اعیان ثابتہ
اعیان عربی لفظ عین کی جمع ہے عین وہ شے جو ممکن الوجود ہو اور غیر کا محتاج نہ ہو جو قابل ذکر شخص یا شخصیت کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور اکثر دور خلافت اور بعد کی اسلامی سلطنتوں کے معززین کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔
اس کے مقابلے میں اعراض آتا ہے جس کی واحد عرض ہے اس کے معنی اپنے قیام میں غیر کا محتاج ہونا
تصوف کی اصطلاح میں موجودات کے امکانی خاکے اعیان ثابتہ کہلاتے ہیں دنیا کی جو چیزیں وجود کے بعد مختلف آثار و احکام کے مظاہر اور آئینہ بن جاتی ہیں جب بذات خود ان کو سوچا جائے یعنی وجود کا یا ان کے موجود ہونے کا خیال سامنے نہ ہو تو اس وقت بعض لوگ ان کو ماہیت درجہ تقرر اور امکانی حقائق کے نام سے موسوم کرتے ہیں(حقائق امکانیہ یا اللہ کا علم ازلی و اجمالی) یہ حکماء اور متکلمین کی اصطلاح ہیں
اور بعض انکو اعیان ثابتہ صور علمیہ قبل الوجود اور اسمائے کونیہ کہتے ہیں یہ صوفیاء کی اصطلاح ہےوہ اشیاء جو اپنے کمالات کے ساتھ مرتبہ علم الہی میں متصف رہتی ہیں۔ ان کا نام اصطلاح صوفیہ میں اعیان ثابتہ ہے۔
اعیان ثابتہ کو کائنات کی اصل اور کائنات کو ان کا عکس کہا جاتا ہے۔اسمائے الہی جن صورتوں پر ظاہر ہوتے ہیں، انہیں مظاہر اسماء کہتے ہیں ۔ وہ صورتیں یا وہ مظاہر جن میں کہ اسمائے الہی علم الہی میں ظاہر ہوتے ہیں
علم حق تعالی کی ایک صفت ہے جو امہات الصفات (حیات، علم،قدرت ،ارادہ،سمع ،بصر اورکلام)میں دوسرے نمبر پر ہےحق تعالی علیم ہے تو اس مرتبہ میں وہی علم وہی عالم وہی معلوم ہے
مرتبہ واحدیت میں علم کا مرتبہ حیات کے بعد ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ علم حیات کی فرع ہے اور قدرت، علم کے تحت ہوتی ہے اور یہاں غیریت کا اعتبار کیا جاتا ہے ۔ ذات حق ازلی و ابدی ہے ، لہذا اس کی صفت علم بھی ازلی و ابدی ہے ۔ اس لیئے اس علم کی معلومات بھی ازلی و ابدی ہیں ۔ ہر شے کی تخلیق خارج میں اللہ تعالیٰ کے علم کے مطابق ہوتی ہے کیونکہ وہ جان کر پیدا کرتا ہے ، پیدا کر کے نہیں جانتا۔ یعنی اشیاء کو وہ تخلیق سے پہلے بھی جانتا ہے اور بعد بھی ۔ جن کو ہم تخلیق سے پہلے حقائق اشیاہ کہتے ہیں اور تخلیق کے بعد ذوات اشیاء ۔ انہی حقائق اشیاء کے مطابق ذوات اشیاء کی تخلیق ہوتی ہے اور انہی حقائق اشیاء کو جو علم الہی میں ہیں اعیان ثابتہ ” کہا جاتا ہے ۔ کلمات معنویہ و کلمات عینیہ اورصور علمیہ بھی انہی کا نام ہے کیونکہ یہ علم الہی کے تعینات ہیں۔ ان کو اعدام یا معد ومات حق بھی کہتے ہیں کیونکہ یہ محض علمی صورتیں ہیں۔ موجود فی الخارج نہیں ہوتے، باعتبار وجود خارجی گویا معدوم ہوتے ہیں ۔ ان کو وجود خارجی کبھی نصیب نہیں ہوتا ۔
فیض اقدس اور فیض مقدس
اعیان ثابتہ کے علم میں نمایاں ہونے کو ” فیض اقدس اور موجود في الخارج ہونے کو فیض مقدس کہتے ہیں ۔ فیض اقدس سے چونکہ صرف ذوات و حقائق علم میں نمایاں ہوتے ہیں لہذا اس کو ” جعل بسیط ، کہتے ہیں اور فیض مقدس سے ذات اور وجود کا اقتران ہوتا ہے
اس لیئے اس کو ” جعل مرکب ” کہا جاتا ہے۔
آسان مفہوم
خارج میں موجود مخلوقات کے جو ہیولے اللہ کے خیال اور تصور(یعنی صفت علم)میں موجود ہیں’ وہ اَعیانِ ثابتہ ہیں۔ یعنی ہر ہر پیدا شدہ مخلوق کا ایک عین ِثابت اللہ کے علم میں موجود ہے اور اس عین ِثابت کے مطابق اس مخلوق کا ظہور ہوتا ہے’ جیسا کہ ایک بڑھئی جب میز’ کرسی اور پلنگ وغیرہ بناتا ہے تو ان کو بنانے سے پہلے اس کے ذہن میں ان کے ہیولے موجود ہوتے ہیں اور جیسا ہیولہ اس کے ذہن میں ہو گا ویسی ہی کرسی’ میز یا پلنگ وہ خارج میں بنائے گا۔
حقائق الاشیاء صور علمیہ یعنی اعیان ثابتہ کو کہتے ہیں جو کہ مرتبہ واحدیت یعنی تعین ثانی ہیں علم الہی میں مقرر اور متعین ہوتی ہیں ان کو حقائق الممکنات اور ازل الممکنات بھی کہتے ہیں
اور وجود سے پہلے ان کی یہ شان یعنی باہم ایک دوسرے سے جدا ہونا اور وہی بات جب پائی جائیں گی تو فلاں فلاں خصوصیتوں کو ان کی ذات چاہے گی اس کی تعبیر ثبوت کے لفظ کی گئی ہے ۔
پس ثابت ہواکہ تمام امکانی حقائق کا وجود تو حادث ہے یعنی نہ ہونے کے بعد پیدا ہوا ہے اور موجود ہونے سے پہلے یقینا ثبوت کی صفت ان کے لئے ثابت اور ان کی طرف منسوب ہوتی ہے ان علمی صورتوں کو اعیان ثابتہ کہتے ہیں۔
تفسیر مظہری میں ہے کہ موت اگرچہ عدمی چیز ہے مگر عدم محض نہیں، بلکہ ایسی چیز کا عدم ہے جس کو وجود میں کسی وقت آنا ہے، اور ایسی تمام معدومات کی شکلیں عالم مثال میں ناسوتی وجود سے قبل موجود ہوتی ہیں جن کو اعیان ثابتہ کہا جاتا ہے ان اشکال کی وجہ سے ان کو قبل الوجود بھی ایک قسم کا وجود حاصل ہے