صوفیائے کرام نے مشاہدین کی تین قسمیں بیان کی ہیں :
(1) ذوالعین : یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو ہر شے کو قائم بحق دیکھتے ہیں بلکہ حق کو محسوس اور خلق کو معقول پاتے ہیں۔ وہ ہر شے سے قبل حق کی یافت کرتے ہیں۔ ان کا مقولہ ہوتا ہے ما رایت شیئا الا ورایت الله قبلہ ۔ یہ لوگ صاحبان مشہود ہوتے ہیں اور حق کو ظاہر
اور خلق کو باطن دیکھتے ہیں۔
(2) – ذو العقل : یہ حضرات ذوالعین کا عکس ہوتے ہیں، یہ خلق کو ظاہر اور حق کو باطن دیکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک حق آئینہ ہوتا ہے خلق کا ۔ آئینہ میں جب کوئی چیز نظر آتی ہے توآئینہ کا اتنا حصہ نظر نہیں آتا جتنے حصہ پر شے کا عکس پڑتا ہے۔ چونکہ حقیقت پردہ کائنات میں مستتر ہے اس لیے نظر پہلے نقاب ہی پر پڑتی ہے اس کے بعد شاہد رعنا کے رخ انور کی زیارت ہوتی ہے
جوزپر نقاب ہے۔ ان حضرات کا مقولہ ہوتا ہے ، ما رایت شیئا الا ورایت الله بعده.
(3)- ذو العقل والعین : یہ مشاہدین کی تیسری قسم ہے جو حق کو خلق اور خلق کو حق دیکھتے ہیں یعنی انہیں ایک کا مشاہدہ دوسرے کے مشاہدے سے محتجب نہیں کرتا بلکہ وجود واحد کو وہ من وجہ حق اور من وجہ خلق دیکھتے ہیں۔ ان حضرات کا مقولہ ہوتا ہےما رایت شیئا الا ورایت الله معه یہاں بحکم اتحاد مُظہر و مَظہر خارج میں بھی عاشق و معشوق ایک دوسرے سے امتیاز نہیں رکھتے۔ اگرچہ عقل ان میں امتیاز کا حکم دیتی ہے ۔
ذو العینی اگر نور حقت مشهود است
ذو العقلی اگر شهود حق مفقود است
ذو العینی و ذو العقلی زشهود حق و خلق
با یک دگر از ہر دو ترا موجود است
(جائی) (اگر تجھے نورحق کا مشاہدہ حاصل ہے تو تو ذوالعین ہے ۔ اور اگر مشاہدہ حق سے محروم ہے تو تو ذو العقل ہے۔ اور اگر تو حق وخلق دونوں کو با یک دگر دیکھتا ہے تو تو ذو العین بھی ہے اور ذو العقل بھی)
بعض سلاسل میں ان تین قسم کے مشاہدوں کو دو اقسام میں منحصر کر دیا گیا ہے یعنی مشاہدہ ذوالعین کو مشاہد حقیقت قبل مشاہدہ تعین“ قرار دے کر مشاہد ہ صدیقی کا نام دیا گیا ہے اور مشاہدہ ذوالعقل اور مشاہدہ ذو العقل والعین کو ملاکر مشاہدہ حقیقت مع مشاہدہ تعین یا بعد مشاہدہ تعین” قرار دے کر مشاہدہ عثمانی کا نام دیا گیا ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ یہاں معتبر اور اصل مشاہدہ حق کو سمجھا گیا ہے۔
ما رایت شیئا الا ورایت الله قبلہ کو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کا اور ما رایت شیئا الا ورایت الله بعدہ کو حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کا قول کہا گیا ہے۔ ۔ تصوف کی کتب متد اولہ میں کسی کا نام لیے بغیر ان اقوال کے اقوال صوفیہ کی حیثیت سے نقل کیا جاتا ہے۔