قرآن مجید کی آیات محکمات اور مُتشابہات کے بیان اور علمائے راسخین اور ان کے کمالات اور اس کے بیان میں شیخ بدیع الدین کی طرف صادر فرمایا ہے۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰى سَيِّدِ الْمُرْسَلِيْنَ عَلِيْهِمْ وَعَلىٰ اٰلِہٖ وَاَصْحَابِهٖ الطَّيِّبِيْنِ الطَّاهِرِيْنَ اَجْمَعِيْنَ جَعَلَنَا اللہُ سُبْحَانَهٗ وَإِيَّاكُمْ مِنَ الرَّاسِخِيْنِ فِي الْعِلْمِ
سب تعریف اللہ ہی کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے اور حضرت سید المرسلین اور ان کی تمام آل واصحاب پر جو طیب و طاہرو پاک و صاف ہیں ۔ صلوۃ وسلام ہو۔ اللہ تعالیٰ ہم کو اور آپ کو راسخین فی العلم میں سے بنائے۔
اے برادر! حق تعالیٰ نے اپنی کتاب مجید کو دوقسم پر فرمایا ہے۔ ایک محکمات دوسری مُتشابہات ۔
قسم اول (محکمات)علم شرائع اور احکام کا منشاء(پیدا ہونے کی جگہ) اور مبدا ہے اور قسم ثانی حقائق اور اسرار کے علم کا مخزن ہے اور وجہ (چہرہ) اور قدم اور ساق ( پنڈلی) اور اصابع (انگلیاں) اور انامل (پورے) جو قرآن و حدیث میں آئے ہیں۔ سب مُتشابہات میں سے ہیں اور ایسے حروف مقطعات جو قرآنی سورتوں کے اول میں واقع ہوئے ہیں ۔ سب مُتشابہات میں سے ہیں جن کی تاویل پر علمائے راسخین کے سوا اور کسی کو اطلاع نہیں دی گئی۔ یہ خیال نہ کریں کہ تاویل مرادقدرت سے ہے جس کی تعبیرید سے کی ہے یا مراد ذات سے ہے جس کو وجہ سے تعبیر کیا ہے بلکہ ان کی تاویل ان پوشیده اسرار سے ہے جواخص وخواص پر ظاہر کئے گئے ہیں۔
فقیرقرآن مجید کے حروف مقطعات کی نسبت کیا لکھے کیونکہ ان حروف میں سے ہرایک حرف عاشق و معشوق کے پوشیدہ اسرار کا ایک بحر مواج (موجیں مارتاسمندر)ہے اور محب و محبوب کے دقیق اور بار یکی امور کی ایک پوشیدہ رمز ہے اور محکمات اگر چہ کتاب کی امہات یعنی اصل ہیں لیکن ان کے نتائج اور ثمرات جو مُتشابہات میں کتاب کے اصل مقاصد میں سے ہیں۔ امہات نتائج کے حاصل ہونے کے لئے وسائل سے زیادہ نہیں ۔ پس کتاب کالُب یعنی مغز متشابهات ہیں اور محکمات اس کا قشر یعنی پوست وہ مُتشابہات ہی ہیں جو رمز داشارہ کے ساتھ اصل بیان ظاہر کرتی ہیں اور اس مرتبہ کی حقیقت معاملہ کا نشان بتلاتی ہیں، بر خلاف محکمات کے متشابهات گویا حقائق ہیں اور کلمات مُتشابہات کی نسبت ان حقائق کی صورتیں ہیں عالم راسخ وہ شیخ ہے جولب یعنی مغزکوقشریعنی پوست کے ساتھ جمع کر سکے اور حقیقت کو صورت کے ساتھ ملا سکے۔
علمائے قشر یہ قشر کے ساتھ خوش ہیں اور صرف محکمات پر ہی کفایت کئے ہوئے ہیں اورعلمائے، راسخین محکمات کے علم کو حاصل کر کے مُتشابہات کی تاویل سے بھی حظ وافر (پورا پورا حصہ) حاصل کر لیتے ہیں اور صورت و حقیقت کو جومحکم و متشابہ ہیں جمع کر لیتے ہیں لیکن وہ شخص جومحکمات کے علم اور ان کے موافق علم کے بغیر متشابهات کی تاویل ڈھونڈے اور صورت کو چھوڑ کر حقیقت کی طرف دوڑے ، ایسا شخص جاہل ہے جس کو اپنی جہالت کی بھی خبر نہیں ہے اور گمراہ ہے اور اس کو اپنی بھی خبرنہیں وہ نہیں جانتا کہ یہ جہان صورت اور حقیقت سے مرکب ہے اور جب تک یہ جہان قائم ہے۔ کوئی حقیقت صورت سے الگ نہیں ہوسکتی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّى يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ أَىْ الْمَوْتُ كَمَا قَالَ الْمُفَسِّرُوْنَ
(اپنےرب کی عبادت کرحتی کہ تجھے یقین یعنی موت آ جائے جیسا کہ مفسرین نے کہا ہے)
اللہ تعالیٰ نے عبادت کو موت کے زمانہ تک منتہی کیا جو اس جہان کا منتہا ہے لِاَنَّ مَنْ مَّاتَ فَقَدْ قَامَ قِيَامَتُهٗ (جوشخص مر گیا اس کی قیامت آ گئی) اور جہاں آخرت میں حقائق کا ظہور ہے وہاں حقائق سے صورتوں کا الگ ہونا حاصل ہے۔ پس ہر جہان کا حکم علیحدہ ہے۔ ایک کو دوسرے کے ساتھ سوائے اس جاہل یا زندیق (بے دین) ہے جس کا مقصود شرائع کا باطل کرنا ہے، خلط ملط نہیں کرتا کیونکہ شریعت کا جوعلم مبتدی پر ہے وہی علم منتہی پر ہے عام مومنین اور اخص خواص عارف اس امر میں مساوی اور برابر ہیں اکثر متصوفین خام(کچے صوفیاء) اور بے سروسامان ملحد اس امر کے درپے ہیں کہ اپنی گردنوں کو شریعت کی اطاعت سے نکال لیں اور احکام شرعیہ کو عوام کے ساتھ ہی مخصوص رکھیں ۔ یہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ شریعت کے احکام بجالانے سے مقصود یہ ہے کہ معرفت حاصل ہوجائے اور جب معرفت حاصل ہوجائے تو پھر شرعی تکلیفات (شرعی پابندیاں) ساقط ہو جاتی ہیں اور اس آیت کو بطریق شہادت پیش کرتے ہیں۔ وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّى يَأْتِيَكَ الْيَقِينُاپنے رب کی عبادت کرتا کہ تجھے یقین حاصل ہو جائے) اور یقین کے معنی اللہ کرتے ہیں جیسا کہ سہل تستری نے کہا ہے یعنی عبادت کی انتہا خدا کی معرفت حاصل ہونے تک ہی ہے۔ بظاہر جس شخص نے یقین کے معنی اللہ سبحانہ کے کئے ہیں اس سے اس کی مراد یہ ہوگی کہ عبادت کی تکلیف کی انتہاء حق تعالیٰ کی معرفت حاصل ہو جانے تک ہی ہے نہ کہ نفس عبادت کی انتہاء کیونکہ یہ امر الحادو زندقہ(بے دینی) تک پہنچانے والا ہے اور یہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ عارفوں کی عبادت ریائی ہے یعنی عارف اس واسطے عبادت کرتے ہیں کہ ان کے مقتدی اور پس ان کی اقتداء کریں۔ نہ یہ کہ عارف عبادت کے محتاج ہیں اور اس قول کی تائید میں مشائخ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا ہے کہ جب تک پیر منافقت اور مرائی یعنی ریا کار نہ ہو۔ مرید اس سے نفع نہیں حاصل کر سکتے ۔ خَذَلَھُمُ اللہ ُسُبْحَانَہٗ مَا اَجْهَلَهُمْ (اللہ تعالیٰ ان کو خوار کرے یہ لوگ کیسے جاہل ہیں) عارفوں کو عبادت کی اس قدر حاجت ہے کہ اس کا دسواں حصہ بھی مبتدیوں کو حاصل نہیں ہے کیونکہ ان کے عروج (عروج سے مراد سالک کا حق تعالیٰ کی ذات و صفات عالیہ کے مشاہدہ میں مستغرق ہو جانا اور مخلوق سے منقطع ہونا ہے) عبادات پر ہی وابستہ ہیں اور ان کی ترقیاں شرائع اور احکام کے بجالانے پرمنحصر ہیں۔ عبادات کے ثمرے اور فائدے جس کی امید عوام کوکل قیامت کے دن ہے، عارفوں کو وہ ثمرات آج ہی حاصل ہیں۔ پس یہ عبادت کے زیادہ مستحق ہیں اور ان کو شریعت کی زیادہ حاجت ہے۔
جاننا چاہیئے کہ شریعت صورت اور حقیقت کے مجموعہ سے مراد ہے۔ صورت ظاہر شریعت ہے اور حقیقت باطن شريعت پس قشر ولب یعنی پوست ومغز، دونوں شریعت کے اجزاء ہیں اور محکم ومتشابہ دونوں اس کے افراد۔
علماۓ ظاہر نے اس کے قشر پر کفایت کی ہے اور علمائے راسخین نے اس کے قشر کولب کے ساتھ جمع کیا ہوا ہے اور مجموعہ صورت و حقیقت سے حظ وافر (پورا پورا حصہ) حاصل کیا ہے۔ پس شریعت کو اس شخص کی طرف جو صورت و حقیقت سے مرکب ہے۔ تصور کرنا چاہے۔ ایک جماعت نے اس کی صورت کے ساتھ تعلق پیدا کر لیا اور اس کی حقیقت سے انکار کیا اور ہدایہ و بزدوی کے سوا اپنا پیرمقتدی کسی کو جانا ۔ یہ لوگ علمائے قشر ہیں اور دوسری جماعت کے لوگ اس کی حقیقت میں گرفتار ہو گئے لیکن اس حقیقت کوشریعت کی حقیقت نہ جانا بلکہ شریعت کی صورت پر محدود رکھا اور قشر خیال کیا اور اس کے سوالب کوتصور کیا اور باوجود اس کے احکام شریعت کے بجالانے سے سرمونہ ہٹے اور صورت کو ہاتھ سے نہ دیا اور احکام شریعت میں سے کسی ایک حکم کے ترک کرنے والے کو بطال اور ضال یعنی جھوٹا اور گمراہ سمجھا۔ یہ لوگ خدائے تعالیٰ کے اولیاء ہیں جنہوں نے حق تعالیٰ کی محبت میں اس کے ماسویٰ سے قطع تعلق کیا ہے ایک اور گروہ کے لوگ ہیں جو شریعت کو صورت اور حقیقت سے مرکب جانتے ہیں اور قشر ولب کے مجموعہ کا یقین کرتے ہیں ان کے نزدیک شریعت صورت کا حاصل ہونا اس کی حقیقت کے حاصل ہونے کے بغیر اعتبار سے ساقط ہے اور اس کی حقیقت کا حاصل ہونا صورت کے ثبات کے بغیر نا تمام وناقص ہے بلکہ صورت کے حاصل ہونے کو جو حقیقت کے ثبوت کے بغیر ہو۔ اس کو بھی اسلام ہی سے جانتے ہیں اور نجات بخش تصور کرتے ہیں جیسا علمائے ظاہر اور عام مومنین کا حال ہے اور صورت کے بغیر حقیقت کا حاصل ہونا محال تصور کرتے ہیں اور اس کے قائل کوزندیق (بے دین) اور گمراہ کہتے ہیں۔
غرض تمام ظاہری باطنی کمالات ان بزرگواروں کے نزدیک کمالات شرعیہ میں منحصر ہیں اور علوم و معارف الہیہ ان عقا ئد کلامیہ پروابستہ ہیں جو اہلسنت و جماعت کے لئے ثابت ہو چکے ہیں۔ ہزارہا شہود(مشاہدہ) اور مشاہدات کوحق تعالیٰ کی بیچونی (بے مثال)اور بیچگونی (بے کیف ہونا)کے ایک مسئلہ کے (جو مسائل کلامیہ میں سے ہے) برا نہیں جانتے اور ان احوال و مواجید اور تجلیات (غیبی انوار دلوں پر ظاہر ہونا) وظہورات کو جو احکام شرعیہ کے کسی حکم کے برخلاف ظاہر ہوں۔ ہم جَو کے برابر نہیں خریدتے اور ایسے ظہور کو استدراج (شعبدہ بازی) خیال کرتے ہیں۔ أُولَئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ یہ وہ لوگ ہیں جن کو الله تعالیٰ نے ہدایت دی ہے۔ پس تو بھی ان کی ہدایت پر چل۔
لوگ علماے راسخیں ہیں جن کو حقیقت معاملہ پر اطلاع دی گئی ہے اور آداب شریعت کومدنظر رکھنے کی برکت سے ان کو شریعت کی حقیقت تک پہنچا دیا گیا ہے۔ برخلاف فرقہ ثانیہ کے کہ اگر چہ وہ بھی حقیقت کی طرف متوجہ اور اس کے ساتھ گرفتار ہیں اور حتی المقدور شریعت کے بجالانے میں سرمو تجاوز نہیں کرتے لیکن چونکہ انہوں نے حقیقت کو شریعت کے ماسوا جانا ہے اور شریعت کو اس حقیقت کا پوست تصور کیا ہے۔ اس لئے اس حقیقت کے ظلال میں سے کسی ظل میں رہ گئے ہیں اور اس حقیقت کے اصل معاملہ تک پہنچنے کی راہ نہیں پائی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی ولایت ظلی ہے اور ان کا قرب صفاتی۔ برخلاف علماے راسخین کی ولایت کے کہ اصلی ہے اور انہوں نے اصل تک پہنچنے کا راستہ پالیا ہے اور ظلال کے تمام حجابوں اور پردوں سے گزر گئے ہیں۔ پس ان کی ولایت انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی ولایت ہے اور ان اولیاء کی ولایت انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی ولایت کاظل ہے۔
ابتدا میں فقیر یہ سمجھتا تھا کہ علمائے راسخین کومتشابهات کے ساتھ ایمان لانے کے سوا اور کچھ حاصل نہیں ہے اور ان تاویلوں کو جو علمائے صوفیہ نے بیان کی ہیں ، مُتشابہات کی شان کے لائق نہ سمجھتا تھا اور ان تاویلوں کو ان اسرار سے جو چھپانے کے قابل ہوں ، تصور نہ کرتا تھا جیسا کہ عین القضاة نے بعض متشابهات کی تاویل میں کہا ہے۔
مثلا الف، لام، میم سے اَلَم مراد لی ہے جس کے معنی درد کے ہیں جوعشق ومحبت کو لازم ہے وغیرہ وغیرہ۔
آخرکار جب حضرت حق سبحانہ وتعالیٰ نے محض اپنے فضل سے مشابہات کی تاویلات کا تھوڑا ساحال اس فقیر پر ظاہر کیا اور اس مسکین کی استعداد کی زمین میں اس دریائے محیط سے ایک چھوٹی سی نہر چلادی تو معلوم ہوا کےعلمائے راسخین کوهی متشابهات کی تاویلات کا بہت سا حصہ حاصل ہے۔
الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدَانَا لِهَذَا وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْلَا أَنْ هَدَانَا اللَّهُ لَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ (الله تعالیٰ کے لیے حمد ہے جس نے ہم کو ہدایت دی اور اگر وہ ہم کو ہدایت نہ دیتا تو ہم بھی ہدایت نہ پاتے، بیشک ہمارے اللہ تعالیٰ کے رسول حق کے ساتھ آئے ہیں)۔ واقعات مذکورہ کی تعبیر جو آپ نے طلب فرمائی تھی۔ اس کوحضور اور ملاقات پر منحصر رکھا گیا ہے۔ اسی واسطے ان کی نسبت کچھ نہیں لکھا کہ کیا کیا جائے۔ قلم اور ہی معارف کی طرف جاری ہو گیا اور یہی معاملہ پیش آ گیا۔ امید ہے کہ معاف فرمائیں گے۔
وَالسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَعَلىٰ سَائِرِ مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى وَالتَزَمَ مُتَابَعَةَ المُصطَفىٰ عَلَيهِ وَعَليٰ اٰلِہٖ واخوانہ الصَّلَواتُ وَالتَّسلِيمَاتُ العُلیٰ اور سلام ہو آپ پر اوران لوگوں پر جو ہدایت کے رستہ پر چلے اور جنہوں نے حضرت محمدﷺکی متابعت کو لازم پکڑا۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ331 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی