اس بیان میں کے احوال کے تغیر وتبدل کا کچھ اعتبار نہیں نہ بیچونی(بے مثال) اور بے چگونی(بے مثال)کے مطلب کوحاصل کرنا چاہیئے۔ جمال الدین کی طرف لکھا ہے ۔
احوال کی تلوینات(تغیر و تبدل) کاکچھ اعتبارنہیں ہے اس بات کا مقید نہ ہونا چاہیئے کہ کیا آیا اور کیا گیا اور کیا کہا اور کیاسنا، مقصود کچھ اور ہی ہے جو کہنے سننے اور دیکھنے اور مشاہدے سے منزہ ومبرا ہے ۔
سلوک کےمبتدی کو جوز و مویز(اخروٹ و منقی) سے تسلی دیتے ہیں ۔ ہمت بلند رکھنی چاہیئے کام کچھ اور ہے۔ یہ سب خواب و خیال ہے ۔ خواب میں اگر کوئی اپنے آپ کو بادشاہ دیکھے تو وہ حقیقت میں بادشاہ نہیں ہے لیکن یہ خواب امیدواری بخشتی ہے۔ (بلند مرتبہ کی امید ہوتی ہے۔)
طریقہ نقشبند یہ قدس سرہم میں واقعات کا کچھ اعتبارنہیں کرتے۔ یہ بیت ان کی کتابوں میں لکھا ہے۔
چو غلام آفتابم ہمہ ز آفتاب گویم شبم نہ شب پرستم که حدیث خواب گویم
ترجمہ: بیاں سورج کا کرتا ہوں کہ ہوں میں بس غلام اس کا نہیں بندہ میں شب کا تا کروں خوابوں کا کچھ چرچا
اگر کوئی حال آئے یا جائے کچھ شادی و غم نہیں ۔بیچونی(بے مثال ) اوربیچگونی(بے کیف ہونا) کا مطلب حاصل ہونے کا منتظر رہنا چا ہیئے ۔ والسلام
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ318ناشر ادارہ مجددیہ کراچی