مراتب اصول اور مراتب عبادت پر عروج مکتوب نمبر 30دفتر سوم

مراتب اصول اور مراتب عبادت پر عروج  کے بیان میں سیادت و ارشاد پناه میر محمد نعمان کی طرف صادر فرمایا ہے:۔

 الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ والصلوۃعلى سيد المرسلين الله تعالی کی حمد ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے اورمرسلین کے کردار پر صلوۃ وسلام ہو)۔ 

ابيات پایہ آخر آدم است و آدمی  گشت مرحوم از مقام محرمی

 گرنگر دو باز مسکیں زیں سفر نیست ازوےہیچ کس محروم تر

 ترجمه ابيات آدمی  کا پایا ہے سب سے اخیر ہو گیا محروم سےحق یہ فقیر اس سفر سے گر نہ یہ مسکیں پھرے پھر نہ ہرگز قرب حاصل کر سکے 

جب اللہ تعالی کی عنایت سے سالک آدمی کو اپنے وصول پر کہ وہ خود آپ جن کاظل ہے عروج واقع ہو۔ تو ان اصول میں سے ہر ایک اصل میں اول اس کوفنا اور پھر ا س فنا کے بعداسی اصل کے ساتھ بقاء حاصل ہوگی اور اس فناء و بقا سے ان کی انانیت کا اطلاق اس ظل سے دور ہو کراس اصل پر جس میں اسکو کوفناء و بقا حاصل ہوا ہے اطلاق پائے گا اور اپنے آپ کو وہی اصل جانے لگا۔ اس طرح اللہ تعالی کے کرم سے جب اصل سے عروج واقع ہو جائے تو اس اصل میں جو اس پہلے اصل کے اوپر ہے اور وہ پہلا اصل اس دوسرے اصل کاظل ہے۔ اس پہلی اصل کافناء و بقاء حاصل کر لے گا اور اصل سے انا کا اطلاق زائل ہو کر دوسرے اصل سے جائے گا اور اپنے آپ کو وہی اصل ثانی معلوم کرے گا۔ اگر اصل ثانی نے عروج (عروج سے مراد سالک کا حق تعالی کی ذات و صفات عالیہ کے مشاہدہ میں مستغرق ہو جانا اور مخلوق سے منقطع ہونا ہے)  واقع ہوجائے تواصل ثانی کو تیسرے اصل کے ساتھ وہی نسبت ہوگی۔ جو اول کو دوسرے کے ساتھ ہے یعنی  عروج    واقع ہونے کے بعد ان کا اطلاق اس تیسرے اصل پر قرار پائے گا۔ جس کا کل دوسرا اصل ہے۔ اسی طرح اگر محض فضل خداوندی سے عروج    واقع ہوتا جائے تو ہر ایک نیچے والے اصل میں جو اوپر کے اصل کے لئےظل کی طرح ہے یہی نسبت موجود ہوگی۔ لیکن جوں جوں ظل سے اصل تک پہنچتا جائے گا ہر ظل سے ان کا اطلاق دور ہو کر اس کے اصل کے ساتھ ساتھ قرار پاتا جائے گا اور اپنے آپ کووہی اصل معلوم کرتا جائے گا۔ إلى ما شاء الله تعالى على تفاوت مراتب الإستعداد (جہاں تک اللہ تعالی کو منظور ہو استعداد کے مرتبوں کے تفاوت کے بموجب) اور یہ اصول باوجود اس کثرت اور رفعت کے ظل اول یعنی سالک آدمی  کے اجزاء ہوں گے۔ جس طرح قطرہ سے دریا بہا دیں اور تنکے کا پہاڑ بنا دیں۔ جب یہ اصول اس کے اجزاء ہوں گے تو ان کے کمالات و برکات سے بھی اس کو کامل حصہ حاصل ہو گا اور اس کا کمال ان اجزا کے تمام کمالات کا جامع ہوگا۔ اس بیان سے انسان کامل اور باقی انسانی افراد کے درمیان فرق معلوم کر سکتے ہیں کہ انسان کامل دریا ئے محیط کی طرح ہے اور باقی تمام افراد انسان ناچیز قطروں کی طرح۔ پھر یہ اس کو کس طرح پہچان سکتے ہیں اور اس کے کمال کو کیا پا سکتے ہیں۔ کسی نے کیا اچھا کہا ہے۔

ُُالہی چیست اینکہ اولیائے خود راکردی کہ ہر ایشاں را شناخت ترا یافت و تاترا نیافت ایشاں  رانشانختٗٗ

 الہی یہ کیا ہے جو تو نے اپنے دوستوں کو عطا کیا ہے کہ جس نے ان کو پہچانا۔ اس نے تجھ کو پالیا اور جب تک تجھ کو نہ پایا ان کونہ پہچانا۔ جس طرح انسان کامل اور انسان ناقص کے درمیان اجزا کی کمی وبیشی کی رو سےتفاوت ہے اسی طرح ان کے طاعات حسنات میں بھی اس کمی بیشی کے موافق فرق ہے۔ اس شخص کے ساتھ جس کو سوز بانیں دیں اور وہ ہر ایک زبان کے ساتھ خدا کو یاد کرے اس شخص کی کیا نسبت ہوگی۔ جس کو صرف ایک ہی زبان دی اور وہ صرف ایک ہی زبان سےخدا کو یاد کرے۔ ایمان اور معرفت اور تمام کمالات کو اسی پرقیاس کرنا چاہیئے۔ رَبَّنَا ‌أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ یالله تو ہمارے نور کو پورا کر اور ہم کو بخش تو ہر چیز پر قادر ہے) الحمد لله اولا واخرا والصلوة والسلام على رسوله دائما وسرمدا و على اله الكرام وصحبہ  العظام الی یوم القیام۔ 

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر سوم صفحہ105ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں