بعض سوالوں کے جواب میں ملا بدیع الدین کی طرف لکھا ہے:۔
حمد وصلوة کے بعد میرے عزیز بھائی کو معلوم ہو کہ درویش کمال نے آپ کا مکتوب شریف پہنچایا ۔ بڑی خوشی کا موجب ہوا۔ آپ نے اعمال کو قاصراور نیتوں کو کوتاه سمجھنے کے بارہ میں لکھا ہوا تھا۔ واضح ہوا حق تعالیٰ سے التجا ہے کہ اس دید گوزیا دہ کرے اور اس اتہام کو کامل کرے کیونکہ اس راہ میں یہ دونوں دولتیں (دید قصور اوراتہام)اصل مقصود میں سے ہیں۔
اپنے لکھا اور دریافت کیا تھا کہ اسم ذات کاشغل کہاں تک ہے اور اس مبارک کی مداومت سے کس قدر پردے دور ہوتے ہیں اورنفی و اثبات کی نہایت کہاں تک ہے اور اس کلمہ متبرکہ سے کیا وسعت حاصل ہوتی ہے اور کس قدرحجاب دور ہوتے ہیں۔
جاننا چاہیئے کہ ذکر سے مراد غفلت کا دور کرنا ہے اور چونکہ ظاہر کو غفلت سے چارہ نہیں ہے۔ خواہ ابتدا میں ہو خواہ انتہاء میں ۔ اس لئے ظاہر سب وقت ذکر کامحتاج ہے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ بعض اوقات ذکر اسم ذات نفع دیتا ہے اور بعض اوقات ذکر نفی و اثبات مناسب ہوتا ہے۔ باقی رہا معاملہ باطن کا۔ وہاں بھی جب تک بالکل غفلت دور نہ ہوجائے تب تک ذکر کرنے سے چارہ نہیں ہے۔ ہاں اس قدر ابتدا میں یہ دونوں ذکرمتعین (ضروری)ہیں اور توسط و انتہاء میں یہ دونوں ذکر متعین نہیں ہیں۔ اگر قرآن مجید کی تلاوت اور نماز کے ادا کرنے سے غفلت دور ہوجائے تو ہوسکتا ہے لیکن قرآن مجید کی تلاوت متوسط کے حال کے مناسب ہے اور نماز نوافل کا ادا کرنامنتہی کے حال کے مناسب ہے۔
جاننا چاہیئے کہ حضرت ذات کا وہ حضور جو اسما و صفات کے ملاحظہ سے ہو ۔ اگرچہ دائمی ہو۔ احدیت مجردہ (غیر مادی) کی طرف توجہ کرنے والوں کے نزدیک غفلت میں داخل ہے۔ اس غفلت کو بھی دور کرنا چاہیئے اور وراء الوراء کی طرف جانا چاہیئے۔
فراق دوست اگر اندک است اندک نیست درون دیدہ اگر نیم مواست بسیار است
ترجمہ: فراق دوست تھوڑا بھی بہت ہے حق میں عاشق کے نظر آ تا بہت ہے، ہو اگر چہ آدھے بال برابر ہو۔
آپ نے ان واقعات کی نسبت جو ظاہر ہوتے ہیں لکھا تھا۔ اس سے پہلے بھی جواب میں یہی لکھا تھا کہ یہ مبشرات ہیں ابھی ان کے ظہور کا وقت نہیں آیا۔ منتظر ر ہیں اور کام کرتے جائیں۔
كَيْفَ الْوُصُوْلُ إِلىٰ سُعَادَ وَدُوْنَهَا قُلَلْ الْجِبَالِ وَ دُوْنَھُنَّ خُيُوْفُ
میں سعاد تک کعب کیسے پہنچوں کس قدر خوفناک راستے ہیں ۔والسلام
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ167 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی