حق تعالیٰ کے احاطہ اور سریان کی تحقیق اور مثالوں کے ساتھ اس کی توضیح اور مراتب و جوبی اور امکانی کے حفظ کی رعایت میں مولانا بدرالد ین کی طرف صادر فرمایا ہے۔
جاننا چاہیئے کہ حق تعالیٰ کے احاطہ اشیاء کے ساتھ ایسا ہے جیسا مجمل کا احاطہ مفصل کے ساتھ اور اشیاء میں اس کا سریان ایسا ہے جیسا کہ کلمہ اپنی تمام اقسام میں ساری ہے یعنی اسم و فعل وحرف میں اور ان کی قسموں کی قسموں یعنی ماضی و مضارع و امرونہی اور مصدر اور اسم فاعل اور مفعول اور مستثنی متصل اور مستثنی منقطع اور حال اورتمییز اور ثلاثی اور ربا عی اورخماسی اور حروف جارہ اور ناصبہ اور وہ حروف جو افعال کے ساتھ مختصہ ہیں اور وہ حروف مختصہ جو ان پر داخل ہونے والے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ جو غیرمتناہی تقسیموں میں منقسم ہیں ان سب میں کلمہ جاری و ساری ہے۔ یہ سب اقسام کلمہ کے غیر نہیں بلکہ یہ سب اعتبارات سے ہے جو کلمہ کے تحت میں مندرج ہیں اور کلمہ سے تفصیل اور تمیز پانے اور ایک دوسرے سے متمیز ہونے کے باعث اعتبارکلی کے سوا اور کوئی شے ان سب کو کلمہ پر زیادہ نہیں جانتے اور خارج میں کلمہ کے سوا اور کچھ موجودنہیں اسی واسطےیہ حمل درست ہے جس کے ساتھ وہ مخصوص ہے اور خاص احکام ہیں جو دوسرے میں پائے نہیں جاتے۔ مثلا مستقل طور پر اپنے معنوں پر دلالت کر یں اور اس میں زمانہ کاتعلق بھی ہو تو اس کوفعل کہتے ہیں اور جو بالاستقلال اپنے معنی پر دلالت کرنے اور اس میں زمانہ کا تعلق نہ ہو تو وہ اسم ہے اور جو اپنے معنی پر بالاستقلال دلالت نہ کر سکے اس کو حرف کہتے ہیں ۔ اسی طرح جن میں گزشتہ زمانہ پایا جائے اس کو ماضی کہتے ہیں اور جس میں زمانہ حال و استقبال پایا جائے اس کو مضارع کہتے ہیں اور جس میں نومشہور علتوں میں سے دو علتیں پائی جائیں اس کو غیرمنصرف کہتے ہیں ورنہ منصرف۔ ایسے ہی حروف کا حال ہے کہ جو جر کاعمل کرتے ہیں۔ ان کو جاری کہتے ہیں اور جن کاعمل نصب ہے ان کو ناصبہ کہتے ہیں۔
پس ایک مرتبہ کے اسم کا دوسری مرتبہ کے اسم پر اطلاق کرنا اور ایک کے احکام کو دوسرے پر جاری کرنا ایسا ہے جیسے فعل ماضی کو مضارع پر اور منصرف کوغیرمنصرف پر اورجارہ کو ناصبہ پر اطلاق کریں حالانکہ سب کو اپنے اپنے مرتبہ میں کلمہ کہتے ہیں۔ پس ایک احکام کو دوسرے پر جاری کرنامحض گمراہی اور راہ راست سے خارج ہونا ہے۔
پس ہم کہتے ہیں اور الله تعالیٰ ہی زیادہ جانتا ہے کہ منزل و جوتعالیٰ کے مراتب میں سے ہر مرتبہ کے لئے خاص خاص نام اور خاص خاص احکام ہیں جو اس کے سوا کسی اور مرتبہ میں پائے نہیں جاتے۔ پس وجوب ذاتی اور استغنا ذاتی مرتبہ جمع اور الوہیت کے ساتھ مختص ہیں اور امکان ذاتی اور افتقار ذاتی(ذاتی احتیاج) مرتبہ کون و فساد(دنیا جہاں) کے ساتھ مخصوص ہیں۔
مرتبہ اول، ربوبیت اور خالقیت کا مرتبہ ہے اور مرتبہ دوم عبودیت اور مخلوقیت کا مرتبہ ہے۔ پس اگر ایک کے ناموں کو دوسرے پر اطلاق کریں یا ایک مرتبہ کے مختصہ احکام کو دوسرے مرتبہ پر جاری کریں تو یہ زندقہ خالص اور کفرمحض ہے۔
پھر بڑے تعجب کی بات ہے کہ بعض ملحد اور زندیق (بے دین) کس طرح مراتب کو ملا دیتے ہیں اور ایک مرتبہ کے احکام کو دوسرے مرتبہ پر جاری کرتے ہیں اور ممکن کو واجب کی صفات سے اورو اجب کو ممکن کی صفات سے موصوف کرتے ہیں ، ملاتے ہیں حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ ممکن جو ایک ہی مرتبہ ہے اس کے صفات ایک دوسرے سے الگ الگ ہیں اور ان کے احکام مختلف ہیں اور جانتے ہیں کہ مرتبہ کونیہ میں باہم متحد ہونے کے باوجود بھی ان کا باہمی تمایز اور ان کے احکام کا اختلاف ہرگز زائل نہیں ہوتا کیونکہ وہ بدیہی طور پر جانتے ہیں کہ مثلا حرارت اور احتراق یعنی گرمی اور جلانا آگ کی صفات میں سے ہے جو اسی کے ساتھ مخصوص ہیں اور ان میں سے کوئی بھی صفت پانی میں نہیں پائی جاتی اور نہ ہی ان صفات سے موصوف کیا جاسکتا ہے۔ ایسے ہی برودت یعنی سردی پانی کے ساتھ مختص ہے جو آگ میں ہرگز نہیں اور اسی طرح ان کے ازواج اور امہات یعنی اقسام کی اجناس میں فرق کرتے ہیں اور ان کے احکا م جدا جدا ہونے کا حکم کرتے ہیں۔ وَاللهُ سُبْحَانَهٗ الْهَادِيْ إِلىٰ سَبِيْلِ الرَّشَادِ الله تعالیٰ ہی راہ راست کی ہدایت دینے والا ہے وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى (سلام ہو اس شخص پر جس نے ہدایت اختیار کی )
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ456ناشر ادارہ مجددیہ کراچی