افضل ترین منزل خالق کی رضا

حضرت شیخ المشائخ، قطب ربانی، غوث صمدانی ، محبوب سبحانی، سیدنا عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہ نے تصوف و طریقت پر مشتمل کتاب” آداب السلوک والتواصل الی منازل الملوک“ میں فرمایا :

تجھے جو (روحانی) حالت عطا ہو اس کے علاوہ کسی اور حالت کو اختیار نہ کر۔ خواہ دوسری منزل اعلی ہو یا  ادنی۔ (اسے ایک مثال سے یوں واضح کیا جا سکتا ہے کہ) جب تو بادشاہ کے گھر کے دروازے پر کھڑا ہو تو اندر جانے کی کوشش نہ کر یہاں تک کہ تجھے جبراًنہ کہ اختیاراًداخل کر دیا جائے مقصد یہ ہے کہ تجھے حکم دیا جائے۔ تجھ پرسختی کی جائے اصرار کیا جائے اور کہا جائے کہ دروازے پر کھڑا ہونا تیرے لیے مناسب نہیں اندر داخل ہو جا۔ محض اذن و اجازت کو کافی نہ سمجھ۔ کیونکہ ہو سکتا ہے تجھے دھوکے سے بلایا جارہا ہو اور تجھ سے فریب کیا جارہا ہو۔ تو دروازے پر صبر کر حتی کہ تجھے اندر جانے پر مجبور کیا جائے۔ اب میراجانا محض جبر اور بادشاہ کے حکم سے ہو گا تو توبادشاہی عتاب سے محفوظ رہے گا۔ کیونکہ تجھ سے باز پرس تواس وقت ہوتی جب تو اپنے اختیار کو کام میں لاتا۔ اندر جانے کی خواہش و تمناکرتا۔ بے صبری اور سوئے ادبی کا مرتکب ہو تا اور جس حالت پر تجھے رکھا گیا تھا اس حالت پر راضی نہ ہو تا۔ اب جبکہ تجھے باصر اربادشاہ کے حکم سے اندر بلایا گیا ہے تو سر جھکا دے۔ آنکھیں نیچی کر لے اور سراپا ادب بن جا ۔ جس کام کا حکم ملے اسے سرانجام دے جس خدمت کا مطالبہ کیا جائے اسےبجالا۔کبھی ترقی اور کسی بلند مذہب کا مطالبہ نہ کر۔ اللہ کریم نے اپنے نبی محمد مصطفی ﷺ سے فرمایا : 

وَلَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَى مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِنْهُمْ زَهْرَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا لِنَفْتِنَهُمْ فِيهِ وَرِزْقُ رَبِّكَ خَيْرٌ وَأَبْقَى  اور آپ مشتاق نگاہوں سے نہ دیکھے ان چیزوں کی طرف جن سے ہم نے لطف اندوز کیا ہے کافروں کے چند گروہوں کو۔ یہ محض زیب و زینت ہیں دنیوی زندگی کی اور انہیں اس لیے دی ہیں تا کہ ہم آزمائیں انہیں ان سے اور آپ کے رب کی عطا بہتر اور ہمیشہ رہنے والی ہے“ 

اللہ تعالی اپنے نبی مصطفی مختارﷺ کو ادب سکھارہا ہے۔یعنی اپنے حال کی حفاظت کیجئے اور اللہ تعالی کی عطاپر خوش رہیئے۔ کیونکہ آپ کے رب کی عطا بہتر اور ہمیشہ رہنے والی ہے“ 

لیکن آپ کے رب نے آپ کو بھلائی اور نبوت کے جس نور سے سر فراز کیا ہے۔ آپ کو علم ، قناعت اور صبر کی جو دولت عطا فرمائی ہے۔ آپ کو دین کی ولایت اور اسوۂ حسنہ کی جس نعمت سے سرفراز فرمایا ہے وہ ہر اس نعمت سے اولی ہے جو کسی اور کو عطا کی گئی ہے۔ 

حفظ حال، رضابالعطاء اور ماسواء کی طرف سے اعراض سب بھلائیوں کی بنیاد ہے۔ کیونکہ دنیاوی چیزیں یا تو تیرے مقدر میں لکھی جا چکی ہونگی یا کسی دوسرے کے مقدر میں ہو نگی یا پھر نہ یہ تیری قسمت کا نوشتہ ہو گی اور نہ کسی دوسرے کی قسمت میں مقرر ہونگی بلکہ وہ محض فتنہ و آزمائش کیلئے پیدا کی گئی ہو نگی۔ 

جو چیز تیری قسمت کا نوشتہ ہے وہ تجھے مل کر رہے گی۔ چاہے تو انکار کرے یا اس کو طلب کرے۔ ایسی چیز کیلئے بے صبری۔ مشرکانہ طریق اختیار کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ عقل و فہم اسے روا نہیں سمجھتے۔ اور اگر اس چیز کا ملنا کسی دوسرے کے مقدر میں لکھا جا چکا ہے تو تجھے کسی صورت نہیں مل سکتی۔ تو اس کے لیے جتنے جتن کرے۔ جتنی کوششیں کرے کامیاب نہیں ہو گا۔ توایسی چیزکیلئے مشقتیں کیوں برداشت کر تا ہے۔ اور اگر اس کی تخلیق محض آزمائش کیلئے ہے۔ اگر یہ فتنہ ہے اور کسی انسان کے مقدر میں نہیں تو کوئی عقل مند فتنے کو گلے سے نہیں لگا سکتا۔ اس لیے بھلائی اور سلامتی حفظ حال میں ہی ہے۔ 

(پھر مذکورہ تمثیل کی طرف آئیے ) اگر تجھے بادشاہ کے دربار تک رسائی حاصل ہو جائے تو تجھے چاہیئے کہ پہلے سے زیادہ آداب بجالا۔ عاجزی و انکساری سے کام لے۔ کیونکہ بادشاہ کے قریب ہونے کی وجہ سے تو زیادہ خطرے میں ہے۔ کسی اعلی یا ادنی منصب کی خواہش نہ کر۔ اور نہ ہی موجودہ منصب پرثابت وباقی رہنے کی کو شش کر۔ اسی حالت پر قناعت کر۔ اختیار کو کام میں نہ لا۔ کیونکہ یہ بادشاہ کی عطا کا انکار ہو گا۔ اور کفران نعمت دنیاو آخرت میں ذلت و رسوائی کا موجب بنتا ہے۔ 

ہمیشہ ہماری ان نصیحتوں پر عمل پیرا رہے حتی کہ تیراحال مقام میں بدل جائے اور پھر تو بھی اس نعمت سے محروم نہ ہو۔ پس جب آیات و کرامات کا صدور ہو گا تو تجھے معلوم ہو جائے گا کہ یہ مقام عطیہ ربانی ہے تو تو ہمیشہ اس سے تمسک کرے گا اور الگ نہیں ہو گا کیونکہ احوال اولیاء کیلئے اور مقامات ابدال کیلئے ہیں۔ 

آداب السلوک شیخ عبد القادر الجیلانی صفحہ 63 ،مکتبہ دارالسنابل دمشق شام


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں