انسان کی جامعیت اور بعض ان پوشیده اسرار کے میدان میں جو اس مقام سے تعلق رکھتے ہیں اور اس کے مناسب بیان میں مولانا محمد ہاشم کی طرف صادر فرمایا ہے۔
حمدوصلوۃ کے بعد واضح ہو کہ جو انسان میں کمالات ہیں سب مرتبہ وجوب تعالت و تقدست سے مستفاد(بطور فائدہ حاصل شدہ) ہیں۔ اگر علم ہے تو وہ بھی اس مرتبہ کے علم سے مستفاد ہے اور اگر قدرت ہے تواسی مرتبہ کی قدرت سے ماخوذ ہے۔ علی ہذالقیاس ہر مرتبہ کا کمال اس مرتبہ کے اندازه کے موافق ہے۔ انسان کے علم کو واجب تعالیٰ کے علم کے مقابلہ میں وہ نسبت ہے جو مردہ کو جولاشے محض ہے اس زندہ کے ساتھ نسبت ہے جس نے حیات ابدی سے زندگی پائی ہو۔ اسی طرح انسان کی قدرت کو واجب تعالیٰ کی قدرت کے مقابلے میں وہ نسبت ہے جو عنکبوت(مکڑی) کو کہ اپنے گھر کو بنتا رہتا ہے۔ اس شخص کے ساتھ نسبت ہے جس کی ایک ہی پھونک سے زمین و آسمان و پہاڑ اور دریا پارہ پارہ ہوکرگرد کی طرح اڑ جائیں۔ دوسرے کمالات کو بھی اسی پر قیاس کرنا چاہیئے۔ یہ فرق بھی میدان عمارت تنگی کے باعث بیان کیا گیا ہے ورنہ۔
(چہ نسبت خاک را با عالم پاک ،خاک کو عالم پاک سے کیا نسبت)
پس انسان کے کمالات مرتبہ وجوب کے کمالات کی صورت میں ہیں اور ان کمالات نے اس مرتبہ کے کمالات سے مشارکت اسمی کے سوا اور کچھ حاصل نہیں کیا۔ ۔ فَإِنَّ اللهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ الله تعالیٰ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا۔ اسی سبب سے ہے اور مَنْ عَرَفَ نَفْسَهُ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّهُ (جس نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے رب کو پہچان لیا) کے معنی اس بیان سے ظاہر ہوتے ہیں کیونکہ جونفس میں ہے خواہ صورت ہی ہو وہی ہے جس کی حقیقت مرتبہ وجوب میں حاصل ہے۔ اس بیان سے انسان کی خلافت کے راز کو معلوم کرنا چاہیئے کیونکہ شے کی صورت شے کا خلیفہ ہوتی ہے۔ اس مقام پرزندیقوں(بے دینوں) اور مجوسیوں نے گمان کیا ہے کہ خداوند تعالیٰ انسان کی صورت پر ہے اور بیوقوفی سے انسان کے قول اور اعضاء کو حق تعالیٰ کے لئے ثابت کیا ہے۔ ضَلُّوْا فَاَضَلُّوْا یہ لوگ خود بھی گمراہ ہیں اور اوروں کو بھی گمراہ کرنے والے ہیں) یہ نہیں جانتے کہ حق تعالیٰ کی بارگاہ میں صورت وغیرہ کا اطلاق کرنا تشبیہ وتمثیل کی قسم سے ہے(استعارہ اور مجاز طور پر) نہ کہ تحقیق و تثبیت کے طور پر کیونکہ اس صورت کی حقیقت ترکیب اور تبعض اور تجزی یعنی جزجز ہونا چاہتی ہے جو وجوب کے منافی اور قدم کے مانع ہے۔ قرآن کی آیات متشابهات بھی ظاہر سے مصروف اور تاویل پرمحمول ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّهُ یعنی اس تاویل کو سوائے خدا تعالیٰ کے اور کوئی نہیں جانتا۔ پس معلوم ہوا کہ حق تعالیٰ کے نزدیک متشابہ بھی تاویل پر محمول اور ظاہر سے مصروف ہیں اور علمائے راسخین کو بھی اس تاویل کا علم عطا فرماتا ہے جس طرح کہ علم غیب پر جواسی کے ساتھ مخصوص ہے۔ اپنے خاص رسولوں کو اطلاع بخشتا ہے۔ اس تاو یل کو تو اس طرح خیال نہ کرے جس طرح کہ ید کی تادیل قدرت سے اور وجہ کی تاویل ذات سے کرتے ہیں۔ حَاشَا وَكَلَّابلکہ وہ تاویل ان اسرار میں سے ہے جن کا علم اخص خواص کو عطا فرماتا ہے۔
جاننا چاہیئے کہ فتوحات مکی والے اور اس کے تابعداروں نے کہا ہے کہ جس طرح واجب تعالیٰ کی صفات عین ذا ت ہیں ۔ اسی طرح یہ صفات بھی ایک دوسرے کی عین ہیں۔ مثلا علم جس طرح کے عین ذات ہے۔ اسی طرح عین قدرت اور عین ارادت اور عین سمع اور عین بصر بھی ہے۔ باقی صفات کو بھی اسی پر قیاس کرلینا چاہیئے۔ یہ بات بھی فقیر کے نزدیک صواب سے دور ہے کیونکہ اس بات سے صفات زائدہ کے وجود کی نفی لازم آتی ہے جو اہلسنت و جماعت کے مذہب کے برخلاف ہے کیونکہ صفات ثمانیہ(علمائے ماتریدیہ صفات سبعہ کے ساتھ تکوین بھی شمار کرتے ہیں) یا سبعہ (حیات، علم، قدرت،ارادہ، سمع، بصر، کلام) ان بزرگواروں کی رائے کے موافق خارج میں موجود ہیں ۔ معلوم ہوتا ہے کہ واجب تعالیٰ کی ذات و صفات کی عینیت کا وہم ان کو اس وجہ سے پیدا ہوا ہے کہ انہوں نے اس مقام کے تغائر وتبائن کو اس مقام کے تغائر وتبائن کی طرح خیال کیا ہے اور جب اس تغائر وتبائن کو اس تغائر وتبائن کی طرح ہماری ذات و صفات ہیں ۔ نہ پایا اور اس مقام کےتمائز کو اس مقام کےتمائز کے مانند نہ دیکھا تو اس لئے تغائر وتبائن(غیر اور جدا) کی نفی کر دی اور ایک دوسرے کی عینیت کے قائل ہو گئے اور یہ نہ جانا کہ اس مقام کا تغائر وتمائز واجب تعالیٰ کی ذات و صفات کی طرح بیچون و بیچگون ہے اور اس تمائز کو اس تمائز کے ساتھ صورت و اسم کے سوا اور کوئی نسبت نہیں ۔ پس تبائن و تمائز اس مقام میں ثابت ہے لیکن اس کے ادراک سے عاجز ہیں ۔ یہ نہیں کہ جس چیز کا ہم ادراک نہ کرسکیں اس کی نفی کردیں اور اہل حق کے مخالف ہو جائیں وَاللَّهُ سُبْحَانَهُ الْمُلْهَمُ الصَّوَابَ اللہ تعالیٰ بہتری کا الہام کرنے والا ہے۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر اول صفحہ487ناشر ادارہ مجددیہ کراچی