رمز و اشارہ کے حقائق کا بیان مکتوب نمبر 311 دفتر اول

اسرار غامضہ اور حقائق نادرہ کو رمز واشارہ کے طور پر بیان کرنے میں مظہر فیض الہی اور منبع اسرار نامتناہی۔ مخدوم زادہ خواجہ محمد سعید کی طرف صادر فرمایا ہے۔ 

یہ اسرار حروف مقطعات کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں جو قرآن کی آیات  مُتشابہات  میں سے ہیں جن کی تاویل سے علماء راسخین کو اطلاع دی ہے۔مثلا اللھم کے متعلق بیت ملاحظہ ہو

 ها دو چشمی است مربے ما ہمچو الف رب حبیب خدا 

لام مربی خلیل اللہ است میم ز تدبیر کلیم اللہ است

 ترجمہ: ہائے دو چشمی کوسمجھ رب ہمارا جیسے ہے الف رب حبیب خدا لام ہے رب خلیل اللہ کا میم ہے رب کلیم اللہ کا ۔

حضرت کلیم اللہ علی نبینا وعلیہ الصلوة والسلام کے کاروبار کا ابتدا’’ حقیقت الف‘‘ ہے اور اس حقیر کے معاملہ کا مبدأ بھی تبعیت (اتباع کے طور پر) و وراثت کے طور پر بھی’’ حقیقت الف‘‘ ہے لیکن حضرت کلیم اللہ کی بازگشت ’’ حقیقت میم‘‘ کی طرف ہے اور اس حقیر کی بازگشت’’ حقیقت ہائے دوچشمی‘‘ ہے۔ اب میرا مرجع و مقام بھی  ’’حقیقت ہا‘‘ ہے۔ یہ حقیقت وہی ہے جس کو ’’غیب ہویت‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں 

اور یہ حقیقت رحمت کا خزانہ ہے جو دنیا میں فراخ کیا ہوا ہے اور ننانوے حصے رحمت کے جوآخرت کے لئے ذخیرہ کئے ہوئے ہیں۔ ان سب کا مستقر اور مستودع (جائے قرار و امانت گاہ)یہی حقیقت ہے۔ گویا اس کا ایک چشمہ دنیا کی رحمت کا خزانہ ہے اور اس کا دوسرا چشمہ آخرت کی رحمت کا گنجینہ ہے۔ أَرْحَمُ ‌الرَّاحِمِينَکی صفت کی اس حقیقت سے ظاہر ہوتی ہے۔ اس مقام (آخرت)میں’’ جمال صرف ‘‘کا ظہور ہے جس میں جلال کی ذرہ ملاوٹ نہیں۔ دوستوں کو دنیا میں جومحنت و اندوہ دیتے ہیں۔ یہ جمالی تربیت ہے جو جلال کی صورت میں ظاہر ہوئی ہے اور دشمنوں کو دنیا میں جونعمت وسرور دیتے ہیں۔ یہ جلال کا ظہور ہے جو جمال کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ یہی اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر ہےيُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا اکثرکو اس سے گمراہ کرتا ہے اور اکثر کو اس سے ہدایت دیتا ہے۔ 

اور حضرت خاتم الرسل علیہ وعلیہم الصلوۃ والتسلیمات کے کاروبار کا مبدأ وہ حقیقت ہے جو ’’ حقیقت الف‘‘ سے برتر ہے اور ایسے ہی حضرت خلیل علی نبینا وعلیہ الصلوة والسلام کا مبدأ وہی ’’حقیقت فوقانی‘‘ ہے۔ 

حاصل کلام یہ کہ حضرت خاتم الرسل کی حقیقت اس حقیقت کا اجمال ہے اور حضرت خلیل کے مبدأ کی حقیقت کی تفصیل اور حضرت خاتم الرسل کی بازگشت الف کی حقیقت ہے اور حضرت خلیل کی بازگشت لام کی حقیقت ہے چونکہ اجمال کی وحدت کے ساتھ زیادہ مناسبت ہے اس واسطے الف کی طرف مراجعت میسر ہوئی جو وحدت کے قریب ہے اور تفصیل کو چونکہ کثرت کے ساتھ زیادہ مناسبت ہے۔ اس واسطے لام کی طرف بازگشت حاصل ہوئی جو کثرت کے نزدیک ہے۔ 

پس حضرت ابراہیم علی نبینا وعلیہ الصلوة والسلام مبدأ میں بھی کثیر البرکت ہیں اور معاد(آخرت)  و مرجع میں بھی۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت سیدالبشر علیہ وعلی الہ الصلوة والسلام وہ صلوة و برکت جو حضرت خلیل علیہ الصلوة والسلام کی صلوة و برکت کی مانند ومماثل ہے۔ سوال کرتے ہیں اوراسماء الہیہ میں کہ جن کا رتبہ صفات کے رتبہ سے برتر ہے۔ حضرت خاتم الرسل علیہ الصلوة والسلام کا رب اسم مبارک اللہ ہے اور اس حقیر کا رب اسم مبارک رحمن ہے چونکہ اس حقیر کو بلحاظ مبدأ کے حضرت کلیم کے ساتھ زیادہ مناسبت ہے اس لئے بہت ہی برکتیں اس حضرت سے اس حقیر کوپہنچی ہیں ۔ اگر چہ اس فقیر کی ولایت موسوی ولایت نہیں ہے لیکن اس ولایت کی برکات سے بھری ہوئی ہے اور اس راہ سے بہت کی ترقیات کی ہیں اور وہ استفادہ (فائدہ    حاصل کرنا)جو اس حقیر نے ولایت سے کیا ہے اس ولایت کے جمال کی راہ سے ہے اور میرے فرزند اعظم علیہ الرحمتہ کا استفاده اس ولایت کے جلال کی راہ سے ہے۔ فقیر کی ولایت جو ولایت موسوی سے مستفاد(بطور فائدہ حاصل شدہ) ہے۔ اس مومن آدمی(سورہ مومن آیت28) کی ولایت کے مشابہ ہے جو آل فرعون سے تھا اور میرے فرزند اعظم(خواجہ محمد صادق)

عليه الرحمتہ کی ولایت فرعون کے ساحروں کی ولایت کے مانند ہے جو ایمان لائے تھے۔

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ490 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں