ارباب فقر کے درجہ کے بیان مکتوب نمبر 38دفتر سوم

ایک سوال کے جواب میں جو حدیث سَتَفْتَرِقُ ‌أُمَّتِي الخ کے معنی کے بارہ میں کیا گیا تھا اور ارباب فقر کے درجہ کے بیان میں ملا ابراہیم کی طرف صادر فرمایا ہے:۔ 

جاننا چاہیئے کہ آخرت کے كُلُّهَا ‌فِي ‌النَّارِ ‌إِلَّا ‌وَاحِدَةًسے جو اس حدیث میں آیا ہے جو اس امت کے بہتر (72) فرقے ہو جانے میں وارد ہوئی ہے۔ مراد یہ ہے کہ وہ دوزخ میں داخل ہوں گے اور عذاب پائیں گے۔ یہ مراد نہیں ہے کہ دوزخ میں ہمیشہ تک رہیں گے اور ہمیشہ کے لیے عذاب اٹھائیں گے کیونکہ یہ ایمان کے منافی ہے اور کفار کے ساتھ مخصوص ہے۔ حاصل کلام یہ کہ چونکہ دوزخ میں ان کے داخل ہونے کا باعث ان کے برے معتقدات ہیں۔ اس لیے سب کے سب دوزخ میں داخل ہوں گے اور اپنے خبث اعتقاد کے اندازه پر عذاب پائیں گے۔ برخلاف اس ایک گروہ کے جن کے عقائد عذاب دوزخ سے نجات بخشنے والے ہیں اور ان کی فلاح و خلاصی کا سبب ہیں۔ اس قدر ہے کہ اگر اس گروہ میں سے بعض نے برے اعمال کیے ہوں اور وہ اعمال(دنیا میں )  توبہ اور (آخرت میں )شفاعت سے معاف نہ ہوئے ہوں تو جائز ہے کہ گناہ کے اندازہ کے موافق دوزخ کے عذاب میں داخل ہوں اور دوزخ میں ان کا داخل ہونا انکے حق میں بھی ثابت ہو۔ پس دوسرے گروہوں کے تمام افراد کے حق میں دوزخ کا عذاب ثابت ہے۔ اگر چہ دائمی نہیں اور اس فرقہ ناجیہ کے بعض افراد کے ساتھ مخصوص ہے۔ جنہوں نے برے اعمال کیے ہیں۔ کلمہ کلھم  میں اس بیان کی رمز ہے۔ جیسے کہ پوشیدہ نہیں ہے۔ چونکہ یہ بدعتی فرقے سب اہل قبلہ ہیں۔ اس لیے ان کی تکفیر میں جرات نہ کرنی چاہیئے۔ جب تک کہ دینی ضروریات کا انکار اور احکام شرعیہ کے متواترات کو رد نہ کریں اور ان احکام کے جو دین سے ضروری طور پر ثابت ہو چکے ہیں منکر نہ ہوں علماء نے فرمایا ہے کہ اگرنناوے وجہ کفر کی ہوں اور ایک وجہ اسلام کی پائی جائے تو اس ایک وجہ اسلام کی تصحیح کرنی چاہیئے اور کفر کا حکم نہ کرنا چاہیئے۔ والله سبحانه أعلم و کلمته أحکم(اللہ تعالی زیادہ جانتا ہے اور اس کی كلام مضبوط ہے)

 نیز جاننا چاہیئے کہ اس نصف یوم سے کہ اس امت کے فقراء دولتمندوں سے اتنی مدت پہلے بہشت میں جائیں گے۔ مراد دنیا کا پانچ سو سال ہے۔ کیونکہ ایک دن اللہ تعالی کے نزدیک ہزار سال کے برابر ہے۔ وَإِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ ‌كَأَلْفِ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ ایک دن تیرے رب کے نزدیک ہزار سال کے برابر ہے جس کو تم گنتے ہو) اس مطلب پر گواہ ہے اس مدت کا مقرر کرنا اللہ تعالی کے علم کے سپرد ہے بغیر اس امر کے کہ روز و شب اور سال وماہ  متعارف و ثابت ہوں اور فقیر سے مراد فقیر صابر ہے جو احکام شرعیہ کو ہمیشہ بجالاتا ہے اور شرعی ممنوعات سے اجتناب کرتا ہے۔ فقر کے بہت سے درجے ایک دوسرے کے اوپر ہیں ۔ ان مراتب میں اعلے مرتبہ وہ ہے جو مقام فنا میں متصور ہوتا ہے۔ جہاں حق تعالی کے سوا سب کچھ نا چیز اور فراموش ہوجاتا ہے اور جوشخص فقر کے تمام مراتب کا جامع ہے۔ اس شخص سےا فضل ہے جو بعض مراتب کا جامع ہواوربعض کا نہ ہو۔ پس جوشخص باوجود فنا کے فقر ظاہری بھی رکھتا ہے وہ اس شخص سے افضل ہے جو فنا کے ساتھ فقر ظاہری نہیں رکھتا۔ فافہم خوب سمجھ لیں۔

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر سوم صفحہ125ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں