ابرار اور مقربین کا ذکر مکتوب نمبر 26 دفتر اول

اس بیان میں کہ شوق ابرار کو ہوتا ہے اور مقربین کو نہیں ہوتا اور اس مقام کے مناسب علوم کے بیان میں شیخ عالم مولانا حاجی محمد لاہوری کی طرف لکھا گیا ہے۔

اللہ تعالی ہم کو اورتم کو حضرت محمد  ﷺکی شریعت  کے سیدھے راستہ پرثابت قدم رکھے۔

حدیث قدسی میں وارد ہے۔ الا طال شوق الأبرار إلى لقائى وانا اليهم لا شدشوقا کہ خبر دار ابرار کا شوق میرے دیدار کے لئے حد سے بڑھ گیا اور میں ان سے بھی زیادہ ان کی طرف مشتاق ہوں۔

الله تعالی نے شوق کو ابرار (وہ اَولیائے کرام جو احکامِ شرعیہ پر عمل کرنے کے علاوہ مجاہداتِ شدیدہ اور ریاضاتِ شاقّہ کے ذریعے مراتب سلوک طے کرکے واصل بحق ہوں ابرار کہلاتے ہیں)کے لئے ثابت کیا کیونکہ مقربین(وہ اولیائے کاملین جو ذکر و فکر، مراقبات، تجرید و تفرید، فنا و بقا اور استہلاک و استغراق کے ذریعے منازلِ سلوک طے کرتے ہوئے واصل باللہ ہوں وہ مقربین کہلاتے ہیں)  واصلین(جن کو وصال حاصل ہو چکا) کو شوق نہیں رہتا اس لئے کہ شوق مطلوب کے گم ہونے(حصل نہ ہونے) کو چاہتا ہے اور مطلوب کا گم ہونا ان کے حق میں مفقود ہے۔ کیا نہیں دیکھتے کہ انسان اپنے نفس کی طرف اشتیاق نہیں رکھتا۔ حالانکہ اپنے نفس سے اس کو بڑی محبت ہوتی ہے کیونکہ مطلوب یعنی اپنے آپ کوگم کرنا اس کے لئے ثابت نہیں۔

پس مقرب واصل کا حال جو اللہ تعالی کے ساتھ باقی اور اپنے نفس سے فانی ہے۔ اللہ تعالی کے ساتھ ایسا ہے جیسے انسان کا حال اپنے نفس کے ساتھ۔

پس ثابت ہوا کہ ابرار ہی مشتاق ہوتے ہیں کیونکہ وہ محب فاقد ہیں اور ابرار سے ہماری مراد وہ شخص ہے جو مقرب واصل نہ ہو۔ خواہ ابتداء میں ہو یا وسط میں اگر چہ وسط سے رائی کے دانہ کے برابر باقی رہاہو۔ کسی نے کیا اچھا کہا ہے ۔

فراق دوست اگر اندک است اندک نیست درون دیده اگر نیم موست بیا راست

ترجمہ: فراق دوست تھوڑا بھی بہت ہے حق میں عاشق کے اگر ہونیم مو جتنا بھی تو بھی سخت مشکل ہے ۔

حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ آپ نے ایک قاری کو دیکھا کہ قرآن پڑھ رہا ہے اور رو رہا ہے اس کو دیکھ کر آپ نے فرمایا کہ ہم بھی ایسا ہی کرتے تھے لیکن ہمارے دل سخت ہو گئے ہیں۔ آپ کا یہ فرمانامدح  بمشابة الذم (ایسی تعریف جو مذمت کے مشابہ ہو)کی قسم سے ہے۔

اور خاکسار نے اپنے شیخ حضرت خواجہ باقی باللہ قدس سرہ سے سنا ہے کہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ منتہی واصل بسا اوقات اس شوق اور طلب کی آرزو کرتا ہے جو اس کو پہلے حاصل تھی۔

اور شوق کے دور ہونے کے لئے اول مقام سے بڑھ کر کامل ایک اور مقام ہے اور وہ اور اک و معرفت سےعجز و نا امیدی کا مقام ہے کیونکہ شوق وہاں ہوتا ہے جہاں کہ مطلوب حاصل ہونے کی امید ہو۔ پس جہاں امید نہیں شوق بھی نہیں اور جب نہایت کمال تک پہنچنے والاا یسا کامل شخص عالم کی طرف بدستور رجوع کرتا ہے تو عالم کی طرف رجوع کرنے سے مطلوب کے گم ہونے کی وجہ سےپھر بھی شوق اس کی طرف عودنہیں کرتا کیونکہ اس کے شوق کے غالب ہونے کا باعث مطلوب کا گم ہونا نہیں تھا جو رجوع کے بعد اب بھی موجود ہے۔ برخلاف پہلے کامل کے کہ عالم کی طرف رجوع کرنے کے وقت فقدان کے حاصل ہونے سے جو اول زائل ہو چکا تھا۔ پھر اس کی طرف شوق عود کرتا ہے۔ پس جب رکوع کے باعث فقدان یعنی مطلوب کا گم ہونا موجود ہوا تو وہ شوق جواس کے زائل ہونے سے دور ہو گیا ہوا تھا پھر حاصل ہو جائے گا نہیں کہا جاتا کہ وصول الى اللہ کے مراتب بھی منقطع نہیں ہوتے۔ پس ان مراتب میں سے بعض کی توقع کی جاتی ہے اس وقت مقرب واصل کے لئے بھی شوق کا ہونا متصور ہے کیونکہ ہم کہتے ہیں کہ مراتب وصول الى اللہ کا منقطع نہ ہونا سیر تفصیلی پرمبنی ہے جو اسماء و صفات و شیون(اس کا مُفرد شان ہے   شان کا معنیٰ حال اور امر ہے)  و اعتبارات میں واقع ہے اور اس سالک کے حق میں نہایت(انتہا) کاتصور نہیں اور اس سےکبھی شوق زائل نہیں ہوتا اور جس کا ہم ذکر کر رہے ہیں۔ منتہی واصل وہ ہے جس نے ان مراتب کو اجمالی طور پر طے کیا ہے اور ایسے مقام تک پہنچ گیا ہے جس کونہ کسی عبارت سے تعبیر کر سکتے ہیں اور نہ کسی اشارے سے اس کو بیان کر سکتے ہیں۔ پس وہاں ہرگز توقع متصور نہیں ہے۔ اسی واسطے اس سے شوق اور طلب بھی زائل ہو جاتا ہے اور یہ حال خواص اولیاء کا ہے کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جو صفات کی تنگی سے عروج (عروج سے مراد سالک کا حق تعالی کی ذات و صفات عالیہ کے مشاہدہ میں مستغرق ہو جانا اور مخلوق سے منقطع ہونا ہے)  کر کے در بار الہی تک پہنچ گئے ہیں۔ برخلاف ان لوگوں کے جو صفات میں تفصیلی طور پر سالک ہیں اور شیونات(جمع الجمع کا صیغہ ہے اس کا مُفرد شان ہے اور شیون اسکی جمع ہے شان کا معنیٰ حال اور امر ہے) میں ترتیب وار سیر کرنے والے ہیں کیونکہ یہ لوگ تجلیات (غیبی انوار دلوں پر ظاہر ہونا)  صفاتیہ میں ہمیشہ تک محبوس رہتے ہیں اور مراتب وصول ان کے حق میں صفات تک ہی ہیں اور بارگاہ خداوندی تک عروج (عروج سے مراد سالک کا حق تعالی کی ذات و صفات عالیہ کے مشاہدہ میں مستغرق ہو جانا اور مخلوق سے منقطع ہونا ہے)  کرنا صفات و اعتبارات میں اجمالی سیر کے سوائے متصورنہیں اور جس کی سیراسماء میں تفصیلی طور پر واقع ہو وہ صفات و اعتبارات میں مقید رہا اور اس سے شوق و طلب زائل نہ ہوا اور اس سے وجد تواجد دور نہ ہوا۔ پس شوق وتواجد والے لوگ تجلیات (غیبی انوار دلوں پر ظاہر ہونا)  صفاتیہ  والے لوگ ہیں اور جب تک لوگ شوق اور وجد میں رہیں۔ تجلیات ذاتیہ سے ان کو کچھ حصہ حاصل نہیں ہوتا۔ پس اگر کوئی کہنے والا کہے    کہ الله تعالی کی طرف سے شوق کے کیا معنی ہیں حالانکہ اس سے کوئی چیز مفقودنہیں تو میں کہتا ہوں کہ شوق کا ذکر اس جگہ ممکن ہے کہ صنعت مشاکلت کی قسم سے ہو اور اس حدیث میں شدت کا ذکر اس اعتبار سے ہو کہ جو عزيز جبار خدائے تعالی کی طرف منسوب کیا جائے۔ وہ شدید اور غالب ہوتا ہے۔ بہ نسبت اس چیز کے جو بند ہ ضعیف کی طرف منسوب کیا جائے ۔ یہ جواب علماء کے طریق پر ہے اور بندہ ضعیف یعنی خاکسار کے نزدیک اور کئی قسم کے جواب ہیں جوطریق صوفیہ کے مناسب ہیں لیکن وہ جواب ایک قسم کاسکر(مستی)  چاہتے ہیں اور سکر   کے بغیر ان کا بیان کرنا اچھا نہیں بلکہ جائز نہیں کیونکہ مست معذور ہیں اور ہوشیار پوچھے جائیں گے اور اب میرا حال محض  ہوشیاری ہے۔ اس واسطے ان کا ذکر کرنا میرے حال کے مناسب نہیں ہے والحمد لله اولا واخرا والصلوة والسلام على نبيہ دائما وسر مدا۔ اول و آخر سب تعریف اللہ ہی کے لئے ہے اور اس کے نبی پر ہمیشہ صلوۃ و سلام ہو۔

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ104 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں