اللہ کا شکرہی بہتر ہے

حضرت شیخ المشائخ، قطب ربانی، غوث صمدانی ، محبوب سبحانی، سیدنا عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہ نے تصوف و طریقت پر مشتمل کتاب” آداب السلوک والتواصل الی منازل الملوک“ میں فرمایا :

اللہ تعالی سے مانگو کہ وہ تمہیں اپنے فیصلے پر سر تسلیم خم کرنے اور اپنے فعل میں فنا ہونے کی توفیق بخش دے۔ کیونکہ یہی سب سے بڑی راحت اور جنت عالیہ ہے جو فورا اس دنیا میں بندے کو عطا کر دی جاتی ہے۔ یہی درگاه خداوندی کا سب سے بڑادر وازہ اور بندہ مومن سے اللہ تعالی کی محبت کا ذریعہ ہے۔ پس جسے اللہ تعالی محبوب رکھتا ہے اسے دنیاو آخرت میں عذاب نہیں دیتا۔تسلیم ورضاہی میں قرب و وصال الہی ہے اس سے اطمینان کی دولت ملتی ہے۔ خواہشات نفس کی طلب میں مشغول نہ ہو جائے جو چیز تمہاری قسمت میں نہیں یا قسمت میں لکھی جا چکی ہے اس کے لیے سرگردان نہ پھرو۔ کیونکہ جو مقدر میں ہے ہی نہیں اس کی طلب میں سر گرداں رہنا حماقت رعونت اور جہالت ہے۔ جو چیز قسمت میں نہیں اس کی تلاش میں سرگردانی سب سے بڑی سزا ہے۔ اور جو چیز مقدر میں ہے اس کے لیے تگ و دو محض حرص وہوا اور عبودیت، محبت اور حقیقت میں شرک ہے۔ کیونکہ غیر اللہ میں مشغولیت شرک ہے۔ دنیاکا طالب اللہ کی محبت اور دوستی میں سچا نہیں ہو تا۔ کیونکہ محبوب کے ہوتے ہوئے جو کسی غیر کی سنگت اختیار کر تا ہے کذاب ہے۔ اپنے عمل پر معاوضہ طلب کرنے والا بھی مخلص نہیں۔ 

مخلص بندہ صرف وہ ہے جو اللہ تعالی کی عبادت صرف اس نیت سے کرتا ہے کہ ربوبیت کا حق ادا ہو جائے۔ اور اس خیال سے۔ کہ رب العزت مالک حقیقی ہے اور بندے کی عبادت اس کا حق ہے کیونکہ وہ جانتا ہے اللہ عزوجل اس کا مالک ہے وہ اس بات کا مستحق ہے کہ اس کی اطاعت و فرمانبرداری کی جائے اور حق بندگی ادا کیا جائے۔ بندے کی ہر چیز ، اس کی حرکات و سکنات ، اس کے کسب و کمال حتی کہ بندہ خود اور اس کے پاس جو کچھ ہے اللہ تعالی کی ملکیت ہے۔ جیسا کہ ہم کئی مقامات پر بیان کر چکے ہیں کہ بندے کی تمام عبادات اللہ کے فضل و کرم اور توفیق سے ہیں اگر وہ قوت و طاقت عطانہ کرتا توبندہ ان عبادات کو کیسےبجالا سکتا تھا۔ پس اس کریم کا شکر کر نادنیوی و اخروی عوض وجزاء سے زیادہ بہتر اولی ہے۔ تعجب ہے تو حظوظ دنیامیں مشغول ہے حالانکہ تو دیکھ رہا ہے کہ خلق کثیر کو جوں جوں حظوظ دیناو لذت ہائے دنیا زیادہ ملتے ہیں۔ جوں جوں دنیا کی نعمتیں اور دولت زیادہ ملتی ہے وہ اللہ رب العزت پر زیادہ ناراض ہوتے جاتے ہیں۔ ان کی بے آرامی اور بے چینی میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ جوں جوں نعمتیں بڑھتی ہیں توں توں کفران نعمت میں اضافہ ہو تا ہے۔ ادھر دولت میں اضافہ ہوا اور ادھر 

هموم و غموم کے بادل گہرے ہو گئے ۔ جس قدر دولت دنیا اکٹھی ہوئی اسی قدر دوسروں کے مقدر کو حاصل کرنے کا حرص بڑھ گیا۔ دنیا دار سب کچھ ہونے کے باوجود اپنے آپ کو حقیر اور چھوٹے خیال کرتے ہیں اور ان کے پاس جو کچھ ہے اسے بے وقعت سمجھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دنیا کی ساری دولت ان کی تجوریوں میں جمع ہو جائے۔ ان کے خیال میں دوسروں کی دولت زیادہ ہے۔ اسی لیے وہ دوسروں سے مرعوب ہوتے ہیں اور احساس محرومی انہیں پریشان رکھتا ہے۔ اسی لیے وہ دوسروں کے مقدر میں لکھے مال و دولت کے خواہاں ہوتے ہیں اور اسے حاصل کرنے میں اپنی عمریں ضائع کر دیتے ہیں۔ ان کی تمام بدنی استعداد میں دنیا کے ایندھن کو جمع کرنے میں صرف ہوتی ہیں۔ وہ ایک راستہ پر سرپٹ دوڑتے رہتے ہیں حتی کہ عمر تمام ہو جاتی ہے اور مال برے کاموں میں خرچ ہو جاتا ہے۔ دنیا کماتے کھاتے ان کے جسم تھک کر چور ہو گئے۔ جبین عرق آلود اور نامہ اعمال سیاہ ہو جاتے ہیں۔ گناہوں کی کثرت ہو جاتی ہے۔ مال کی طلب میں کبائر کا ارتکاب ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالی کے احکام کی پیروی کی سعادت سے محروم رہتے ہیں اور مفلس وبے نوا خالی ہاتھوں دنیا سے کوچ کرتے ہیں۔ نہ دنیا کی زیب و زینت سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں اور نہ ہی آخرت کی ابدی نعمتوں سے کچھ حصہ پاتے ہیں۔ دنیا بھی گئی اور آخرت بھی ہاتھ نہیں آتی۔ اللہ تعالی کی عبادت کر کے اس کے لکھے پر شکر نہ کیا اور دوسروں کی قسمت کے نوشتے سے بھی محروم خسیس رہے۔ یہی لوگ پوری مخلوق میں سب سے زیادہ جاہل ، احمق اور عقل و بصیرت سے محروم حسیس اور کمینے ہیں۔ اگر یہ اللہ تعالی کے فیصلے پر راضی رہتے۔ اللہ کی عطاپر قناعت کرتے اور اپنے مالک کی اطاعت و فرمانبرداری میں لگے رہتے توبے منت غیر بڑی آسانی سے اپنا مقصود پا لیتے اور جب دنیا سے دار آخرت کو جاتے تو بامراد اور کامیاب ہوتے۔ . 

اللہ تعالی ہمیں اور آپ سب کو صبر ورضا کی توفیق دے۔ ہم اس کی رضا کے طالب رہیں۔ اس سے حفظ و امان طلب کریں اور نیک کاموں کی توفیق چاہیں جن سے وہ راضی اور خوش ہو۔

آداب السلوک شیخ عبد القادر الجیلانی صفحہ 179 ،مکتبہ دارالسنابل دمشق شام


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں