آیت کریمہ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ کا بیان مکتوب نمبر 9 دفتر سوم

 آیت کریمہ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ کا بیان میں سیادت و ارشاد پناه میرمحمد نعمان کی طرف صادر فرمایا ہے۔

 بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

؛ قال الله تبارک و تعالی وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ (جو کچھ رسول تمہارے پاس لے آئے اس کو پکڑ لو اور جس سے تم کومنع کرے اس سے ہٹ جاؤ اور اللہ تعالی سے ڈرو) اوامر کے بجالانے اور منہیات سے ہٹ جانے کے بعد تقوی کا ذکر کرنا اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ منہیات سے ہٹ رہنا زیادہ ضروری ہے، کیونکہ یہی تقوی کی حقیقت ہے۔

جو دین کا اصل مقصود ہے۔ رسول الله ﷺنے فرمایا ہے۔ وَخَيْرُ دِينِكُمُ الْوَرَعُ اور تمہارے دین کا اصل مقصودورع ہے) رسول الله ﷺنے دوسری جگہ فرمایا ہے وَلا يَعْدِلُ فِي الرَّعِيَّةِ (رعۃیعنی ورع کے برابر کوئی شے نہیں) اور اس کے زیادہ ضروری اورمہتم بالشان ہونے کی وجہ یہ ہے کہ منہیات سے ہٹ جانا وجود میں اعلی اورنفع میں زیادہ ہے۔ کیونکہ یہ اوامر کے بجالانے کےضمن میں بھی پایا جاتا ہے اس لیے کہ کسی امر کا بجالاناگویا اس کی ضرر سے ہٹ جانا ہے اور یہ ظاہر ہے لیکن انتہاء منہیات سے ہٹ جانے کا عموم کی جہت کے سوا کثیر النفع ہونا اس لیے ہے کہ اس میں محض نفس کی مخالفت ہے اور اس میں نفس کی کوئی لذت نہیں۔

برخلاف امتثال اوامر کی صورت کے کہ اس میں اکثر نفس کی ذلت بھی ہوتی  ہے اور جس میں نفس کی زیادہ مخالفت ہو۔ کچھ شک نہیں کہ اس کا نفع بھی زیادہ ہوگا اورنجات کے لیے سب سے زیادہ اقرب راستہ ہو گا۔ کیونکہ تکلیفات شرعیہ کا اصلی  مقصود نفس کا مغلوب کرنا ہے۔ جو اللہ تعالی کی مخالفت وعداوت میں قائم رہتا ہے۔ حدیث قدسی میں وارد ہے عاد نفسک فإنهاانتصبت  بعداوتی اپنے نفس کو دشمن جان کیونکہ وہ میری عادت پر قائم ہے)

پس مشائخ کے طریقوں میں سے جس طریقہ میں احکام شریعہ کی زیادہ رعایت ہوگی وہ تمام وصول الى الله طریقوں میں سے زیادہ اقرب ہوگا۔ کیونکہ اس میں نفس کی زیادہ مخالفت ہے اور وہ طریقہ عالیہ نقشبندیہ ہے۔ اسی واسطے ہمارے سردار اور قبلہ شیخ  بہاء الدین نقشبند قدس سرہ نے فرمایا ہے کہ میں نے ایک ایسا طریقہ وضع کیا ہے جو نفس کے زیادہ مخالف ہونے کے باعث تمام وصول الى اللہ طریقوں سے اقرب ہے۔

اس طریقہ میں شریعت کی زیادہ رعایت دانا منصف اور دوسرے مشائخ کی طریقوں میں غور کرنے والے آدمی  پر پوشیدہ نہیں ہے۔ فقیر نے اس مضمون کو اپنے مکتوبات و رسائل میں مفصل اور واضح طور پر بیان کیا ہے جس کا دل چاہے وہاں سے دیکھ لے والله سبحانہ  أعلم بحقيقة الحالي و ھو سبحانه حسبى ونعم الوكيل (حقیقت حال کو اللہ تعالی ہی زیادہ جانتا ہے۔ وہی مجھے کافی ہے اوروہی اچھا کارساز اوروکیل ہے)

وصلی الله تعالى على سيينا محمد واله و صحبه وسلم و بارك وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى (سلام ہو اس شخص پر جس نے ہدایت اختیار کی )

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر سوم صفحہ69 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں