ماتریدیہ اور اشاعرہ

اہلِ سنت والجماعت کی مسائل اعتقادیہ کے اعتبار سے دو شاخیں ہیں جو ماتریدیہ اور اشاعرہ دو گروہ یا مکتب فکر سے موسوم ہیں۔جو لوگ امور اعتقادیہ میں امام ابومنصور ما تریدی کے طریقہ پر چلتے ہیں وہ ماتریدی کہلاتے ہیں اور جو لوگ مسائل اعتقادیہ امام ابوالحسن اشعری کے پیرو ہیں وہ اشعری اور اشعریہ اور اشاعرہ کہلاتے ہیں ۔

 ان دونوں بزرگوں نے اصول دین اور مسائل اعتقادیہ میں بڑی تحقیق اور تدقیق کی ہے، اور دلائل عقلیہ اور نقلیہ سے عقائد اسلامیہ کو ثابت کیا اور ملحدوں اور زندیقوں کے اعتراضات اور شکوک وشبہات کا عقل ونقل سے ابطال(رد) فرمایا جس سے صحابہ وتابعین کا مسلک خوب روشن ہوگیا۔ اسی واسطے مذہب اہل سنت والجماعت انہی دو بزرگوں میں محصور ہوگیا۔

پہلی شاخ ’’ماتریدیہ‘‘ یا ماتریدی مکتب فکر امام ابومنصور ماتریدی رحمہ اللہ  کی طرف منسوب ہے، جو کہ فقہ اور فروع میں امام ابوحنیفہ  رحمہ اللہ  کے پیروکار تھے، اس لیے عقائد اورکلام کی تعبیرات اور اسلوبِ بیان میں امام ماتریدی رحمہ اللہ  فقہاء احناف کے کلامی ترجمان کے درجہ پر سمجھے جاتے ہیں۔انہوں نے اسلامی عقائد اور دینی حقائق ثابت کرنے کے لیے ابتدائی طور پر معتزلی اور جہمیوں کے مقابلے میں عقلی اور کلامی دلائل پر زیادہ انحصار کیا۔

جبکہ دوسری شاخ ’’اشاعرہ‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ جو امام ابو الحسن اشعری کی طرف منسوب ہے اس مکتب فکرنے معتزلہ کی شدید مخالفت کی اور کوئی تین صد(اکثر مفقود) کتب لکھیں۔ خصوصا شافعیوں میں اس فرقے نے بڑی مقبولیت حاصل کی۔ امام غزالی اسی کے مقلدین میں سے تھے۔ ابوالحسن کو علم کلام کا بانی کہنا جاتا ہے۔ اشاعرہ نے مقابل فرقوں کا چراغ گل کر دیا۔ بعد میں آنے والے علما نے انہی کے اقوال کی تشریح کی ہے۔ غزالی کی تصانیف نے اس فرقے کو بڑی قبولیت بخشی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں