بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
آداب السلوک والتوصل الی منازل الملوک کامقدمہ
مجھے میرے جد بزرگوار امام وقت عالم ربانی ، عارف حقانی صاحب زہدو تقوی ، عابد و زاہد ، قدوة المشائخ ، قطب الاسلام ، علم الزهاد دلیل العباد، قامع البدعة ، ناصر السنت حضرت ابو محمد عبد القادر بن ابی صالح الجیلی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاه و جمعناوایاہ فی مستقر رحمة نے اپنی ایک تحریر کے ذریعے بتایا جو انہوں نے میری خاطر تحریر فرمائی اور اس تحریر کی روایت کی مجھے اجازت دی۔ جبکہ صفر کا مہینہ اور سن ہجری 561ھ تھا۔ اسی ذات پر مجھے بھر وسہ ہے
اور ان سے یہ خبر ہمیں ہمارے والد گرامی امام و عالم، زاہد و عابد صاحب زہد و ورع زیب دین و شرع یکتائے روزگار حضرت ابو بکر عبد الرزاق بن عبد القادر بن ابی صالح بن عبد اللہ الجیلی نے دی۔ آپ نے فرمایا یہ کتاب میرے والد گرامی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہ کے سامنے پڑھی گئی اور میں خود سن رہا تھا۔ منگل کا دن تھا۔ ربیع الاول شریف کا مہینہ تھا اور سن ہجری 553ھ تھا۔ آپ کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ ارشاد فرمایا ہے۔
میرے والد نے جو یکتائے روزگار تھے، جنہیں تائید ایزدی میسر تھی۔ جو اماموں کے امام تھے سید الطوائف ابو محمد عبد القادر بن ابی صالح بن عبد اللہ الجیلی قدس الله روحه ونور ضريجہ نے فرمایا۔
اول و آخر ، ظاہر و باطن سب تعریفیں اللہ رب العالمین کیلئے ہیں۔ اتنی تعریفیں جتنی اس کی مخلوق کی تعداد ہے۔ جتنا اس کے عرش کاوزن ہے۔ جتنی اس کے اسماء و صفات کی مقدار ہے۔ جتنی اس ذات اقدس کی رضا ہے۔ ہر جفت اور طاق عدد کے برابر۔ ہر رطب ویابس اور جتنی چیزیں اس نے مقدر فرمائی ہیں اور جتنی چھوٹی بڑی چیزیں تخلیق ہو چکی ہیں اتنی تعریفیں اللہ کے لیے ہیں ہمیشہ ہمیشہ بلاانقطاع۔ (مطلب یہ ہے کہ بے شمار و بے انداز تعریفیں اللہ رب العالمین کو سزاوار ہیں) اللہ تعالی وہ ہے جس نے ہر چیز کو پیدا کیا اور کسی قسم کا تفاوت نہیں رکھا۔ اس نے ہر چیز کا ایک اندازہ مقرر فرمایا۔ ہر چیز کو راہ دکھائی اور زندہ و مردہ گردانا جس نے انسانوں کو خوشیاں بخشیں اور غم دیئے۔ بعض کو قرب سے نواز اور بعض کو اس دولت سے محروم رکھا۔ اپنے بعض بندوں پر رحم فرمایا۔ اور بعض کو رسوا کر دیا۔ کچھ کو سعادت مندٹھہر ایا اور کچھ کو شقی اور بدبخت بنادیا۔ کچھ ایسے ہیں جنہیں بخش دیا اور کچھ ایسے ہیں جنہیں محروم کر دیا۔ اس کےحکم سے سات محکم آسمان ایستادہ ہیں۔ اس کے امرسے کو ہسار کو گویا لنگر انداز کر دیا گیا اور میخوں سے زمین میں جڑ دیا گیا ہے۔ اس کے فضل و کرم اور حکم سے زمین کا فرش بچھا ہے۔ کوئی اس کی رحمت سے مایوس نہیں اور کوئی اس کی سزاسے مامون نہیں۔ کوئی نہیں جس کے بارے اس کا فیصلہ نافذ نہ ہو سکے اور ایک بھی نہیں جو اس کے حکم کے بغیر حرکت کر سکے ۔ کسی کو اس کی بندگی سے عار نہیں اور کوئی اس کی نعمت سے خالی دامن نہیں۔ وہ اپنی نعمت و عطا کی بدولت محمود ہے اور محروم کرنے کی وجہ سے مشکور ہے۔
درود و سلام ہوں اللہ تعالی کے نبی محمد مصطفی ﷺ پر جس کے دین کی پیروی کرنے والا منزل پا گیا اور روگردانی کرنے والا ہلاک اور گمراه ٹهہرا۔
راست گو پیمبر ﷺ جن کی سچائی مسلم ہے۔ جنہوں نے دنیا سے کنارہ کشی اختیار کی۔ اپنے رفیق اعلی کے طالب ہوئے اوراسی ذات اقدس کو چاہا جنہیں اللہ نے اپنی مخلوق پر بزرگی عطا کی اور کائنات سے منتخب فرمایا لیا۔ جن کے تشریف لانے سے باطل نا پید ہو گیا اور حق کا ظہور ہوا اور جن کے نور سے زمین چمکائی۔
ایک بار پھر یعنی ہمیشہ درودہائے تمام، طيب و مبارک اور ستوده برکتیں ہوں آپ پر ، آپ کی آل اطہار پر ، صحابہ کرام پر اور نیکی میں ان کی پیروی کرنے والوں پر جو اپنے کردار کے لحاظ سے اپنے رب کے نزدیک نیک ترین اور گفتار کے اعتبار سے صادق ترین لوگ ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا چال چلن شریعت مطہرہ کے عین مطابق ہے۔ اس حمد وصلاۃ کے بعد ہم حضور باری تعالی میں نہایت عاجزی و انکساری سے دعا اور التجا کرتے ہیں اے ہمارے پروردگار ، ہمارے خالق، ہمیں عدم سے وجودنے والے ، ہمارے رازق ، ہمیں کھلانے پلانے والے۔ ہمیں نفع دینے والے ہمارے محافظ و نگہدار، ہمیں نجات بخشنے والے مصیبتوں سےبچانے والے اور ہر ایذاء و تکلیف دہ چیز سے دور رکھنے والے ! یہ سب نعمتیں اس ذات پاک کی رحمت ، فضل و کرم اور احسان کی بدولت ہیں۔ اقوال و افعال میں ظاہر و مخفی ہر دو صورتوں میں شدت ورخاء میں اور کتمان و اظہار ہر صورت میں اس کے اقوال و افعال میں ہمیشہ حفاظت فرمائی (اسی لیے یہ نعمتیں میسر آئیں) وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے جو اس کی مشیت ہوتی ہے کام کر تا ہے۔ ہر پنہاں چیز کو جاننے والا تمام شیون واحوال سے واقف ، زلات و طاعات اور قربات سے آگاو تمام آوازوںکو سننے والا ان تمام دعاؤوں کو قبول کرنے والا جن کے چاہے اور جس کے لیے چاہے اور ارادہ فرمائے۔ اس کے بعد میں کہتا ہوں اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے۔ رات ، دن برابر ، لحظه بہ لحظہ، ہر سماعت اور ہر وقت تمام حالات میں اس کی رحمتوں کی بارش جاری ہے۔
رب قدوس کا ارشاد ہےوَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا اگر تم شمار کرنا چاہو اللہ تعالی کی نعمتوں کو تو تم انہیں گن نہیں سکو گے وَمَا بِكُمْ مِنْ نِعْمَةٍ فَمِنَ اللَّهِ اور تمہارے پاس جتنی نعمتیں ہیں وہ تو اللہ تعالی کی دی ہوئی ہیں۔
بھلا مجھ میں یہ طاقت کہاں۔ دل و زبان کو یہ یاراکہاں کہ اللہ تعالی کی عطاکردہ ان نعمتوں کو گن سکے ۔ ان کا احصاء کر سکے۔ ان کو گننا انسانی بس میں نہیں۔ نہ عقول ان کا اندازہ لگا سکتے ہیں اور نہ اذہان ان کو ضبط کر سکتے ہیں۔ یہ نعمتیں عقل سے ماوراء ہیں زبان ان کے بیان سے قاصر ہے۔
پس ان جملہ نعمتوں میں سے جن کی تعبیر کی زبان کو طاقت بخشی جن کے اظہار کی کلام کو طاقت دی۔ جنہیں انگلیوں کے پوروں نے لکھا بیان نے جن کی تفسیر کی ان جملہ نعمتوں میں سے یہ کلمات بھی ہیں جو میرے لیے غیب کے راستے سے ظاہر وباہر ہوئے۔ پس یہ دل میں وارد ہوئے اور اس میں جاگزیں ہو گئے پھر انہیں صدق حال نے عیاں اور آشکارا کر دیا۔ (یعنی صدق حال و مقال اکٹھے ہو گئے) پس لطف خداوندی نے خود انہیں ظاہر وباہر فرمادیا۔ اللہ کا کرم ہوا اور اس کی تعبیر میں کوئی خطا نہیں ہوئی۔ یہ کلمات طالبان حق اور ارباب علم و معرفت کی رہنمائی کا سامان ہیں۔
آداب السلوک شیخ عبد القادر الجیلانی صفحہ 49 ،مکتبہ دارالسنابل دمشق شام