سلاسل طریقت اربعہ کا تعارف

سلاسل طریقت اربعہ کا تعارف

وہ  چار سلاسل جنہوں نے اپنی زریں خدمات کی بناء پر بڑی شہرت اور مقبولیت حاصل کی.

سلسلہ نقشبندیہ

سلسلہ چشتیہ

سلسلہ قادریہ

سلسلہ سہروردیہ
ہیں اگرچہ بعد میں بھی کچھ سلاسل بنے ہیں, مگر بعد والے انہیں  سلاسل اربعہ کی ذیلی شاخیں ہیں

نقشبندیہ چشتیہ،  قادریہ، سہر وردیہ، اصولاً سب متحد ہیں کہ اصل مطلوب تصیح اخلاق فاضلہ اور تکمیل تہذیب اخلاق حمیدہ اور رضا الہی مطلوب ہے ۔

اختلاف صوفیاء کی حکمت

حديث اخْتِلَافُ أُمَّتِي رَحْمَةٌ (میری امت کا اختلاف بھی رحمت ہے)کے مصداق اختلاف ایک فطری حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔ لیکن اس میں اعتدال و توازن کا حسین و جمیل امتزاج ایک خوبصورت روپ دھار لیتا ہے ۔ جیسے مجتہدین شریعت کے ہاں عبادات و معاملات وغیر ہا کے متعلق مختلف مذاہب ہیں ایسے ہی مجتہدین طریقت کے باطنی اخلاق و اعمال کی اصلاح و درستی کے متعدد سلاسل ہیں اور یہ سب راہ اعتدال اور جادہ مستقیم پر گامزن ہیں جو ہر قسم کی نفسانی خواہشات اور ذاتی مفادات سے پاک ہیں اس لئے ان کا اختلاف رضائے الہی کے لئے اخلاص و للہیت پر مبنی ہوتا ہے۔ جملہ سلاسل طریقت کا مقصود و مطلوب ذات حق جل جلالہ کا وصول اور رضائے حق کا حصول ہے البتہ حق تعالیٰ کے وصول و حصول کے طرق مختلف و متعدد ہیں جیسا کہ مقولہ طُرُقُ الْوُصُولِ إِلَى اللهِ بِعَدَدِ انْفَاسِ الْخَلائِق (اللہ تعالی تک پہنچنے کے راستے مخلوق کی سانسوں کی تعداد کے برابر ہیں)سے ثابت ہے۔
یونہی جملہ مجتہدین طریقت اور جمیع علمائے حقیقت اس امر پر متفق ہیں کہ وصول الی الله متابعت نبوی ﷺ پر موقوف ہے جیسا کہ آیہ کریمہ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ (میری اتباع کرو اللہ تم سے محبت کریگا ) سے واضح ہے۔ حضور اکرم ﷺ اپنی فردیت کا ملہ اور جامعیت کبری کی بدولت تمام انوار و تجلیات کے مورد اور فیوض و برکات کے مصدر ہیں ۔ جب صوفیائے کرام متابعت نبوی ﷺ میں وصول الی اللہ کے مراتب کی طرف گامزن ہوتے ہیں تو حضور اکرم ﷺ کی فردیت کا ملہ کی کوئی جہت اور حقیقت محمد یہ ﷺ کی کوئی تجلی ان کے قلوب پر منعکس ہوتی ہے تو اس جہت یا تجلی سے اس سالک وصوفی کو ایک خاص باطنی تعلق پیدا ہو جاتا ہے جسے صوفیاء کی اصطلاح میں نسبت کہتے ہیں ۔ یہ خاص باطنی نسبت اس صوفی کے منتسبین و مریدین میں اتباع سنت و شریعت کی برکت سے ظہور پذیر ہوتی رہتی ہے۔ سلاسل اولیاء میں نسبتوں کی یہی صورت اختلاف صوفیاء کی بنیاد ہے۔ اصولی اور بنیادی طور پر تمام صوفیاء متحد الاصل ہیں ۔ البتہ حصول مقصود کے طرق و معالجات میں قدرے اختلاف ہے جس کی بناء پر صوفیاء میں مخصوص مکاتیب فکر قائم ہوئے ۔ اس لئے وہ اپنی نسبتوں اور طبیعتوں کے میلان سے مجبور ہو کر ایک جانب عملاً مائل ہوتے ہیں اور دوسری جانب سے طبعاً گریز کرتے ہیں ۔ نسبت علاقہ بین الطرفین کا نام ہے ۔ نسبت سے مراد وہ ملکہ راستہ محمودہ ہے جوسالک اکتساب سے حاصل کرتا ہے اور وہ ملکہ اس کی روح کو جمیع جہات سے احاطہ کر لیتا ہے اور اس کی صفت لازمی بن جاتا ہے اور اس کا مرنا جینا اس پر واقع ہوتا ہے۔ سلاسل کی نسبتوں کے متعلق حضرت سید نور الحسن عرف نورمیاں رحمۃ اللہ علیہ (جوحضرت مولانا فضل الرحمان گنج مراد آبادی کے صاحبزادے حضرت احمد میاں کے خلیفہ تھے ) نے جو نہایت اہم امور بیان فرمائے ہیں وہ ملخصا ہدیہ قارئین ہیں ۔

نسبت سلاسل

سلسلہ نقشبندیہ : بزرگان نقشبندیہ میں نسبت صدیقی کا ظہور ہے ۔ معاملات صدیقی کی وجہ سے یہ طریقہ اَقْرَبُ الطُّرُقْ(نزدیک ترین راستہ) اور سَهْلُ الْوُصُول (پہنچنے میں سب سے آسان)ہے ۔ سیدنا صدیق اکبر کی نسبت ابراہیمی تھی اور ارشاد نبوی مَاصَبَ اللهُ فِي صَدْرِى شَيْئًا إِلَّا وَ قَدْ صَبَّبْتُهُ فِي صَدْرِ أَبِي بَكْرٍ کے مطابق آپ کو سرور عالمﷺ کی ضمنیت کبری حاصل تھی۔ اس لئے اس نسبت کا فیض ، القاء سینہ بہ سینہ ہے جو سالار طریقت حضرت شاہ نقشبند سے شائع ہوا اور نسبت معیت روشن ہوئی ۔ حضرت خواجہ بہاؤ الدین نقشبند رحمۃ اللہ علیہ کے پیر و مرشد حضرت خواجہ امیر کلال رحمۃ اللہ علیہ تک ذکر خفی کو ذکر جہری کے ساتھ جمع کرنے کا رواج تھا لیکن جب حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ حضرت خواجہ عبد الخالق غجد وانی رحمۃ اللہ علیہ سے بطریق اویسیت مستفیض ہوئے تو آپ نے دوبارہ اس سلسلے میں ذکر خفی کو جاری کیا۔

سلسلہ چشتیہ بزرگان چشتیہ میں خاص طور پر نسبت علوی کا ظہور ہے ۔ ارشاد نبوی عَلى مِني وَاَنَا مِنْ عَلَي(علی مجھ سے ہےمیں علی سے ہوں) (سنن الترمذی) کے موافق فیض عینیت اس طریقے میں بہت ہے اور فنافی الشیخ کا بھی یہی منشاء ہے ۔ حضرت سید نا علی المرتضیٰ عنہ کی نسبت عیسوی تھی ۔ آیہ کریمہ و نَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُوحی کی مناسبت سے چشتیہ کا درد بے سماع آرام پذیر نہیں ہوتا ۔
سلسلہ قادریہ : بزرگان قادریہ میں نسبت فاروقی کا ظہور ہے ۔ امیرالمؤمنین سیدنا فاروق اعظم ﷺ کی نسبت موسوی تھی۔ اسی بناء پر جلالت الہیہ اور تصرفات عظیمہ اس سلسلے کی مناسبت ہے جو حضرت سیدنا غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے ظہور پذیر ہوئی۔
سلسلہ سہروردیہ: بزرگان سہروردیہ میں نسبت عثمانی کا ظہور ہے اور امیر المؤمنین سیدنا عثمان غنی نے کی نسبت نوحی تھی۔ حضرت سیدنا نوح علیہ السلام کی دعوت کو قبولیت کم ہوئی اور امت نے اذیت پہنچائی ، حضرت عثمان بھی شہید ہوئے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس سلسلے کا رواج بھی کم ہے البتہ اس طریقے میں عبادات اور تعمیر اوقات کی طرف بڑا التفات ہے
تصریحات بالا سے معلوم ہوتا ہے کہ طریقت کے چاروں بڑے سلسلے خلفائے اربعہ کی نسبتوں کے مظاہر ہیں اور سالکین کا سلوک انہی چار طریقوں پر واقع ہے حضرت امام ربانی قدس سرہ نے رسالہ مکاشفات عینیہ میں اس کی وضاحت فرمائی ہے۔ یہ امر بھی ملحوظ رہے کہ قرب الہی کے لئے دو راستے ہیں ۔

قرب نبوت قرب ولایت

پہلا راستہ قرب نبوت کا ہے. دوسرا راستہ قرب ولایت کا ہے ۔
قرب نبوت کا فیض حضرت سیدنا صدیق اکبر کے واسطے سے حاصل ہوتاہے۔
قرب ولایت کا فیض حضرت سید نا علی المرتضی کے وسیلے سے ملاتا ہے ۔
باقی دونوں خلفاء ( حضرت فاروق و عثمان رضی اللہ عنھما ) بھی قرب نبوت کے سلوک سے وابستہ ہیں۔ چنانچہ حضرت صدیق اکبر کا سلوک میں انفسی سے تعلق رکھتا ہے اور حضرت علی المرتضیٰ کا سلوک سیر آفاقی سے تعلق رکھتا ہے ۔ گو دونوں سلوک مشکوۃ انوار نبوت سے مقتبس ہیں لیکن دونوں حضرات کے ساتھ علیحدہ علیحدہ طور پر مخصوص ہو گئے ہیں۔ دوسرے سلاسل ( قادریہ، سہروردیہ اور چشتیہ وغیر ہا ) اکثر طور پر حضرت علی رضی اللہ عنھم کے طریق قرب ولایت کے ذریعے مقصود تک پہنچتے ہیں جبکہ سلسلہ نقشبند یہ دونوں طریقوں ( قرب نبوت اور قرب ولایت ) سے موصل ہے لیکن قرب نبوت کی نسبت اس میں غالب ہے ۔ تمام سلسلوں کے اکابر مشائخ ابتدائی دور میں اس نسبت کا سلوک طے کر کے مقصود تک پہنچتے رہے مگر بعد میں جب حضرت علی نے کے مسلک کا شیوع ہوا تو اکثر مشائخ نے اس مسلک کو اختیار کر لیا اس کی دووجہیں تھیں ۔
پہلی وجہ یہ کہ حضرت صدیق اکبر کے مسلک میں پوشیدگی و خفا کی وجہ سے مبتدی کو اس پر چلانا دشوار تھا
جیسا کہ عارف جامی نے فرمایا:
نقشبنداں عجب قافله سالارنند که برند از ره پنہاں بحرم قافله را
اسی طرح حضرت فاروق اور حضرت عثمان (رضی اللہ عنھما) کے مسلک میں پوشیدگی تھی ان پر چلنا بھی آسان نہ تھا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مسلک ظہور رکھتا تھا۔ لہذا آسان ہونے کی وجہ سے یہی مسلک ظاہر زیادہ شائع ہوا ۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا زمانہ ارشاد تینوں خلفاء کرام رضی اللہ عنہم سے پیچھے ہے ۔ لہذا سلاسل کا انتساب قرب زمانہ کی بناء پر انہی کے ساتھ ہوا ۔
اس سے یہ مفہوم ہرگز اخذ نہ کیا جائے کہ تسلیک و تکمیل حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ مخصوص و منحصر ہے اور خلفائے ثلاثہ غیر مکمل تھے (نعوذ باللہ منہا) یہ بہت بڑی جسارت ہے جن لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوئی انہوں نے صرف حضرت سید نا علی رضی اللہ عنہ کے مسلک پر سلوک طے کیا اور خلفائے ثلاثہ کی راہوں سے بے خبر رہے اور اسی بے خبری میں دوسری راہوں کی نفی کر دی۔ رسالہ مکاشفات عینیہ میں حضرت امام ربانی رحمۃ اللہ علیہ نے وضاحت فرمائی ہے کہ حضرت سیدنا غوث الثقلین شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت شیخ ابو سعید خراز رحمۃ اللہ علیہ حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے مسلک سے سلوک طے کر کے ترقی کرتے ہوئے غیب ذات تک پہنچے ہیں۔


ٹیگز

سلاسل طریقت اربعہ کا تعارف” ایک تبصرہ

  1. ماشاءاللہ جی خوش ہوا عمدہ بہت عمدہ مجہے ایک دن خواب میں موسی علیہ السلام کا قرب حاصل ہوا کہ میری بنیادی نسبت قادری ہے اسکو پرہ کر یاد آگیا

اپنا تبصرہ بھیجیں