لا تعین /ذات لا تعین

لا تعین /ذات لا تعین

اللہ تعالی کی خالص ذات جس میں کسی اسم نعت اور وصف کا کوئی دخل نہ ہو صرف اور صرف اس کی ذات\ من حیث ہو\ یہ مقام لاتعین کہلاتا ہے اسی کو غیب \غیب الغیب\ ذات بحت\ اور مرتبہ ہویت\ کے الفاظ سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے امام ربانی نے اس کے لئے لاتعین کا لفظ اختیار فرمایا ہے 

اس کے علاوہ  ذات لا تعین کیلئے یہ اصطلاحات بھی استعمال ہوتی ہیں  ازل الآزال ، عین الکافور، منقطع الوجدانی ، منقطع الاشارات، مجہول النعت، الغیب المسکوت عنہ،ذات ساذج،ذات بحت، ذات بلا اعتباراور مرتبہ الہویت

وہ ذات جو ظاہری حواسِ باطنی حواس کی گرفت سے بالاتر ہے، وہ ہستی جو اپنی صفاتِ کمالیہ کی بنا پر تعین اور احساس سے منزہ و پاک ہے، خدائے تعالیٰ نیز مرتبۂ ذات وہ جس کا تعین نہ ہو سکے،

وہ جس کی حد بندی نہ کی جا سکے وہ جس کا احاطہ نہ کیا جا سکے وہ ذات جس میں کسی تعین کا اعتبار نہ ہو  نہ اسمائی نہ افعالی

احدیت ذات کا وہ مرتبہ ہے جس میں اس کا نہ کوئی نام ہے نہ نشان، لا تعین، لا محدود قید اطلاق سے مقدس اور منزہ غیب الغیب، نہ اسم، نہ صفت، نہ واجب، نہ ممکن، ہر قسم کی اضافات اور ارشادات سے مبرہ، بے چگوں، عقل و فکر، وہم و گمان، عرفان و پہچان سے باہر اور بے کیف ہے  یہ وہ مرتبہ ہے جہاں اس پر مطلق ہونے کا بھی اطلاق نہیں۔ تمام تفصیلات تشخصات مقيدات یعنی اس مرتبے میں ہر قسم کی صفات کی نسبت سے منزہ اور ہے قید سے حتٰی کہ اطلاق کی قید سے بھی پاک ہے___تمام تعینات، تشخصا ت، مقیدات، صفات وجوبیہ کونیہ ملحوظ اور منظور نہیں۔

قیود اعتبارات سے مطلق محض بے رنگ بے صورت اور بے صفت کسی اِسم اوررسم کا اطلاق نہیں ہر چند اس مرتبہ میں ادرک فکر و عقل نے اس کی جستجو میں کوشش کی مگر لا حاصل۔ اِس مرتبہ میں نہ کوئی حامد ہے نہ کوئی محمود، نہ واصف ہے نہ موصوف، نہ عابد ہے نہ معبود، نہ ذاکر ہے نہ مذکور، نہ طالب ہے نہ مطلوب، نہ عاشق ہے نہ معشوق، نہ محب ہے نہ محبوب، نہ کوئی عارف ہے نہ معروف بلکہ ذات محض ہے۔ اِس مقام پر دریافت کریں تو کس کی کریں یہاں تو کسی کا پتہ نہیں چلتا >حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا ارشادِ پاک ہے: “کَانَ اللّٰہُ وَ لَمۡ یَکُنۡ مَعَهُ شَيئٌ” “اللہ تھا اور کوئی شے اس کے ساتھ نہ تھی” تو یہاں کس کی حمد و ثنا کون حامد___ یہ مرتبہ حق سبحان و تعالیٰ کے کنز ہے۔ اِس مرتبہ سے اوپر کوئی مرتبہ نہیں بلکہ جملہ مراتب اس کے تحت ہیں___

اصطلاحات کی تفصیل

قبل نزول: تنزلات کے دوائر شروع ہونے سے قبل کے مرتبہ پر جو اصطلاحات صادق آتی ہیں ان کی تفصیل یہ ہے:

لاتعین : ذات میں یہاں کسی تعین کا اعتبار نہیں۔ نہ اسمائی نہ افعالی ۔

غیب ھویت : عورت ذات خالص کو کہتے ہیں جس میں اسم در سم واقعت و وصف تک کو داخل نہ ہو۔ غیب اس لیے ہے کہ اس مرتبہ میں ذات کا شعور محال ہے۔

غیب الغيوب: یہ مرتبہ جملہ مراتب معقولہ سے بالاتر ہے۔

ازل الآزال : جمله مراتب قدیم الیہ کی انتہا ہے۔ اس سے بالاتر کوئی مرتبہ ہیں۔

عین کافور کافور میں فوری قہر و غلبہ کی وجہ سے دوسری کسی چیز کو حق نہیں اور جو چیز اس میں میں چلی جاتی ہے۔ وہ اس کی صفت اختیار کر لیتی ہے۔ اس مرتبہ میں بھی یہی ہوتا ہے۔

منقطع الوجدانی : یہاں نہ وجدان ذاتی ہے نہ صفاتی بعض جگہ جیم کا نقطہ غائب کر کے منقطع الوحدانی بھی کہہ دیتے ہیں جس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ یقین اول جو کہ وحدت ہے یہاں منقطع ہے۔

منقطع الاشارات : یہاں جملہ امتیازات اٹھ جاتے ہیں اور کسی قسم کے اشارہ کی یہاں گنجائش نہیں۔

مجبول النعت : نعت کہتے ہیں وصف ثبوتی کو اور یہاں وصف ثبوتی یا کسی قسم کا بھی لغوی یا اسمی اعتبار مطلق نہیں۔

الغیب المسكوت عنہ : سکوت ضد ہے کلام کی ۔ اور کلام محتاج ہے اسم ونعت کا، اور یہاں نہ اسم کو دخل ہے، نہ نعت کو نہ کلام کو ۔ بجز سکوت کے یہاں چارہ نہیں۔

ذات ساذج : ساذج معرب ہے سادہ کا۔ یہاں ذات میں کوئی چیز شامل نہیں ۔

ذات بحت : بحت کہتے ہیں خالص کو۔ یہاں ذات خالص از اسم و رسم و نعت و وصف ہے۔

ذات بلا اعتبار : یہاں حملہ اعتبارات و تقیدات گم ہیں۔

مرتبہ الہویت : ذات بحت بحیثیت ھو۔ یعنی ذات جو کہ کامل ہے اپنی ذاتیت میں۔

مزید دیکھیئے

ذات جلالت کی تعریف

 


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں