کمالات انبیاء، کمالات رسالت اور کمالات الوالعزم

کمالات انبیاء، کمالات رسالت اور کمالات الوالعزم

اسم باطن کی تجلیات کا فیض حاصل کرنے کے بعد اگر اللہ تعالی کا فضل شاملِ حال رہے تو ان کمالات کی سیر ہوتی ہے جو اصل میں تو انبیاء اور رسولوں کے لئے خاص ہیں البتہ انبیائے کرام کی پوری پوری پیروی کرنے والوں کو بھی ان کی پیروی کی برکت سے ان کمالات میں سے کچھ حصہ مل جاتا ہے ۔

عنصر خاک کی اصلاح

سب سے پہلے دائرہ کمالات نبوت ہے دوسرا دائرہ کمالات رسالت ہے اور تیسرا دائرہ کمالات الوالعزم ہے اصل میں دائرہ کمالات نبوت کے مرکز میں دائرہ کمالات رسالت ہے اور دائرہ کمالات رسالت کے مرکز میں دائرہ کمالات الوالعزم شروع ہوتا ہے مندرجہ بالا تینوں مراقبات میں انسان کے عنصر خاک کی اصلاح ہوتی ہے

کمالات انبیاء

نبوت ایک عطیۂ ربانی ہے جس کی حقیقت تک رسائی غیر نبی کو نہیں ہوسکتی، اس کی حقیقت کو یا تو حق تعالیٰ جانتا ہے جو نبوت عطا کرنے والا ہے یا پھر وہ ہستی جو اس عطیہ سے سرفراز ہوئی۔ مخلوق بس اتنا جانتی ہے کہ اس اعلیٰ وارفع منصب کے لیے جس شخص کا انتخاب کیا گیا ہے وہ:
1…معصوم ہے ، یعنی نفس کی ناپسندیدہ خواہشات سے پاک صاف پیدا کیا گیا ہے اور شیطان کی دسترس سے بالاتر۔ عصمت کے یہی معنی ہیں کہ ان سے حق تعالیٰ کی نافرمانی کا صدور ناممکن ہے۔
2…آسمانی وحی سے ان کا رابطہ قائم رہتا ہے اور وحی الٰہی کے ذریعہ ان کو غیب کی خبریں پہنچتی ہیں۔ کبھی جبریل امین کے واسطہ سے اور کبھی بلا واسطہ ،جس کے مختلف طریقے ہیں۔
3…غیب کی وہ خبریں عظیم فائدہ والی ہوتی ہیں اور عقل کے دائرے سے بالاتر ہوتی ہیں، یعنی انبیاء  علیہم السلام  بذریعہ وحی جو خبریں دیتے ہیں ان کو انسان نہ عقل وفہم کے ذریعہ معلوم کرسکتا ہے نہ مادی  آلات وحواس کے ذریعہ ان کا علم ہوسکتا ہے۔

ان تین صفات کی حامل ہستی کو مخلوق کی ہدایت کے لیے مبعوث ومامور کیا جاتا ہے، گویا حق تعالیٰ اس منصب کے لیے ایسی شخصیت کا انتخاب فرماتا ہے جو افراد بشر میں اعلیٰ ترین صفات کی حامل ہوتی ہے، اس انتخاب کو قرآن کریم کہیں ’’اجتبائ‘‘ سے ،کہیں ’’اصطفاء ‘‘سے اور کبھی لفظ ’’اختیار‘‘ سے تعبیر فرماتا ہے، یہ عام صفات وخصوصیات توہر نبی ورسول میں ہوتی ہیں، پھر حق تعالیٰ ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت عطا فرما کروہ درجات عطا کرتا ہے جن کے تصور سے بھی بشر قاصر ہے، گویا نبوت، انسانیت کی وہ معراج کمال ہے جس سے کوئی بالاتر منصب اور کمال عالمِ مکان میں نہیں، ان صفاتِ عالیہ سے متصف ہستی کو ہدایت واصلاح کے لیے مبعوث کر کے انہیں تمام انسانیت کا مطاعِ مطلق ٹھہرایا جاتا ہے، ارشاد ہے: ’’وَمَاأَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ إِلَّا لِیُطَاعَ بِإِذْنِ اللّٰہِ‘‘ (النسائ:64) یعنی ’’ہم نے ہر رسول کو اسی لیے بھیجا کہ اس کی اطاعت کی جائے اللہ کے حکم سے۔‘‘ پس حکمِ خداوندی یہی ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے، وہ مطاع اور واجب الا طاعت متبوع ہے، اور امت اس کی ہدایت کے تابع اور مطیع فرمان۔

کمالات رسالت

خاتمیت ایک جنس ہے جس کی دو قسمیں ہیں ایک زمانی اور دوسرے رتبی۔ خاتمیت زمانیہ کے معنی یہ ہیں کہ حضور پر نور سب سے اخیر زمانہ میں تمام انبیا کے بعد مبعوث ہوئے اور اب آپ کے بعد قیامت تک کوئی نبی مبعوث نہ ہوگا اور خاتمیت رتبہ کے معنی یہ ہیں کہ نبوت و رسالت کے تمام کمالات اور مراتب حضور پر نور ﷺ پر ختم ہیں اور حضور پر نور ﷺ دونوں اعتبار سے خاتم النبیین ہیں زمانہ کے اعتبار سے بھی اور مراتب نبوت اور کمالات رسالت کے اعتبار سے بھی خاتم ہیں۔ حضور ﷺ کی خاتمیت فقط زمانی نہیں بلکہ زمانی اور رتبی دونوں قسم کی خاتمیت حضور ﷺ کو حاصل ہے اور حضور ﷺ کی خاتمیت زمانیہ قرآن اور حدیث متواتر اور اجماع امت سے ثابت ہے جس پر ایمان لانا فرض ہے اور حضور ﷺ کی خاتمیت زمانیہ کا منکر ایسا ہی کافر ہے۔ جیسا کہ رکعات نماز کا منکر کافر ہے۔

کمالات الوالعزم

اولو العزم اللہ کے بعض پیغمبروں کو کہا جاتا ہے۔ اراده،پکا ارادہ اور عہد سمیت اسکے کئی معانی ذکر ہوئے ہیں۔ یہ لفظ قرآن میں صرف ایک مرتبہ سورہ احقاف میں آیا ہے۔ارشاد ہے: فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أُوْلُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ…  اولوا العزم انبیا کی تعداداورانکی رسالت کے جہانی ہونے میں مختلف آرا پیش ہوئی ہیں۔ مشہور رائے کے مطابق اس اصطلاح کا اطلاق پانچ صاحبان شریعت پیغمبروں پر ہوتا ہے:

  1. حضرت نوح علیہ السلام
  2. حضرت ابراہیم علیہ السلام
  3. حضرت موسى علیہ السلام
  4. حضرت عیسی علیہ السلام
  5. حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم۔

ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں