محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مواعظ ،متعدد ملفوظات اور فتوحات کا مجموعہ ہے، یہ خطبہ ان کے ملفوظات میں سے ہے۔
نیک عمل وہی ہے جو اللہ کے لئے ہو:
اللہ کے لیے سچی طلب، نیک اعمال کے باعث ہوتی ہے ۔ نیک عمل وہی ہے جو محض اللہ کے لیے ہو، اور اس میں کوئی شریک نہ ہو ۔ نیک عمل تجھے تیری مراد کے راستے پر ڈال دے گا، اس میں تو دائیں بائیں ہوئے بغیر اپنے دل اور معنی اور باطن کے قدموں سے اس راستے پر سیر کرے گا لیکن اس میں مخلوق اور د نیا وآخرت سب سے علیحدہ ہو جائے گا۔ اور ان لوگوں میں سے ہو جائے گا جو فقط اللہ ہی کی ذات کو چاہنے والے ہیں، اور تو سیدنا موسی علیہ السلام کی طرح کہے گا:
وَعَجِلْتُ إِلَيْكَ رَبِّ لِتَرْضَى
اور میرے رب ! میں نے تیری طلب میں جلدی اس لیے کی ہے کہ تو مجھ سے راضی ہو جائے‘‘۔
جو کوئی اللہ کی رضا اور اس کی ذات کا طالب ہو جا تا ہے تو وہ ایسا ہو جا تاہے جیسا کہ اللہ تعالی نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کےبارے میں کہا تھا: وَحَرَّمْنَا عَلَيْهِ الْمَرَاضِعَ مِنْ قَبْلُ
اور ہم نے موسی پر پہلے ہی دودھ پلانے والیاں حرام کر دی تھیں‘‘۔
اسی طرح محب صادق کے دل پر ہرنئی پیدا ہونے والی مخلوق کا دودھ یعنی اس سے تربیت پانا حرام کر دیا جاتا ہے،۔فنا کے بعد اسے بقا مل جاتی ہے ۔ غیرت الہی کی وجہ سے سب دودھ پلانے والیوں کے دودھ اس کے حق میں خشک کر دئیے جاتے ہیں ، اور سب چیز یں اس کے دل سے زائل کر دی جاتی ہیں (وہ صرف دست قدرت سے تربیت پاتا ہے تا کہ وہ اپنے محبوب کے سوا کسی غیر کا اسیر نہ ہو جاۓ ،یہ مؤمن عارف ہمیشہ رسول اکرم ﷺ کی معیت میں رہ کر اپنے صالح عمل سے آپ ﷺ کو راضی کر تا رہتا ہے، حتی کہ آپ ﷺ اللہ تعالی سے اس کے دل کی حضوری کے لئے اجازت کے طالب ہوتے ہیں ، یہ عارف رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں غلام کی طرح خدمت میں لگارہتا ہے، کافی عرصہ خدمت کرنے کے بعد عرض گزار ہوتا ہے: ” یا رسول اللہ! مجھے بادشاہ کا دروازہ دکھادیں ، اس میں مشغول کر دیں ، اور ایسی جگہ پر بٹھا دیں کہ جہاں سے بادشاہ کودیکھتا رہوں، اور میرا ہاتھ اس کے قرب کے دروازے کی زنجیر میں لگادیں‘‘۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ اسے اپنی معیت میں لے کر آستانہ الہی کے دروازے کے پاس لے جاتے ہیں، ارشاد باری ہوتا ہے:
اے میرے محبوب! – اے سفیر!
اے رہنما اے معلم ! ـ تیرے ساتھ کون ہے؟ ۔ رسول اللہ ﷺعرض کرتے ہیں: اے میرے پروردگار! تو جانتا ہے کہ یہ ایک ناتواں اور کمزور بندہ ہے جس کی میں نے پرورش اور تربیت کی ہے، اسے اس آستانہ کی خدمت کے لیےچنا ہے ۔ پھر آپ ﷺ اس عارف کے دل سے ارشاد فرماتے ہیں:
ها انت وربك’’اب تو ہے اور تیرارب!‘‘
جیسا کہ جبرئیل علیہ السلام نے رسول اللہ ﷺ سے معراج کی شب میں جبکہ آپ کے ساتھ آسمان پر چڑھے اور آپ ﷺ کومقام دنی فتدلی تک پہنچادیا عرض کیا:
ها انت وربك’’اب آپ ہیں اور آپ کا رب!‘‘۔
فیوض غوث یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 568،قادری رضوی کتب خانہ گنج بخش لاہور