اکتیسواں مراقبہ: نیت مراقبہ حقیقت ابراہیمی علیہ السلام

نیت مراقبہ حقیقت ابراہیمی علیہ السلام

فیض می آیداز ذات بیچون کہ محب صفات خود است و منشاء حقیقت ابراہیمی علیہ السلام است بہ ہیئت  وحدانی من بواسطہ پیران کبار رحمۃاللہ علیہم اجمعین

ذات باری تعالیٰ  کی طرف سے  جو  اپنی صفات کی محب  اور حقیقت ابراہیمی  علیہ السلام  کا منشاء ہے عظیم مرشدین گرامی   اللہ تعالیٰ ان پر رحمتیں نازل فرمائےکے وسیلہ جلیلہ  سے  میری   ہیئت وحدانی  میں فیض  آتا ہے۔

تشریح

  مراقبہ معبودیت صرفه پر حقائق الہیہ کی سیر ختم اور مراقبہ حقیقت ابراہیمی سے حقائق انبیاء علیهم السلام میں سالک کی سیر شروع ہوتی ہے حقائق الہیہ میں سالک  کی ترقی محض فضل الہی پر مبنی تھی یہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وفورمحبت پر موقوف ہے ۔

یہ مقام بہت بلند ہے۔ یہاں تمام انبیا علیہم السلام ملت ابراہیم علیہ السلام پر مامور ہیں۔ اس جگہ درود ابرا ہیمی زیادہ سے زیادہ پڑھنا چاہئے۔

یہ حقیقت ابراہیمی کا مقام ہے اس مقام کے بہت سے انوار و اسرار ہیں اس مقام عالی شان میں اللہ تعالی کی ذات سے خاص انس و قرب اس طرح پیدا ہوتا ہے جس طرح اللہ تعالی اپنی ذات کو دوست رکھتا ہے ۔ ویسے ہی اپنی صفات و افعال کو بھی دوست رکھتا ہے ۔ کمالات صفاتی اور محبوبیت اسمائی کا ظہور حضرت ابراہیم علیہ السلام میں ہے یہاں سا لک حقیقت ابراہیمی اور مقام خلت کی سیر کرتا ہے ۔ اسی انس وموانست کا ظہور حقیقت ابراہیمی میں ہوا ۔ اس لیے آپ کو لقب خلیل اللہ رکھا گیا۔ یہ مقام نہایت عجیب وغریب اور کثیر البرکات ہے ۔اس مقام کی نسبت کمالات ثلاثہ(کمالات نبوت ۔کمالات رسالت ۔کمالات اولوالعزم) سے بھی زیادہ بلند و بالا تر اور وسیع ولطیف ہے ۔ جمیع انبیاء کرایم علیھم السلام اس مقام میں حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے تابع ہیں ۔ یہاں تک کہ آنحضرتﷺ کو بھی اتباع ابراہیمی کا حکم دیا گیا ہے ۔ جیسا کہ اتبع ملت ابراهيم حنيفا سے ثابت ہے اور درودابرا ہیمی اس پر شاہد ہے ۔ درودابراہیمی کی کثرت اس مقام میں ترقی بخش ہے ۔

اس مقام کے سالک کو اللہ جل شانہ کے ساتھ ایسا انس پیدا ہوتا ہے کہ وہ غیر اللہ کی طرف رخ نہیں کرتا اگر چہ وہ اسماء وصفات الہیہ ہی کیوں نہ ہوں ۔ نہ ہی وہ غیر سے مدد طلب کرنا پسند کرتا ہے ۔ جیسا کہ حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو آتش نمرود میں ڈالا جا رہا تھا۔ آپ منجنیق سے چھوٹ چکے تھے۔ اور آگ میں گرنے کے قریب تھے کہ جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا کیا ابراہیم علیہ السلام میری مدد کی ضرورت ہے؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ جبرائیل علیہ السلام تم خود آئے ہو یا کسی کے حکم پر جواب ملا کہ میں خود آیا ہوں ۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا مجھے تمہاری مدد کی ضرورت نہیں ۔ جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا کہ اللہ تعالی سے عرض کروں آپ علیہ السلام نے فرمایا: اللہ تعالی کو میرے اس حال کی خبر ہے ۔اس لیے اس کی بھی ضرورت نہیں تم میری راہ سے ہٹ جاؤ ایسے نازک وقت میں بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسبت قرب وانس کا پتہ چلتا ہے۔ بالاخر آپ آگ میں جھونک دیئے جاتے ہیں ۔  آتش نمرود نے گلزار ابراہیمی علیہ السلام کی شکل اختیار کر لی سالک کو اس مقام میں اسی نسبت ابرا ہیمی علیہ السلام سے فیض حاصل ہوتا ہے ۔ اس عالی مقام میں جو کیفیت حاصل ہوتی ہے وہ دوسرے مقامات میں کیفیت و خصوصیت حاصل نہیں ہوتی ۔ اگر چہ فضل جزوی ہوتا ہے ۔ اور اس مقام میں محبوبیت صفاتی جلوہ گر ہوتی ہے اور حقیقت محمدی ﷺ واحمدی ﷺ میں محبوبیت ذاتی ہے۔ محبوبیت صفاتی مثل خط و خال اور قد و عارض ہے اس لیے اس مقام میں زیادہ بے رنگی نہیں جبکہ ذاتی محبوبیت کا مقام بہت بلند ہے ۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں