حکایت بیان کی جاتی ہے کہ ایک شخص نے بھنورا دیکھا اور کہا یہ بری مخلوق ہے نہ اس کی شکل خوبصورت ہے اور نہ ہی اس کی بو اچھی ہےاس کو پیدا کرنے میں اللہ تعالی کی معلوم نہیں کون سی حکمت ہے
اس کے بعد اللہ تعالی نے اس کوایک ایسے زخم میں مبتلا کر دیا کہ اس کے علاج سے تمام حکیم طبیب عاجز آگئے اور وہ بھی مایوس ہو گیا کہ شاید اب یہ زخم ٹھیک نہیں ہوگا اسی بیماری کے دوران اس نے ایک کاہن شخص کی آواز سنی جو گلیوں میں آواز دے رہا تھا تو اس بیمار نے کہا اس کو میرے پاس بلا کر لاؤ تاکہ وہ میرا زخم دیکھ سکے لوگ اسے کہنے لگے تو اس کاہن کو بلا کر کیا کرے گا جب کہ تیرے علاج سے بڑے بڑے ماہر طبیب عاجز ہو گئے ڈوبتے کو تنکے کا سہارا اس بیمار نے کہا اس کاہن کا میرے پاس آنا بہت ضروری ہے بالآخر لوگ اس کاہن کو بلالائے جب اس کاہن نے زخم دیکھا تو کہنے لگا ایک بھنورا لاؤ لوگ ہنسنے لگے۔
لیکن اس بیمار کے دل میں بھنورے کے متعلق کہی ہوئی بات گھومنے لگی( کہ میں تو اسے فضول اور نکمی مخلوق قرار دیتا تھا) پھر بھی اس نے لوگوں سے کہا جو اس کاہن نے مانگا ہے وہ حاضر کرو کیونکہ یہ آدمی اپنے کام میں بصیرت رکھتا ہے۔ چنانچہ لوگوں نے اس کے سامنے بھنوراحاضر کر دیا کاہن نے اس کو آگ میں جلا کراس بیمار کے زخم پر لگایا تو اللہ تعالی کے حکم سے وہ تندرست ہو گیا اس کے بعد بیمار حاضرین سے کہنے لگا اے لوگو یہ بات جان لو کہ اللہ تعالی نے مجھے یہ بتانا چاہا ہے کہ اس کی حقیر سی مخلوق بھی بہترین شفاء دے سکتی ہے اور اللہ حکمت والا اور خبر رکھنے والا ہے
حاصل سبق
قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے
عَسٰٓى اَنْ تَكْـرَهُوْا شَيْئًا وَّهُوَ خَيْـرٌ لَّكُمْ
ممکن ہے تم کسی چیز کو ناگوار سمجھو اور وہ تمہارے لیے بہتر ہو
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا
يَا مَعْشَرَ التُّجَّارِ إِنَّهُ يَشْهَدُ بَيْعَکُمْ الْحَلِفُ وَاللَّغْوُ فَشُوبُوهُ بِالصَّدَقَةِ
اے تاجروں کی جماعت ! تم لوگوں کے فروخت کرنے میں قسم آتی ہے اور بےہودہ اور لغو باتیں بھی آتی ہیں (یعنی تم لوگ کاروبار میں فضول اور بیہودہ گفتگو کرتے ہو) تو تم اس کو صدقہ کے ساتھ شامل کردو (یعنی کفارہ کے طور پر کچھ صدقہ خیرات دے دیا کرو)