کسی مظہر کا دیکھنا عروج  کا زینہ مکتوب نمبر 61دفتر سوم

 اس بیان میں کہ کبھی عارف کے لیے کسی مظہر کا دیکھنا عروج  کا زینہ بن جاتا ہے۔ مخدوم زادہ حضرت خواجہ محمد سعید مد ظلہ کی طرف صادر فرمایا ہے:۔ 

جب عارف کا معاملہ حق تعالیٰ  کی صرف ذات سے آپڑتا ہے اور تمام نسبتیں اور اعتبارات ساقط ہو جاتے ہیں تو اس مقام میں عروج (عروج سے مراد سالک کا حق تعالیٰ  کی ذات و صفات عالیہ کے مشاہدہ میں مستغرق ہو جانا اور مخلوق سے منقطع ہونا ہے)  مشکل ہو جاتا ہے اور بغیر تعلق و علاقہ کے دشوار دکھائی دیتا ہے اس وقت بھی ایسا ہوتا ہے کہ النظرة الأولى لک پہلی بار کا دیکھنا تیرے لیے ہے) کے موافق پہلی نگاه جو مظاہر جمیلہ سے تعلق رکھتی ہے اس مقام میں مدد کرتی ہے اور جلدی اوپر لے جاتی ہے اورمجاز سے جو حقیقت کا پل(قنطرۂ حقیقت) ہے حقیقت تک پہنچا دیتی ہے۔ اس وقت دوسری نظر سے جس کے بارہ میں النظرة الثانية عليک (دوسری نظر تیرے لیے وبال ہے) آیا ہے بچنا لازم ہے کیونکہ مضروز ہر قاتل ہے پھر امداد و اعانت کیا متصور ہوگی ما جعل الله في الحرام شفاء (حرام میں اللہ تعالیٰ  نے کوئی شفا نہیں رکھی ) محسوس ہوا ہے کہ اگر طمع خام سے نظر ثانی واقع ہوئی ہے تو سنگ و کلوخ(پتھر ومٹی) کی طرح خالی معلوم ہوئی ہے جن لوگوں نے دوسری اور تیسری اور چوتھی نظروں کو جو مظاہر جمیلہ سے تعلق رکھتی ہیں مفید جانا ہے اور حقیقت کی طرف عروج    کرنے کے اسباب میں سے خیال کیا ہے سب استدراج کی قسم سے ہیں اور وہ حقیقت کہ جس کی طرف عروج    کرتے ہیں عالم مجاز سے ہے آیت کر یہ قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ ‌يَغُضُّوا مِنْ أَبْصارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ( مومنوں کو کہہ دو کہ اپنی آنکھوں کو ڈھانپیں اور اپنی شرمگاہوں کو نگاہ رکھیں) ان لوگوں کے رد میں کافی ہے کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اس  مقام میں قرب و جوار کی ظلمتیں نفع دیتی ہیں اور ہمسائیوں کا کفر فسق امداد کرتا ہے جس قدر یہ ظلمت زیادہ ہو اسی قدر امدادزیادہ کرتی ہے اس کا مطلب یہ نہیں جو کہتے ہیں کہ فیوض وارده ان لوگوں پر جوغفلت کی ظلمت میں غرق ہیں ان کی ناقابلی کی وجہ سے نہیں پہنچتے بلکہ اس شخص کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جو ان کے قرب و جوار میں حضور ہو اور وہ شخص دوسروں کے فیض سے ترقیاں کرتا ہے ایسا نہیں کیونکہ اس عارف کے بلند درجہ کے باعث کہہ سکتے ہیں کہ وہ فیوض واردہ اس کے گرد نہیں پہنچ سکتے چہ جائیکہ اس کے عروج  میں امداد کرسکیں ان بزرگواروں کا کارخانہ بلند ہے وہاں ہرعمل وفیض نافع نہیں بلکہ وہاں ایک ایسا پوشیده ستر ہے جو انہیں حال والوں پر منکشف ہوتا ہے صرف اس قدر بیان کرنا ضروری ہے کہ نور کے کمال ظہور کے لیے ظلمت بھی درکار ہے۔ آپ نے سنا ہی ہوگا وَبِضِدِّھَا تَتَبَيَّنُ الْأَشْيَاءُ (اور چیزیں اپنی ضدوں ہی سے پہچانی جاتی ہیں)اور چونکہ ظلمت کا ارتکاب ممنوع ہے اس لیے کمال کرم سے جوار کی ظلمت کو بھی باعتبار اور معتبر جانا ہے اور نور کے ظہور میں جو نور الانوار ہے نافع ثابت کیا ہے اگر کہیں کہ اطاعات و عبادات خصوصا ادائے فرائض اس میں کیوں نافع نہیں اور عروج کیوں نہیں کرتیں تو میں کہتا ہوں کہ کیوں نافع نہیں اور کیوں عروج کی امداد نہیں کرتیں لیکن وہ معتد بہ نفع و امداد جو پہلے متحقق ہوتا تھا اس وقت حاصل نہیں ہوتا اور اسباب خارجی وغیرہ کی طرح جو اوپر مذکور ہو چکے ہیں نافع نہیں ہیں وَاللَّهُ  سُبحَانَه أَعْلَمُ ‌بِحَقِيقَةِ ‌الْحَالِ (حقیقت حال کو اللہ تعالیٰ  ہی جانتا ہے) سُبۡحَٰنَكَ لَا عِلۡمَ لَنَآ إِلَّا مَا عَلَّمۡتَنَآۖ إِنَّكَ أَنتَ ٱلۡعَلِيمُ ٱلۡحَكِيمُاللہ تو پاک ہے ہم کو کوئی علم نہیں مگر جس قدر تو نے ہم کو دیا تو جاننے والا اور حکمت والا ہے)

وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى (سلام ہو اس شخص پر جس نے ہدایت اختیار کی )

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر سوم صفحہ179ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں