کمالات فناو بقا و سلوک و جذ بہ مکتوب نمبر 313 دفتر اول

مفصلہ ذیل سوالوں کےحل و جواب میں خواب محمد ہاشم کی طرف لکھا ہے۔ سوال اول: اصحاب کرام کے کمالات فناو بقا و سلوک و جذ بہ پر موقوف ہیں یانہیں؟

 سوال دوم: طریقہ علیہ نقشبندیہ میں ریاضتوں سے منع کرتے ہیں اور یہ ان کو مضر جانتے ہیں ۔ حالانکہ آنحضرت ﷺنے سخت ریاضتیں برداشت کی ہیں؟ سوال سوم: طر یقہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف کیوں منسوب ہے۔

سوال چہارم : آپ نے ایک مکتوب میں لکھا ہے کہ طالب کو ولایت موسوی سے تصرف کے ساتھ ولایت محمدی میں نہیں لے جا سکتے اور دوسرے مکتوب میں لکھا ہے کہ تم کو ولایت موسوی سے ولایت محمدی میں لے آئے۔ ان دونوں باتوں میں موافقت کی وجہ کیا ہے۔

 سوال پنجم: پیراہن پیش چاک پہنا چا ہئے یا پیراہن حلقہ گریبان؟

سوال ششم : نفی اثبات کے ذکر کے وقت جو دل سے کہا جاتا ہے لا کو اوپر کی طرف اور الله کو دائیں طرف کیوں لے جاتے ہیں اور مکتوب کے آخر میں آداب پیرکو بیان فرمایا ہے؟ 

اور نیز آپ نے فرمایا ہے کہ مکتوبات کے دفتر کو اسی مکتوب پر ختم کریں اور عدد تین سو تیره کی رعایت کریں کہ پیغمبران مرسل علیہم الصلوۃ والسلام اور اصحاب اہل بدر رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی تعداد کے موافق ہیں۔ 

نیز آپ نے فرمایا ہے کہ اس مکتوب کے خاتمہ میں وہ عرضداشتیں جو حضرت مخدوم زاده کلاں علیہ الرحمة والغفران نے لکھی ہیں ۔ لکھ دیں تا کہ پڑھنے والے دعا و فاتحہ کے ساتھ ان کو یاد کر یں۔ 

حمد وصلوة اور تبلیغ و دعوات کے بعد اخی محمد ہاشم کی خدمت میں فقیر عرض کرتا ہے کہ وہ سوال جن کا حل میرسیدمحب اللہ کے مکتوب میں طلب فرمایا تھا۔ ان کا جواب لکھ کر بھیجا گیا ہے۔ 

سوال اول کا حاصل یہ ہے کہ قرب الہی جل شانہ، فنا فی اللہ اور بقاباللہ اور جذبہ اور سلوک کے تمام مقامات کے طے کرنے پر موقوف ہے اور اصحاب کرام جو حضرت خیر البشر علیہ الصلوة والسلام کی ایک ہی صحبت سے تمام اولیاء امت سے افضل ہو گئے ۔ کیا یہ سیر وسلوک اور فنا و بقاء جو ان کو ایک ہی صحبت میں حاصل ہوا۔ وہ دوسرے تمام سیروسلوک سے افضل تھایا کیا اسلام لانے کے ساتھ ہی حضرت علیہ الصلوة والسلام کی توجہ و تصرف سے اصحاب کرام کو فناو بقا حاصل ہو جاتا تھا اور نیز ان کوسلوک و جذب کا علم حالا و مقاما حاصل تھایانہیں اور اگر حاصل تھا تو کس نام سے بیان کرتے تھے اور اگر سلوک وتصرف کا طریق نہ تھا تو ان کو بدعت حسنہ کیوں نہ ہیں۔ 

جاننا چا ہئے کہ اس مشکل کا حل ہوناصحبت اور خدمت پر موقوف ہے۔ وہ بات جو اتنی مدت تک کسی نے نہیں کہی ۔ وہ ایک دفعہ لکھنے میں کس طرح آپ کی سمجھ میں آجائے گی لیکن چونکہ آپ نے سوال کیا ہے۔ اس واسطے جواب کا لکھنا ضروری ہے۔ پس اجمال کے طور پر اس کا حل کیا جاتا ہے۔ غور سے سنیں۔ وہ قرب جو فناو بقا اور سلوک و جذب پر موقوف ہے۔ وہ قرب ولایت ہے جس کے ساتھ اولیائے امت مشرف ہوئے ہیں اور وہ قرب جو حضرت خیر الانام علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت سے اصحاب کرام کو میسر ہوا تھا۔ وہ قرب نبوت تھا جو تبعیت (اتباع کے طور پر) اور وراثت کے طور پر آپ کو حاصل ہوا تھا۔ اس قرب میں نہ فناہے نہ بقانہ جذبہ ہے نہ سلوک اور یہ قرب کئی درجے قرب ولایت سے اعلی و افضل ہے کیونکہ یہ قرب قرب اصالت ہے اور وہ قرب قرب ظلیت ۔ شَتَّانِ مَا بَيْنَهُمَا ان دونوں کے درمیان بہت فرق ہے۔ لیکن ہر شخص کافہم اس معرفت کے مذاق(ادراک) تک نہیں پہنچتا۔ بلکہ ممکن ہے کہ خواص لوگ اس معرفت کے سمجھنے میں عوام کے ساتھ شریک ہوں ۔ 

گر بوعلی نواء قلندر نواختے صوفی بدلے ہرآ نکہ بعالم قلندر است 

ترجمہ گر بولی بجاتا قلندر کی بانسری بن جاتے صوفی سارے قلندر جہان کے

 ہاں اگر قرب ولایت کی راہ سے کمالات نبوت کی بلندی پر عروج (عروج سے مراد سالک کا حق تعالیٰ کی ذات و صفات عالیہ کے مشاہدہ میں مستغرق ہو جانا اور مخلوق سے منقطع ہونا ہے) واقع ہوتو پھر فناو بقا و جذب و سلوک ضروری ہیں کیونکہ یہ سب اس قرب کے مبادی(مقدمات) اور معدات (اسباب)ہیں اور اگر اس راستہ پر نہ چلیں اور قرب نبوت کی شاہراہ کو اختیار کریں تو پھرفنا و بقا و جذبہ و سلوک کی کچھ حاجت نہیں ۔ تمام اصحاب کرام رضی الله عنہم قرب نبوت کی شاہراہ پر چلے ہیں جس میں جذبہ و سلوک فنا و بقادرکارنہیں۔ اس معرفت کا بیان اس مکتوب(301) سے جو مولانا امان اللہ کی طرف لکھا گیا ہے معلوم کر لیں۔ . 

اس فقیر نے ہر جگہ اپنے مکتوبات اور رسائل میں لکھا ہے کہ میرا معاملہ سلوک و جذ بہ کے ماسوا اور تجلیات(غیبی انوار دلوں پر ظاہر ہونا) وظہورات کے ماوراء ہے۔ اس سے مراد یہی قرب ہے۔ میں اپنے خواجہ قدس سرہ کی خدمت و ملازمت میں حاضر تھا کہ یہ دولت مجھ پر ظاہر ہوئی تھی اور میں نے اس عبارت میں آپ کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ مجھ پر ایسا امر ظاہر ہوا ہے کہ سیرانفسی کو اس امر کے ساتھ وہ نسبت ہے جو سیر آفاقی کو سیرانفسی کے ساتھ ہے اور میں نے اپنے آپ میں اس سے زیادہ طاقت و قدرت نہ پائی کہ اس عبارت کے سوا کسی اور عبارت میں اس دولت کی تعبیر کر سکوں۔ چند سال کے بعد جب یہ معاملہ عجیبہ صاف طور پر ظاہر اورواضح ہوا تو مجملہ عبارات میں تحریر کیا گیا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدَانَا لِهَذَا وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْلَا أَنْ هَدَانَا اللَّهُ لَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ (الله تعالیٰ کے لیے حمد ہے جس نے ہم کو ہدایت دی اور اگر وہ ہم کو ہدایت نہ دیتا تو ہم بھی ہدایت نہ پاتے، بیشک ہمارے اللہ تعالیٰ کے رسول حق کے ساتھ آئے ہیں)۔ پس فنا و بقا اور جذبہ اور سلوک کی عبارت محدث(نئی پیدا شدہ) اور مشائخ کی مخترعات (ایجادات)سے ہوگی۔ مولوی جامی علیہ الرحمت نفحات میں لکھتے ہیں کہ اول جس نے فنا و بقا کا دم مارا ہے حضرت ابوسعید خراز قدس سرہ ہیں۔

 دوسرے سوال کا حاصل یہ ہے کہ طریقہ علیہ نقشبندیہ میں سنت کی متابعت کو لازم جانتے ہیں حالانکہ آنحضرت ﷺنے عجیب وغریب ریاضتیں اور سخت بھوک پیاس کی تکلیفیں برداشت کی ہیں اور اس طریقہ میں ریاضتوں سے منع کرتے ہیں بلکہ صورتوں کی کشف کے باعث ریاضتوں کو مضر جانتے ہیں۔ بڑے تعجب کی بات ہے کہ سنت کی متابعت میں ضررکا احتمال کیسے متصور ہوسکتا ہے۔ 

اے محبت کے نشان والے کسی نے کہا ہے کہ اس طریق میں ریاضتوں سے منع کرتے ہیں اور کہاں سے سنا ہے کہ ریاضتوں کومضر جانتے ہیں۔ اس طریق میں نسبت کی دائمی حفاظت کرنا اور سنت کی متابعت کو لازم پکڑنا اور اپنے احوال کے چھپانے میں کوشش کرنا اور تو سط حال اور درمیانی چال کا اختیار کرنا اور کھانے پینے اور پہننے میں حد اعتدال کو مدنظر رکھنا سخت ریاضتوں اور مشکل مجاہدوں سے جانتے ہیں۔ 

حاصل کلام یہ کہ عوام کالانعام ان امور کو ریاضت و مجاہد ہ نہیں جانتے۔ ان کے نزدیک ریاضت و مجاہدہ صرف بھوکا رہنا ہی ہے اور ان کی نظر میں بہت بھوکا رہنا بڑا بھاری امر ہے کیونکہ ان چار پاؤں کے نزدیک کھانا نہایت ضروری اور اعلی مقصد ہے جن کا ترک کرنا ان کے نزدیک سخت ریاضت اور دشوار مجاہدہ ہے اور نسبت کی دوام محافظت اور سنت کی متابعت کا التزام وغیرہ وغیرہ عوام کی نظر میں کچھ قد رو اعتبار نہیں رکھتا تا کہ ان کے ترک کو منکرات سے جانیں اور ان امور کے حاصل کرنے کو ریاضتوں سے پہچانیں۔ پس اس طریق کےبزرگواروں پر لازم ہے کہ اپنے احوال کو چھپانے میں کوشش کریں اور اسی ریاضت کو ترک کر دیں جو عوام کی نظروں میں عظیم القدر اور خلق کی قبولیت اور شہرت کا باعث ہو کیونکہ شہرت میں آفت اور شرارت ہے۔ 

رسول اللہ ﷺنے فرمایا ہے بِحَسْبِ امْرِئٍ مِنَ الشَّرِّ أَنْ يُشَارَ إِلَيْهِ بِالْأَصَابِعِ فِي دِينٍ أَوْ دُنْيَا إِلَّا مَنْ عَصَمَهُ اللَّهُ (آدمی کے لئے یہی شر کافی ہے کہ دین یا دنیا میں انگشت نما ہومگر جس کو الله تعال محفوظ رکھے۔) فقیر کے نزدیک ماکولات یعنی کھانے پینے کی چیزوں میں حد اعتدال کو مدنظر رکھنے کی نسبت لمبے عرصہ تک بھوک پیاس کا برداشت کرنا آسان ہے لیکن حد اعتدال کو مدنظر رکھنے کی ریاضت کثرت بھوک ریاضت سے زیادہ مفید ہے۔ 

حضرت والد بزرگوار قدس سرہ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے علم سلوک میں ایک رسالہ دیکھا ہے جس میں لکھا ہے کہ ماکولات میں اعتدال اور حد اوسط کو نگاہ رکھنا مطلب تک پہنچنے کے لئے کافی ہے۔ اس رعایت کے ہوتے زیادہ ذکر و فکر کی حاجت نہیں۔واقعی کھانے پینے اور پہننے بلکہ تمام امور میں توسط حال اور میانہ روی بہت ہی زیبا اور عمدہ ہے ۔ 

نه چنداں بخودکزوہانت براید نه چندانکه ازخصف جانت برآید

نہ کھا اتنا کہ نکلے منہ سے باہر نہ کم اتنا کے تن سے جان نکلے

 الله تعالیٰ نے ہمارے حضرت پیغمبر علیہ الصلوة والسلام کو چالیس آدمیوں کی قوت عطا فرمائی تھی جس کے سبب سخت بھوک برداشت کرلیا کرتے تھے اور اصحاب کرام بھی حضرت خیر البشر علیہ الصلوة والسلام کی صحبت کی برکت سے اس بوجھ کو اٹھا سکتے تھے اور ان کے اعمال و افعال میں کسی قسم کا فتور اورخلل نہ آتا تھا اور بھوک کی حالت میں دشمنوں کی لڑائی پر اس قدر طاقت رکھتے تھے کہ سیر شکموں کو اس کا دسواں حصہ بھی نصیب نہ تھی۔ یہی باعث تھا کہ بیس صابر آدمی دوسو کافروں پر غالب آجاتے تھے اور سوآدمی ہزار پر غلبہ پا جاتا تھا اور صحابہ کے سوا اور لوگ بھوک برداشت کرنے والوں کا تو یہ حال ہے کہ آداب وسنن کے بجالانے سے عاجز ہیں بلکہ بسا اوقات فرائض کو بھی بمشکل ادا کر سکتے ہیں۔ بغیر طاقت کے اس امر میں صحابہ کی تقلید کرنا گویا فرائض وسنن کے ادا کرنے میں آپ کو عاجز کرنا ہے۔ 

منقول ہے کہ حضرت صدیق اکبر رضی الله عنہ نے حضرت علیہ الصلوة والسلام کی تقلید کر کے وصال کے روزے اختیار کیے اور ضعیف و ناتوانی سے بے خود ہو کر زمین پر گر پڑے۔ آنحضرت ﷺنے اعتراض کے طور پر فرمایا کہ تم میں سے کون ہے جو میری مانند ہو۔ میں رات کو اپنے رب کے پاس ہوتا ہوں اور وہی مجھے کھلاتا ہے۔ پس انہوں نے طاقت کے بغیر تقلید کرنا بہتر اور پسند نہ جانا۔ 

اور نیز اصحاب کرام حضرت خیر البشر علیہ الصلوة والسلام کی صحبت کی برکت سے کثرت جوع کی پوشیدہ تکلیفوں سے محفوظ اور مامون تھے اور دوسروں کو یہ حفظ وامن میسر نہیں۔ اس کا بیان یہ ہے کہ زیادہ بھوک البتہ صفائی بخشتی ہے۔ بعض کے دل کو اور بعض کے نفس کو صفائی بخشتی ہے۔ قلب کی صفائی سے ہدایت بڑھتی ہے اور نور زیادہ ہوتا ہے اور نفس کی صفائی سے گمراہی زیادہ ہوتی اور سیاہی بڑھتی ہے۔ یونان کے فلاسفر اور برہمنوں اور جوگیوں کو بھوک کی ریاضت نے صفائی بخش کر گمراہی اور خسارہ میں ڈال دیا۔ افلاطون بے وقوف نے اپنے نفس کی صفائی پر بھروسہ کیا اور اپنی خیالی کشفی صورتوں کو اپنا مقتداء بنا کر مغرور ہور ہا اور حضرت عیسی علی نبینا وعلیہ الصلوة والسلام پر جو اس زمانہ میں مبعوث ہوئے تھے ایمان نہ لایا اور یوں کہا کہ نَحْنُ قَوْمٌ مَّهْدَیُّوْنَ لَاحَاجَةَ بِنَا إِلىٰ مَنْ يَّهْدِيْنَا (ہم ہدایت یافتہ لوگ ہیں ہمیں کسی ہدایت دینے والے کی حاجت نہیں اگر اس میں یہ ظلمت بڑھانے والی صفائی نہ ہوتی تو اس کی خیالی کشفی صورتیں ان کو راہ راست سے نہ روکتیں اور مطلب کے پانے سے اس کو مانع نہ ہوتی۔ اس نے اسی صفائی کے گمان پر اپنے آپ کونورانی خیال کیا اور اس نے نہ جانا کہ یہ صفائی اس کے نفس امارہ(برائی کی طرف بہت امر کرنے والا) کے باریک چمڑے سے آگے نہیں گزری اور اس کا نفس امارہ  اپنی پہلی خبث ونجاست پر ہے۔ اس کی مثال بعینہ اسی طرح ہے جس طرح نجاست مغلظہ پر باریک سا شکر کا غلاف چڑھا دیا ہو۔ قلب جواپنی ذات کی حد میں پاکیزہ اور نورانی ہے۔نفس ظلمانی کی ہم نشینی سے جوزنگار اس پر آجائے تھوڑے سے تصفیہ کے ساتھ اپنی اصلی حالت پر آ جاتا ہے اور نورانی ہو جاتا ہے۔ بر خلاف نفس کے جواپنی ذات کی حد میں خبیث ہے اور ظلمت اس کی ذاتی صفت ہے جب تک قلب کی سیاست اور سنت کی متابعت اور شریعت کی اتباع بلکہ محض فضل خداوندی سے پاک و صاف نہ ہو جائے اور اس کا خبث ذاتی دور نہ ہو جائے۔ تب تک اس سے نجات اور بہتری متصور نہیں ۔ افلاطون نے اپنی کمال جہالت سے اپنی صفائی کو جو اس کے نفس امارہ سے تعلق رکھتی تھی۔ حضرت عیسی کے قلب کی صفائی کی طرح خیال کیا اور اپنے آپ کو بھی ان کی طرح مہذب اور مطہر خیال کر کے ان کی متابعت کی دولت سے محروم رہا اور ہمیشہ کے خسارہ میں پڑارہا۔ أَعَاذَنَا ‌اللَّهُ تَعَالیٰ مِنْ هٰذَا الْبَلَاءِ اللہ تعالیٰ ہم کو اس بلا سے بچائے۔ 

جب اس قسم کے خطرے بھوک میں پائے جاتے تھے۔ اس واسطے اس طریق کے بزرگوں نے بھوک کی ریاضت کو ترک کیا اور کھانے پینے میں اعتدال کی ریاضت اور میانہ روی کے مجاہدہ کی طرف رہنمائی کی اور بھوک کے نفعوں اور فائدوں کو اس بڑے ضرر کے احتمال پرترک کر دیا اور دوسروں نے بھوک کے منافع کا ملاحظہ کر کے اس کے ضرر کی طرف نہ دیکھا اور بھوک کی طرف ترغیب دی اور عقلمندوں کے نزدیک یہ بات ثابت اور مقرر ہے کہ ضرر کے احتمال پر بہت سے منافع کو چھوڑ سکتے ہیں اور اسی کلام کے قریب قریب ہے جو علماء نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی امر سنت اور بدعت کے درمیان دار ہوتو سنت کے بجالانے کی نسبت بدعت کا ترک کر دینا بہتر ہے یعنی بدعت میں ضرر کا احتمال ہے اور سنت میں نفع کی امید۔ پس ضرر کے احتمال کو نفع کی امید پر ترجیح دے کر بدعت کو ترک کر دینا چاہیئے تا کہ ایسا نہ ہو کہ سنت کے بجالانے میں دوسری طرف سے ضرر پیدا ہو۔ اس سخن کی حقیقت یہ ہے کہ وہ سنت گویا اسی زمانہ موقف ہے۔ بعض نے چونکہ وقت وخفا کے باعث اس کے معرفت ہونے کو معلوم نہ کیا۔ اس لئے اس کی تقلید میں دلیری اور جلدی کی اور بعض نے اس کو معرفت جان کر اس کی تقلید اختیار نہ کی۔ وَاللَّهُ سُبحَانَه أَعْلَمُ ‌بِحَقِيقَةِ ‌الْحَالِ (حقیقت حال کو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے

تیسرا سوال یہ ہے کہ اس طریقہ علیہ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ اس طریق کی نسبت حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف منسوب ہے۔ برخلاف دوسرے طریقوں کے۔ اگرمدعی کہے کہ اکثر طریق امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ تک پہنچتے ہیں اور حضرت امام جعفر صادق ، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنهم کی طرف منسوب ہے۔ پھر دوسرے سلسلے حضرت صدیق کی طرف کیوں منسوب نہ ہوں۔ 

اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت امام جعفر صادق رضی الله تعالیٰ عنہ حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی نسبت رکھتے ہیں اور حضرت امیر(علی) رضی اللہ عنہ سے بھی اور حضرت امام میں ان دونوں اعلی نسبتوں کے جمع ہونے کے باوجود ایک نسبت کے کمالات جدا اور ایک دوسرے سے متمیز ہیں۔ بعض نے صدیقی مناسبت کے باعث حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نسبت صدیقیہ حاصل کی اور حضرت صدیق ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہوگئی اور بعض نے امیری مناسبت کے نسبت امیر یہ اخذ کی اور حضرت امیر رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ہو گئے۔ 

فقیر ایک دفعہ پرگنہ بنارس میں گیا ہوا تھا جہاں کہ دریائے گنگا اور جمنا باہم ملتے ہیں وہاں دونوں پانیوں کے ملنے کے باوجود محسوس ہوتا ہے کہ گنگا کا پانی الگ ہے اور جمنا کا پانی جدا دونوں کے درمیان برزخ ہے جو دونوں پانیوں کو آپس میں ملنے نہیں دیتا اور جو لوگ دریائے گنگا کے پانی کی طرف ہیں وہاں جمع ہوئے پانی سے گنگا کا پانی پیتے ہیں اور جولوگ دریائے جمنا کے پانی کی طرف ہیں وہ دریائے جمنا کا پانی پیتے ہیں۔ 

اور اگر کہیں کہ خواجہ محمد پارسا قدس سرہ نے رسالہ قدسیہ میں تحقیق کی ہے کہ حضرت امیر (علی کرم اللہ وجہ) نے جس طرح حضرت رسالت خاتمیت علیہ وعلی آلہ الصلوة والسلام سے تربیت پائی ہے۔ اسی طرح حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی پائی ہے۔ پس حضرت امیر رضی اللہ عنہ کی نسبت بعينہ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کی نسبت ہے پھر ان میں کیا فرق ہے تو میں کہتا ہوں کہ نسبت کے متحد ہونے کے باوجودمحل و مقام کے تعدد کی خصوصتیں اپنے حال پر ہیں۔ ایک ہی پانی مختلف مکانوں کے باعث الگ الگ خصوصیتیں پیدا کر لیتا ہے۔ پس جائز ہے کہ ہر ایک کی خصوصیت کی طرف نظر کر کے ہر ایک طریقہ اس کی طرف منسوب ہو۔ 

سوال چہارم کا حاصل یہ ہے کہ ملامحمد صدیق کے مکتوب میں لکھا ہے کہ ایک ولایت موسوی کی استعداد رکھتا ہے اس کوکوئی صاحب تصرف ولایت محمدی کی استعداد میں نہیں لاسکتا اور درویش زاده کلاں قدس سرہ کے مکتوبات میں لکھا ہے کہ تم کو ولایت موسوی سے ولایت محمدی میں لے آیا۔ ان دونوں باتوں میں موافقت کس طرح ہے۔ 

اس کا جواب یہ ہے کہ یہ جو ملامحمد صدیق کے مکتوب میں واقع ہے کہ معلوم نہیں ہے کہ ولایت موسوی سے ولایت محمدی میں لے جائیں۔ اس وقت اس امر کے واقع ہونے کاعمل نہ تھا۔ اس کے بعد اس امر کا علم اور تغیر و تبدل کی قدرت عطا فرما دی اور پھر لکھا ہے کہ تم کو اس ولایت سے ولایت محمدی میں لے گئے ۔ زمان متحد نہیں ہے تا کہ تناقص متصور ہو۔ 

سوال پنجم کا حاصل یہ ہے کہ اس جگہ کے صوفی پیراہن پیش چاک پہنتے ہیں اور اس کو سنت جانتے ہیں اور بعض کتب معتبرہ فقیہہ سے معلوم ہوتا ہے کہ پیراہن پیش چاک مردوں کونہ پہننا چاہیئے کہ عورتوں کا لباس ہے۔ 

امام احمد علیہ الرحمتہ اور ابوداود رحمتہ اللہ علیہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اس مرد پر جوعورت کا لباس پہنے اور اس عورت پر جو مرد کا لباس پہنے لعنت ہے اور مطالب المومنین میں ہے کہ عورت مرد کی مشابہت نہ کرے اور مرد عورت کی مشابہت نہ کرے کیونکہ دونوں پر لعنت ہوتی ہے۔ 

بلکہ مفہوم ہوتا ہے کہ پیران پیش چاک اہل علم اور اہل دین کا شعار نہیں ہے۔ اسی واسطے اہل ذمہ کے لئے یہ لباس تجویز کیا گیا ہے۔ جامع الرموز اور محیط میں منقول ہے کہ وہ لباس جو اہل علم اور اہل دین کے ساتھ مخصوص ہے یعنی رداء اور عمامہ اہل ذمہ نہ پہنیں بلکہ موٹے کپڑے کی قمیض پہنیں جس کے سینے پر عورتوں کی طرح چاک ہو۔ 

اور نیز بعض علماء کے قول کے موافق پیش چاک قمیص نہیں ہے بلکہ درع ہے۔ ان کے نزدیک قمیص وہ ہے جس کے دونوں کندھوں پر چاک ہوں۔ جامع الرموز اور ہدایہ میں جہاں عورت کے کفن کا بیان ہے۔ لکھا ہے کہ قمیص کے بدلے درع ہے اور ان دونوں کے درمیان فرق یہ ہے کہ درع کا چاک سینے میں ہوتا ہے اور قمیص کا چاک دونوں کندھوں کی طرف اور بعض ترادف کے قائل ہیں لیکن دونوں کا ایک ہی معنی کے ہیں۔ 

فقیر کے نزدیک بہتریہ معلوم ہوتا ہے کہ جب مردوں کو عورتوں کا سا لباس پہننا منع ہے تو جہاں عورتیں پیران پیش چاک پہنتی ہیں ۔ وہاں مردوں کو چاہیئے کہ عورتوں کی مشابہت کو ترک کر کے پیراہن حلقه گر یبان پہنیں اور جس جگہ عورتیں پیراہن حلقہ گریبان ہوتی ہیں وہاں مرد پیران پیش اختیار کریں اور عرب میں عورتیں پیر اہن حلقہ گریبان پہنتی ہیں اس لئے مرد پیرا ہن پیش چاک پہنتے ہیں اور ماوراء النہر اور ہند میں عورتوں کا لباس پیراہن پیش چاک ہے اس لئے مرد پیراہن حلقہ گریبان اختیار کریں۔ 

میاں شیخ عبدالحق دہلوی بیان کرتا تھا کہ میں حضرت مکہ میں تھا کہ میں نے دیکھا کہ شیخ نظام نارنولی کا ایک مرید پیراہن حلقه گریبان پہنے ہوئے طواف کر رہا ہے اور عرب کے لوگ اس کی پیراہن دیکھ کر تعجب کرتے اور کہتے ہیں کہ عورتوں کا پیراہن پہنا ہوا ہے۔ پس عرف و عادت کے اعتبارسےعرب کے طریق پرعمل کرنا بہتر ہوگا اور ہندو ماوراء النہر کے عمل کے موافق بھی بہتر ہوگا ۔ يعنی لِكُلٍّ وِجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّيهَا ہر ایک کے لئے ایک جہت ہے جس کی طرف وہ منہ کرنے والا ہے۔ 

اگر پیراہن پیش چاک کا سنت ہونا ثابت ہوتا تو علماء حنفیہ یہ لباس اہل ذمہ کے لئے تجویز نہ کرتے اور اہل علم اور اہل دین کے ساتھ ہی مخصوص رکھتے۔ چونکہ عورتیں اس لباس میں پیش قدم ہیں ۔ اس جگہ مردوں کا لباس عورتوں کے لباس کے تابع ہو گیا ہے۔ 

سوال ششم کا حاصل یہ ہے کہ جب ابتداء ہی سے اس طریق کے طالبوں کی توجہ احدیت صرف کی طرف ہے تو چاہیئے کہ توجہ نفی اثبات کے ساتھ جمع نہ ہو کیونکہ نفی کے وقت غیر کی طرف توجہ ہوتی ہے۔ 

جواب یہ ہے کہ غیر کی طرف توجہ کرنا توجہ احدیت کی تقویت اور تربیت کیلئے ہے اور غیر کانفی سے مقصود اغیارکی مزاحمت کے اس توجه کادائمی طور پر حاصل ہونا ہے پس غیر کی نفی کی توجہ احدیت کی توجہ کے منافی نہ ہوگی کیونکہ احدیت کی توجہ کے منافی غیر کی توجہ ہے نہ کہ غیر کے نفی کی توجه شَتَّانِ مَا بَيْنَهُمَا ان دونوں کے درمیان بہت فرق ہے۔ سوال ہفتم کا حاصل یہ ہے۔ اس کا طریقہ میں مبتدی جو ذکر کام(تالو) و زبان سے کہتا ہے۔ اسی ذکر کو دل سے بھی کہتا ہے تو پھر دل نفی اثبات کا پورا ذکر کرتا ہے یانہیں ۔ اگر پورا ذکر کرتا ہے تو پھر لا کو اوپر کی طرف اور اللہ کو دائیں طرف کیوں پھیرتے ہیں۔ 

اس کا جواب یہ ہے کہ قلب اگر تمام ذ کر کہے تو کیا نقصان ہے اور لاکو اوپر کی طرف اور الله کو دائیں طرف پھیرتے ہیں اور الا الله کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ اس طریق میں نفی اثبات کوتخیل میں ادا کرتے ہیں اور کام و زبان سے کچھ تعلق نہیں رکھتے تا کہ جو کچھ کہتے ہیں دل اس کو بخوبی قبول کرلے۔ . 

آپ کے یہ دو اخیر کے سوال فخررازی کی تشکیکات کی قسم سے ہیں ۔ اگر آپ ان سوالوں کی طرف بخوبی توجہ کرتے تو جلدی آپ کا شک رفع ہو جاتا۔ 

باقی مقصود یہ ہے کہ وہاں کے بعض یاروں نے کئی دفعہ لکھا ہے کہ میر محمد نعمان ان دنوں میں طالبوں کے احوال پر بھی غور و پرداخت نہیں کرتے اور عمارت کے بنانے میں لگے ہوئے ہیں اور فتوحات کا روپیہ عمارت پر خرچ کر رہے ہیں جس سے فقراء بے نصیب رہ جاتے ہیں۔ یاروں نے ان حالات کو اس طرح لکھا تھا کہ ان سے اعتراض اور روگردانی کی آمیزش مفہوم ہوتی تھی اور انکار کی بو آتی تھی۔ آپ بخوبی سمجھ لیں کہ اس گروہ یعنی اہل اللہ کا انکار زہر قاتل ہے اور بزرگوں کے افعال و اقوال پر اعتراض کرنا زہرافعی ہے جو ہمیشہ کی موت اور دائمی ہلاکت میں ڈالتا ہے۔ خاص کر جبکہ یہ اعتراض و انکار پیر کی طرف عائد ہو اور پیر کی ایذاء کا سبب ہو۔ اس گروہ کا منکر ان کی دولت سے محروم ہے اور ان پر اعتراض کرنے والا ہمیشہ نا امید اور زیاں کار رہتا ہے جب تک پیر کے تمام حرکات و سکنات مرید کی نظر میں زیبا اور مجرب نہ ہوں ۔ تب تک پیر کے کمالات سے اس کو کچھ حصہ نہیں ملتا اور اگر پھر کمال حاصل بھی کرے تو یہ استدراج (شعبدہ بازی) ہے جس کا انجام خرابی و رسوائی ہے۔ مرید اپنے پیر کی کمال محبت اور اخلاص کے باوجود اگر اپنے آپ میں سال بھر میں اعتراض کی گنجائش دیکھے تو اسے سمجھنا چاہیئے کہ اس میں خرابی ہے اور وہ پیر کے کمالات سے بے نصیب ہے اگر بالفرض پیر کے کسی فعل میں شبہ پیدا ہو جائے اور کسی طرح دفع نہ ہو سکے تو اس کو اس طرح دریافت کرے کہ اعتراض کی آمیزش سے پاک اور انکار کے گمان سے صاف ہو کیونکہ اس جہان میں حق باطل کے ساتھ ملا ہوا ہے۔ اگر پیر سے کسی وقت خلاف شریعت امر صادر ہو جائے تو مرید کو چاہیئے کہ اس امر میں پیر کی تقلید نہ کرے اور جہاں تک ہو سکے حسن ظن کے ساتھ اس کو نیک وجہ پرمحمول کرے اور اس امر کی صحت و درستی کی وجہ تلاش کرتا رہے اگرصحت کی وجہ نہ ملے تو چاہیئے کہ اس ابتلاء کے دفع کرنے میں حق تعالیٰ کی بارگاہ میں التجاء تضرع کرے اور گریہ و زاری سے پیر کی سلامتی طلب کرے اور اگر مر ید کو پیر کے حق میں کسی امر مباح کے ارتکاب کے باعث کوئی شبہ پیدا ہو تو اس شبہ کا کچھ اعتبار نہ کرے 

جب مالک الوجود جل شانہ نے امر مباح کے اختیار کرنے سے منع نہیں کیا اور کوئی اعتراض نہیں فرمایا تو پھر دوسرے کا کیا حق ہے کہ اپنے پاس سے اعتراض کرے ۔ بسا اوقات کئی جگہ اولی کے بجالانے سے اس کا ترک کرنا بہتر ہوتا ہے۔

 حدث نبوی ﷺمیں آیا ہے۔ إِنَّ اللَّهَ کَمَا يُحِبُّ أَنْ یؤْتیٰ  بِالْعَزِیْمَۃِيُحِبُّ أَنْ یُّؤْتىٰ بِالرُّخْصَۃِ کہ اللہ تعالیٰ جس طرح عزیمت کا بجالانا دوست رکھتا ہے۔ اسی طرح رخصت پرعمل کرنا بھی پسند کرتا ہے۔ 

حضرت میر کو بے شمارفیض حاصل ہیں۔ اگر فیض کے دنوں میں مریدوں کے احوال پرغور نہ بھی کریں اور بعض امور مباحہ سے اپنی تسلی کریں تو کوئی اعتراض کی جگہ نہیں ہے ایسے حال میں عبدالله اصطخری اپنی تسلی کے لئے سگبانوں کے ہمراہ جنگل میں شکار کے واسطے چلے جایا کرتے تھے اور بعض مشائخ ایسے حال میں سماع ونغمہ سے اپنی تسلی کیا کرتے تھے۔ 

وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى وَالتَزَمَ مُتَابَعَةَ المُصطَفىٰ عَلَيهِ وَعَليٰ اٰلِہٖ الصَّلَواتُ وَالتَّسلِيمَاتُ العُلیٰ اَتَمَّهَا وَاَدْوَمَهَا سلام ہو اس پر جو ہدایت کے راستہ پر چلا اور حضرت مصطفی ﷺکی متابعت کو لازم پکڑا۔ 

عرض داشت اول

جو مغفرت پناہ مخدوم زاده کلاں قدس سرہ نے لکھی تھی حضور کا کمترین غلام محمد صادق عرض کرتا ہے کہ اس طرف کے احوال و اوضاع (افعال) حضور کی عالی توجہ کی برکت سے ظاہری باطنی جمعیت کے ساتھ گزررہے ہیں۔ مدت گزری ہے کہ حضور کے خادموں کی طرف سے دل منتظر اور پریشان تھا۔ آج عریضہ لکھنے کے دن میاں بدر الدین آیا اور اس نے حضور کی کامل خیروعافیت کا حال سنایا۔ بے حدوبے اندازہ فرحت وخوشی حاصل ہوئی۔ 

الحمد لله تعالیٰ حمدا كثيرا على ذلک اس پر اللہ تعالیٰ کی بےشمارحمد ہے۔ 

قبلہ گاہا۔ حافظ بہاؤالدین نے تیرہویں رات کو قرآن مجید ختم کیا اور چودھویں رات کو حافظ موسی نے شروع کیا ہے۔ پانچ پانچ سیپارہ ہر رات کو پڑھتا ہے۔ انیسویں رات کو ختم کرلے گا۔عشرہ اخیرہ میں قرآن مجید ختم کرنے کے لیے حافظ بہاؤ الدین ہی مقرر ہوا ہے۔ 

حضرت سلامت ایک رات نماز تراویح میں حافظ قرآن پڑھ رہا تھا کہ ایک نہایت وسیع اور نورانی مقام ظاہر ہوا۔ گویا کہ حقیقت قرآنی (قرآن تمام ذاتی و شیونی کمالات کا جامع ہے) کا مقام تھا اور ایسا معلوم ہوا کہ حقیقت محمدی علی صاحبها الصلوة والسلام اس مقام کا اجمال ہیں۔ گویا دریائے اعظم کو کوزہ میں بند کیا ہے اور یہ مقام حقیقت محمدی کی تفصیل ہے۔ اکثر انبیاء اور کامل اولیاء نے اپنے اپنے قدر کے موافق اس مقام سے کچھ حاصل کیا ہے لیکن اس مقام کا کامل اور تمام حصہ ہمارے پیغمبر علیہ الصلوة والسلام کے سوا کسی کو معلوم نہیں ہوتا۔ اس حقیر کوبھی اس مقام سے تھوڑا سا حصہ مل گیا۔ اللہ تعالیٰ حضور کی توجہ عالی سے کامل حصہ نصیب کرے ۔ ابھی تک یہ مقام اچھی طرح واضح نہیں ہوا۔ باقی احوال جمعیت سے گزر رہے ہیں اور اس ماه معظم میں بڑی برکت مفہوم ہوتی ہے۔ اخی محمد سعید کے اوضاع و احوال بہت اچھے ہیں اور اس کے اوقات جمعیت و ذکر سے گزر رہے ہیں۔ شہر کےیاربھی بڑے ذوق سے حاضر ہوتے ہیں۔ 

فقیر نے ابھی تک چار سیپارہ سے کچھ اوپر حفظ کیا ہے۔ عید کے دن تک امید ہے کہ پا نچ سیپاره تک یاد ہوجائیں گے۔ والعبودیۃ – آداب بندگی۔ 

عرض داشت دوم

کمترین بندگان محمد صادق عرض کرتا ہے کہ اس طرف کے احوال و اوضاع شکر کے لائق ہیں اور اس ذات کعبہ مرادات کی خیریت معه خادموں اور مخلصوں کے مطلوب اور مسئول ہیں۔ 

حضور کا سرفراز نامہ اور بزرگ صحیفہ جواسماعیل کے ہمراہ ارسال فرمایا تھا۔ صادر ہوا۔ اس کے مطالعہ سے نہایت ہی خوشی ہوئی ۔ حق تعالیٰ اپنے نبی امی ﷺاور ان کی آل بزرگوار رضی اللہ عنہم کے طفیل اس قبلہ عالمیان کی مہربانی کا سایہ تمام اہل اسلام کے سر پر باقی و قائم ودائم رکھے۔ 

قبلہ گاہا۔ فقیر اپنے خراب احوال کیا لکھے۔ اپنے ماضی و حال کے صادر ہوئے اعمال اور ضائع ہوئے احوال پر بڑی حسرت و ندامت آرہی ہے۔ آرزوتو یہی رہتی ہے کہ کوئی لفظ اور کوئی ساعت حق تعالیٰ کی رضا کے برخلاف نہ گزرے لیکن ایسا ہو نہیں سکتا۔ ہاں اگرحضور کے خادموں کی توجہ مددودستگیری فرمائے تو بڑی بات نہیں۔

برکریماں کا رہا دشوار نیست                   کریموں پر نہیں مشکل کوئی کام

الحمد للہ کہ اب تک حضور کی توجہ شریف کی برکت سے جس طرح کہ حضور نے فرمایا تھا۔ استقامت حاصل ہے اور ابھی تک اس میں کوئی فرق نہیں آیا بلکہ دن بدن تر قی وزیادتی کا امیدوار ہے۔ فجر ظہر و عصر کے بعد حلقہ بیٹھتا ہے اور حافظ بہاء الدین کاموں سے فرصت پا کر قرآن مجید پڑھتا ہے۔ یہ فقیر بعض اوقات قبض میں ہے۔ بعض اوقات بسط میں اور قبض و بسط اور توجہ و ذوق اور آرام و غیره بدن سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس سے آگے تجاوز نہیں کرتے اور لطائف کا حال یہ ہے کہ نہ متوجہ ہیں نہ غافل۔ اگر متوجہ ہیں تو ان کی توجہ علم حضوری کی مانند بلکہ اس کا عین ہے اور توجہ اور ذوق وغیرہ کو ظلال میں داخل جانتا ہے اورظل سے متجاوز معلوم نہیں کرتا۔ لطائف اول اول بدن کے ساتھ ملے ہوئے تھے اور نظر بصیرت میں بدن کے سوا اور کوئی امر مفہوم نہ ہوتا تھا۔ جیسا کہ حضور موفور السرور کی خدمت میں عرض کیا گیا تھا۔ اب بدن سے ممتاز اور الگ دکھائی د یتے ہیں۔ یہ مقام بقا کا مقام ہے۔ بقا کے بعد پھر ایک قسم کی فناالطائف پر طاری ہوئی اور ایسا معلوم ہوا کہ اس فنا کے بغیر جو بقا کے بعد ہے۔ کام کا تمام ہونا میسر نہیں ہوتا۔ 

اب چند روز سے پھر قبض کی حالت میں ہے اور باطنی معاملہ کمی میں ہے، دیکھیں کیا ظاہر ہوتا ہے لیکن ابھی تک عالم کی طرف توجہ نہیں ہوئی چونکہ احوال کا عرض کرنا ضروری تھا اس لئے ان چند کلمات کے لکھنے پر جرأت  کی۔ 

قبلہ گاہا۔ فقیر ہر رات حضرت کو خواب میں دیکھتا ہے۔ الا ماشاء الله اس سے زیادہ کیا لکھا جائے کہ تعلقات رسمیہ میں داخل ہے۔ والعبودیۃ – آداب بندگی۔ 

عرض داشت سوم 

کمترین بندگان محمد صادق عرض کرتا ہے کہ یہ حقیر مدت سے مقبوض اور مغموم تھا۔ آخر کار حضور کی محفل پاک توجہ سے حق تعالیٰ کی عنایت شامل حال ہوئی اور بسط عظیم لاحق ہوئی۔ اس بسط میں ایسا معلوم ہوا کہ جس طرح آگے یا دو توجہ اس کی طرف سے ہوتی تھی۔ اب جو کچھ ہے۔ حق تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اپنے آپ میں قبول کی قابلیت کے سوا اور کچھ نہیں پاتا۔ اس آئینہ کی طرح کہ جس پر سورج طلوع کرے اور اس طلوع کے باعث بدن و لطائف سے تمام ظلمت و کدورت دور ہو جائے اور اس میں کماحقہ نورو برکت حاصل ہوجائے۔ پس اس بسط سے میرا سینہ کشادہ اور میرا قلب وسیع ہو گیا اور بدن نورانی اور روشن بن گیا اور لطائف بہ نسبت سابقہ روح وسر سے زیادہ لطیف ہو گئے اور میں نے معلوم کیا کہ تجلی اکمل لطائف میں سے قلب پر ہے جب میں نے قلب کی طرف دیکھا تو اس میں ایک اور قلب ظاہر ہوا جس پر بھی واقع ہوئی ہے جب میں نے اس قلب کے قلب کی طرف دیکھا تو اس پر ایک اور قلب دکھائی دیا۔ اسی طرح بے نہایت قلب ظاہر ہوئے اور کوئی قلب بسیط ایسا ظاہر نہ ہوا جس میں اور قلب ظاہر نہ ہوا ہو۔ میرے گمان میں اب تک قلب بسيط کی انتہا نہیں آتی اور معلوم ہوا کہ اس حالت کی نسبت پہلے حالات بے جا تکلفات تھے اور اس مقام کا صرف نام ہی نام دل پر گزرتا تھا جس کو بے ادبی کے باعث دیکھا گیا تھا۔ قبلہ گاہا۔ یہ سب کچھ حضور کی پاک توجہ کا کمتراثر ہے بیت۔ 

ا گر برتن میں زباں شود ہر موئے یک شکر تو از هزار نتوانم کرد 

ترجمہ: اگر ہر بال میں میری زباں ہو نہ پھر بھی کچھ شکر مجھ سے عیاں ہو 

حضرت سلامت حضور کے خادموں کی خدمت میں حاضر ہونے کی آرزو بیان سے باہر ہے۔ ہر گھڑی یہی تصور ہے کہ وہ کونسا نیک اور خوش وقت ہوگا کہ یہ اعلی مطلب اور بلند مقصد حاصل ہوگا۔ اس آرزو کے سوا اور کوئی خواہش نہیں رہی ۔ حق تعالیٰ اپنے پاک نبی ﷺکے طفیل بہت اچھے طریق سے یہ دولت عظمی نصیب کرے۔ والعبودية آداب بندگی۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ  أَوَّلاً وَّاٰخِرًا ۔ 

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ497 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں