توہین رسالت اور غیرت مند کتا

مصنف فتح الباری حضرت امام حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ نے ایک کتے کا ذکر کیا ہے, جس نے رسول اللہ ﷺ کے دشمن کی گستاخی کی وجہ سے ایک مجع عام میں ہلاک کیا تھا

ایک دن عیسائیوں کے بڑے پادریوں کی ایک جماعت منگولوں کی ایک تقریب میں شرکت کے لیے روانہ ہوئی. جو ایک منگول شہزادے کی عیسائیت قبول کرنے پر منعقد کی گئی تھی، اس تقریب میں ایک عیسائی مبلغ نے رسول اللہ ﷺ کو گالی بکی، قریب ہی ایک شکاری کتا (شکاری کتا عموما انسانوں پر حملہ آور نہیں ہوتا )بندھا ہوا تھا. جو اس کی طرف سے گالی بکنے پر چھلانگیں مارنے لگا. اور زوردار جھٹکا دے کر رسی توڑ تے ہوئے اس بدبخت پر ٹوٹ پڑا. اور اس کو کاٹ لیا. لوگوں نے آگے بڑھ کر اس کتے کو فوراً قابو کیا. اور پیچھے ہٹا یا، تقریب میں موجود بعض لوگوں نے کہا کہ یہ تو نے حضرت محمد (ﷺ) کے خلاف گستاخانہ زبان استعمال کی ہےیہ کتا تمہاری اس گفتگو کی وجہ سے حملہ آور ہوا ہے، اس گستاخ نے کہا. بالکل نہیں
بلکہ یہ خودار کتا ہے. جب اس نے بات چیت کے دوران مجھے دیکھا کہ میں بار بار ہاتھ اٹھا رہا ہوں. اس نے سمجھا کہ میں اس کو مارنے کے لیے ہاتھ اٹھا رہاہوں. تو اس نے مجھ پر حملہ کر دیا، یہ کہہ کر اس بد بخت نے ہمارے محبوب ﷺ کو پھر گالی بکی. اس بار کتے نے رسی کاٹ دی. اور سیدھا اس ملعون پرچھلانگ لگا کر اس کی منحوس گردن کو دبوچ لیا اور اس بار لوگوں کی مدد کے باوجود اس کتے نے اس کی گردن کو اس وقت چھوڑا جب وہ ملعون ہلاک ہو گیا،
اس کو دیکھ کر 40000 (چالیس ہزار) منگولوں نے اسلام قبول کیا”*

الدرر الكامنة في أعيان المائة الثامنة، جلد 4 صفحہ 153،أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني الناشر: مجلس دائرة المعارف العثمانية – حيدر اباد/ الهند

اور امام الذھبی نے اس قصے کو صحیح اسناد کے ساتھ ” معجم الشیوخ جلد دوم صفحہ 55 مطبوعہ مكتبة الصديق، الطائف – المملكة العربية السعودية میں نقل کیا ہے ، اس واقعے کے عینی شاہد جمال الدین نے کہا ہے کہ*

وَاللَّهِ الْعَظِيمِ، وَأَنَا أَنْظُرُ ثُمَّ عَضَّ عَلَى زَرْدَمَتِهِ فَاقْتَلَعَهَا فَمَاتَ الْمَلْعُونُ

“اللہ کی قسم کتے نے میری آنکھوں کے سامنے اس ملعون گستاخ کوکاٹا اور اس کی گردن کو دبوچا جس سے وہ ہلاک ہو گیا”


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں