی نہیں آیا۔ 

بے شک انہوں نے بازار میں بکھری دنیاوی نعمتوں کو دیکھا۔ مگر دل کی آنکھ سے نہیں ظاہری آنکھوں سے دیکھا۔ دل جمال یار کے مزے لوٹتا رہا۔ اس لیے وہ دیکھ کر بھی کچھ نہ دیکھ پائے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہنا چاہیئے کہ انہوں نے صورت کو دیکھا مگر معنی سے لا تعلق رہے۔ انہوں نے ظاہر کو دیکھا مگر اشیاء کے باطن سے اندھے بنے رہے۔ ظاہری طور پر توان کی آنکھیں بازار کی چیزوں کو دیکھ رہی تھیں لیکن در حقیقت نگاہوں میں اللہ کریم کے جلوے بسے ہوئے تھے۔ انہیں ہر طرف اللہ تعالی کا جلال و جمال نظر آرہا تھا۔ 

پانچواں گروہ ان لوگوں کا ہے جن کے دل میں اللہ کی مخلوق کا درد ہوتا ہے جب وہ بازار میں داخل ہوتے ہیں تو یہ جذبہ شفقت انہیں لذات دنیوی سے بیگانہ کر دیتا ہے۔ بازار میں داخل ہونے سے لیکر نکلنے تک وہ خلق خدا کیلئے دعاء استغفار ، ر حمت ، شفاعت اور شفقت کا سوال کرتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالی کی مخلوق کودیکھ کر ان کا دل جل اٹھتا ہے۔ آنکھیں اشکبار ہو جاتی ہیں۔ زبان اللہ تعالی کی حمد و ثناکر نے لگتی ہے۔ اور وہ اللہ تعالی کی عطا کردہ ان نعمتوں پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو خلق خد اور بستیوں پر اللہ تعالی کی طرف سے کوتوال اور محافظ ہوتے ہیں۔ اگر آپ چاہیں تو انہیں عارف، ابدال ، زاہد عالم ، اعیاں، او تاد محبوب، مراد زمین میں اللہ کے نائب ، سفراء، حقیقت شناس ، ہادی ، مہدی، ماہر اور مرشد کہہ سکتے ہیں۔ ایسے لوگوں کبریت احمر اور نادر الوجود ہیں۔ رضوان الله وصلواته عليهم. وعلى كل مومن مريد لله عزوجل وصل الى انتھاء المقام

آداب السلوک شیخ عبد القادر الجیلانی صفحہ 183 ،مکتبہ دارالسنابل دمشق شام


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں