محبوب سبحانی غوث صمدانی ، شہباز لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی معروف کتاب ”الفتح الربانی والفیض الرحمانی‘‘باسٹھ (62 ) مجالس میں سے انیسویں مجلس کا خطبہ جس کا عنوان” المجلس التاسع عشر فی مخافۃ اللہ ‘‘ ہے۔
منعقده 18 / ذیعقدہ 545 بروز منگل بوقت شام، بمقام مدرسہ قادر یہ
اس کی ذات کے طالب بن کر اس کی اطاعت کرو:
اللہ تعالی اگر جنت و دوزخ کو پیدا نہ کرتا تو بھی اس کی ذات اس لائق ہے کہ اس کا خوف کیا جائے اور اس سے امید رکھی جائے ، اس کی ذات کے طالب بن کر اس کی اطاعت کرو ۔ اس کے عذاب اور ثواب سے کیا غرض ، اطاعت یہی ہے کہ
احکام الہی عمل پر کیا جائے اور اس کے منع کردہ کاموں سے منع رہا جائے ، اس کی قضاؤں پر صبر کیا جائے ۔اس کے حضور تو بہ کرو، اس کے سامنے گر یہ وزاری کرو، آنکھوں اور دل کے آنسوؤں سے اس کے سامنے عاجزی کرو، رونا عبادت ہے، کیونکہ وہ کمال درجہ کی عاجزی وانکساری ہے، جب تیری نیت نیک ہوگی ، اور توبہ کر کے نیک اعمال ہمیشہ کرے گا تو اللہ تجھے اس کا نفع عطا فرمائے گا ، وہ تو مظلوموں کا بدلہ لینے والا ہے، اپنے تابعداروں کے لئے اس کی رحمت و راحت وہاں ظاہر ہو گی ،د نیا وآخرت میں اس کی محبت کو لازم سمجهو ، جن ضروری چیزوں کی تجھے حاجت ہے، ان سب سے بڑھ کر اس کی محبت جانو ، اس کی محبت ہی تجھے نفع دے گی ، مخلوق میں سے ہر ایک تجھے (اپنے فائدے کے لئے) اپنے لئے چاہتا ہے، جبکہ رب تعالی تجھے تیرے لئے ہی چاہتا ہے اور دوست رکھتا ہے ۔
نفس اللہ کی منشاء کے خلاف کرتے ہیں:
اے لوگو! تمہارے نفس خدائی کا دعوی کرتے ہیں اور تم اس سے بے خبر ہو،( اپنے تئیں ) وہ اللہ تعالی پر حکم چلاتے ہیں ، اور جس کام کو کرنا اللہ کی منشاء ہے نفس اس کے خلاف کرتے ہیں ۔ اللہ کے دشمن شیطان مردود سے دوستی رکھتے ہیں۔ اللہ سے دوستی نہیں رکھتے ، جب قضائے الہی نازل ہوتی ہے تو نہ اس کی موافقت کرتے ہیں ، نہ اس پر صبر کرتے ہیں ۔ بلکہ جھگڑا اور نزاع کرتے ہیں ۔ نفسوں کو اسلام کی خبر نہیں بلکہ اسلام کے نام پر قناعت کئے ہوئے ہیں، نام کا اسلام نفسوں کو کچھ فائدہ نہ دیگا اورنہ اس پر کچھ نفع ملے گا۔
اللہ سے خوف کر ، اس سے نڈرنہ ہو
بیٹا! اللہ سے خوف کر ، اس سے نڈر نہ ہو، حتی کہ تو اس سے ملاقات کرے اور تیرا دل اور بدن اس کے سامنے ثابت قدم رہیں، اور امان کا پروانہ تیرے ہاتھ میں ہو، امان کا پر وانہ مل جانے پر تم بے خوف ہو سکتے ہو، امان کا پروانہ ملنے پر بکثرت بھلائی ملے گی ۔ امان مل جانے پر بھلائیاں برقرارر ہیں گی۔ کیونکہ وہ نعمت دے کر واپس نہیں لیا کرتا ۔ اللہ تعالی جب کسی کو بزرگی عطا کرتا ہے تو اسے اپنا قرب عطا کر کے اپنے نزدیک کر لیتا ہے، جب اس پر خوف طاری ہوتا ہے تو اللہ تعالی اس پر ایسی چیز القاءفر ما تا ہے جو خوف کو دور کر کے قلب اور باطن کو اطمینان اور سکون بخش دیتا ہے، سکون اور اطمینان کی سی حالت بندے اور خدا کے درمیان ہمیشہ رہتی ہے۔ تجھ پر افسوس ہے، جاہل ! تو حق سے منہ موڑ کر اسے اپنے دل کے پس پشت ڈال دیتا ہے اور مخلوق کا بندہ بن جاتا ہے، اللہ والے اللہ کے قرب میں رہے، انہیں اپنی پہچان کروادی ،انہوں نے اسے پہچان لیا، ان میں سے جو کوئی اللہ کو پہچان لیتا ہے، (عارف الہی ہو جائے )تو اپنے نفس ، خواہش، طبیعت اور شیطان کی جنگ سے فارغ ہو جا تا ہے، اور ان دشمنوں اور اپنی دنیا سے چھوٹ جاتا ہے،اللہ تعالیٰ ان پر اپنے قرب کے دروازے کھول دیتا ہے جب وہ کسی کام کرنے کی آرزوکرتا ہے تو اسے حکم ہوتا ہے کہ واپس جا کرمخلوق کی خدمت کرو ، مخلوق کو ہماری راہ دکھاؤ ہمارے چاہنے والوں اور ارادت مندوں کی خدمت کرو، تم اللہ والوں کے کام سے بے خبر ہو، اپنے نفسوں کے لئے جو کہ تمہارے دشمن ہیں روشنی کو اندھیرے سے ملاتے ہو، اپنی بیویوں کو راضی کر کے خدا کو ناراض کرتے ہو، تم میں بہت سے ایسے ہیں جو اللہ کی خوشی پر اپنی بیویوں اور اولاد کی خوشی کو ترجیح دیتے ہیں ۔ میں تمہاری یہ سب حرکتیں اور سکون اور ساری فکر محض بیوی بچوں کے لئے دیکھتا ہوں اور اللہ تعالی کی کوئی فکر وخبر نہیں ۔ تجھ پر افسوس! تجھے مردوں میں نہ شمار کرنا چاہئے ، مرد کامل اپنی مردانگی میں اللہ کی رضا کے سوا کوئی کام نہیں کرتا، تیرے دل کی دونوں آنکھیں اندھی ہوگئی ہیں اور باطن کی صفائی بھی مکدرہے، تو اپنے رب سے حجاب میں ہے اور تجھے کچھ نہیں ، اس لئے بعض اولیاء اللہ نے فرمایا: ان حجاب والوں پر افسوس ہے جونہیں جانتے کہ ہم حجاب میں ہیں، ‘‘
ہر بلا خدا کی دوری اور غیر خدا کو اختیار کرنے سے آتی ہے:
تجھ پر افسوس! تیرے برتن میں ٹوٹا ہوا کا نچ ہے، اور تو اسے کھا رہا ہے، حرص اور بھوک کے غلبے ،خواہش اور کثرت لالچ سے تمہیں اس کا علم نہیں ہے ۔ کچھ ہی دیر میں تیرے معدے کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے تجھے مار ڈالے گا ، ہر بلا خدا کی دوری اور غیر خدا کو اختیار کر نے سے آتی ہے۔ اگر تو خلقت کی پرکھ کرتا تو اس سے نفرت کرتا اور خالق سے محبت کرتا ۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا:
اخْتَبِرْ تَقْلِهْ يعنى تبغض –
آزمالے اور اسے دشمن سمجھ یعنی تمہاری دوستی اور دشمنی اور نفرت بغیر آزمائش کے ہے، عقل پرکھ کرتی ہے تمہارے پاس عقل نہیں ، دل پر کھتا ہے تمہارے پاس دل ہی نہیں دل ہی فکر کرتا ہے، دل ہی ذکر کرتا ہے نصیحت پکڑتا اور عبرت حاصل کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہے:
إِنَّ فِي ذَلِكَ لَذِكْرَى لِمَنْ كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ” بے شک اس میں دل والوں کے لئے نصیحت ہے ۔ یا وہ جواسے کان لگا کر دل کی حضوری سے سنے۔ عقل ہی منقلب ہوکر قلب بن جاتی ہے ۔ اورقلب منقلب ہو کر باطن بن جاتا ہے اور باطن منقلب ہوکر فنا ہو جاتا ہے، اورفنامنقلب ہوکر وجود بن جاتا ہے۔
حضرت آدم علیہ السلام و دیگر انبیا کرام علیہم السلام میں بھی شہوتیں اوررغبتیں تھیں لیکن وہ اپنے نفسوں کی مخالفت کرتے رہتے تھے اور اپنے رب کی رضا کے طالب رہتے تھے۔ حضرت آدم علیہ السلام نے جنت میں ایک ہی خواہش کی اور لغزش کھائی، پھر ایسی تو بہ کی کہ اس خواہش کا نام تک نہ لیا، باوجود یکہ حضرت آدم علیہ السلام کی خواہش نیک تھی ۔ کیونکہ آپ نے اس امر کی خواہش کی تھی کہ اللہ تعالی کی ہمسائیگی سے جدا نہ ہو، انبیاء کرام علیہم السلام ہمیشہ اپنے نفسوں اور شہوتوں اور حرصوں کی مخالفت کرتے رہے۔ یہاں تک کہ اپنے حقیقی مجاہدے اور نفسوں کو مشقت میں ڈال کر فرشتوں سے ملے ۔ نبی اور رسول اور اولیاء اللہ ہمیشہ صبر کرتے رہے، تمہیں بھی صبر کر کے ان کی موافقت کرنی چاہئے۔ بیٹا! دشمن کی ضرب پر صبر کرو تم بھی جلد ہی اسے ضرب لگا کر مارڈالو گے، اور اس کا سامان لے لو گے، پھر اس کے صلے میں بادشاہ سے خلعت اور جا گیر پاؤ گے۔
ہر ایک کے ساتھ تمہاری نیت نیک ہونی چاہئے
بیٹا کوشش کرو کہ تم سے کسی کو ایذانہ پہنچے ۔ ہر ایک کے ساتھ تمہاری نیت نیک ہونی چاہئے ، شرع کے حکم سے جسے ایذادو گے تو یہ ایذا پہنچانا تمہارے لئے عبادت ہے، عقل والوں ،شریفوں اور صدیقوں پرتو صور پھونکا جا چکا ۔ اوران کے نفسوں پر قیامت قائم ہو گئی ۔ اپنی ہمتوں کے ساتھ انہوں نے دنیا سے منہ موڑ لیا، اپنی تصدیق کے ساتھ پل صراط سے بھی گزرگئے ، اپنے دلوں کے ساتھ سیر کر کے جنت کے دروازے پر کھڑے ہو گئے ، اور راستے میں کھڑے ہو کر یہ کہہ رہے ہیں ہم اکیلے نہ تو کھائیں گے نہ ہی پئیں گے۔ کیونکہ کریم اکیلے نہیں کھایا کرتا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ الٹے پاؤں دنیا کی طرف لوٹ آئے ۔ تا کہ لوگوں کو اللہ کی طرف بلائیں اور انہیں وہاں کی خبریں سناتے ہیں، ان کے سب کام آسان کر دیتے ہیں ، ۔ جس شخص کا ایمان قوی ہو اور جس کا ایمان مضبوط ہوتو اللہ تعالی نے قیامت کے دن کی جتنی خبر یں دی ہیں، وہ اپنے دل سے دیکھ لیتا ہے ، جنت دوزخ اور جو کچھ ان میں ہے، سب کو دیکھ لیتا ہے، وہ صور اور جو فرشتہ اس پر تعین ہے، دیکھتا ہے ۔ وہ سب چیزوں کو ان کی حقیقت سے پہچانتا ہے ۔ وہ دنیا اور اس کے زوال کو دیکھتا ہے، دنیا والوں کی دولتوں کے انقلاب کو دیکھتا ہے، مخلوق کو دیکھتا ہے کہ گویا قبروں میں پڑی ہے، جب قبروں پر گزرتا ہے تو اس کے اہل کے عذاب اور نعمتوں کومحسوس کرتا ہے، وہ قیامت اور جو کچھ اس میں قیام وموافقت سے ہونے والا ہے، سب کو دیکھتا ہے، وہ اللہ کی رحمت اور اس کا عذاب دیکھتا ہے، وہ فرشتوں کو کھڑے ہو ہے اور نبیوں اور رسولوں اور ابدال اور اولیاء کو اپنے اپنے مرتبہ پر دیکھتا ہے، وہ جنت والوں کو جنت میں ملاقات کرتے ہوئے اور دوزخ والوں کو دز وخ میں عداوت کرتے ہوئے دیکھتا ہے ، جس کی نظر صحیح ہو جاتی ہے وہ اپنے سر کی آنکھوں سے مخلوق کو، اور دل کی آنکھوں سے مخلوق کی طرف صادر ہونے والے اللہ کے فعل کو دیکھتا ہے، وہ اللہ کے حرکت دینے اور اس کی مخلوق سے سکون دینے کو دیکھتا ہے، یہ اولیاء اللہ کی نظر عزت ہے، بعض اولیاء کرام میں ایسے بھی ہیں کہ جب وہ کسی شخص کی طرف نگاہ اٹھاتے ہیں تو :
اس کے ظاہر وسر کی آنکھوں سے دیکھتے ہیں ، اس کے باطن کو اپنے دل کی آنکھوں سے دیکھتے ہیں ، اور اپنے مالک اللہ تعالی کو باطن کی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔ جو خدمت کرتا ہے وہی مخدوم بنتا ہے ( اس کی خدمت کی جاتی ہے )۔ تقدیر الہی کی موافقت کرتا ہے خواہ تقدیر اسے جنگل میں ڈالے یا دریا میں ، خواہ ہموارز مین پر ڈالے یا پہاڑ پر -اسے میٹھا کھلائے یا کڑوا۔
یہ عزت و ذلت امیری وفقیری عافیت و بیماری ہر عالم میں اس کی موافقت کرتا ہے ۔ وہ ہرامر میں تقدیر کے ساتھ چلتا ہے، یہاں تک کہ تقد یر جب یہ جان لے کہ بندہ اب تھک گیا تو اتر کراسے اپنی جگہ سوار کر لیتی ہے، اور اس کی هم رکاب ہو کر اس کی خدمت اور تواضع کرتی ہے، اس لئے کہ یہ شخص اللہ تعالی سے قریب ہے۔ اس کی تعظیم اللہ کے لئے ہے، اس شخص پر یہ سب برکتیں اس وجہ سے ہیں کہ اس نے اپنے نفس اور خواہشوں، حرص اور عادات اور شیطان مردود اور برے ہم نشینوں کی مسلسل و متواتر مخالفت کی ہے۔
التجا ہے: اللهم ارزقنا موافقة قدرك في حين رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ
الہی! ہمیں سب احوال میں اپنی تقدیر کی موافقت نصیب فرما ۔۔ ہمیں دنیا کی بھلائی عطا فرماہمیں آخرت کی بھلائی عطا فرما اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچائے رکھ۔
فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی،صفحہ 135،مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی
الفتح الربانی والفیض الرحمانی صفحہ 86دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان